پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

بایگانی

مصائب امام حسین بیان کرنے کا ثواب

مصائب امام حسین بیان کرنے کا ثواب گریہ ٔ شوق گریہ ٔدلسوزی و عاطفی ، دشمن سے نفرت کے اظہار کا گریہ ،ذلت آمیز اور ناپسندیدہ گریہ، عاجز و شکست خوردہ گریہ ۔ اسی طرح سوگواری کی بھی دو قسمیں ہیں : مثبت اور منفی ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی لیکن صرف وہی آنکھ ہنستی ہو گی جو مصائب حسین پر روئی ہو گی وہ بہشت کی نعمتوں سے خنداں و شاداں ہو گی ۔۔۔
اقتباس از مصائب آل محمد چاپ مجمع جہانی شیعہ شناسی

١۔
رسول خدا(ص)نے فاطمہ سے فرمایا     :

 
کل عین باکیة یوم القیامة الّا عین بکت علی مصاب الحسین فانّھا ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة
ہر آنکھ قیامت کے دن روئے گی لیکن صرف وہی آنکھ ہنستی ہو گی جو مصائب حسین پر روئی ہو گی وہ بہشت کی نعمتوں سے خنداں و شاداں ہو گی ۔ (١ )

٢۔ حضرت سید سجاد نے فرمایا:
''
ایّما مومن زرفت عیناہ لقتل الحسین حتیٰ تسیل علی خدّہ ''
جو مومن امام حسین کی شہادت پر اس طرح آنسو بہائے کہ اس کے رخسار تر ہو جائیں تو خداوند عالم اس کے لئے بہشت کے دریچوں کو مخصوص قرار دے گا جس میں وہ ہزاروں سال رہے گا۔ ہمارے دشمنوں سے جو مصائب ہم پر ڈھائے گئے ان پر جو مومن ہمارے اوپر اس طرح روئے گا کہ آنسو رخسار تک ڈھلک آئیں تو خداوند عالم اسے منزل صدق ( بہشت کے بلند ترین مقام )میں ٹھہرائے گا ۔ (٢)

٣۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا :
ہم پر جو ستم ڈھائے گئے ہیںان پر آہ کرنا تسبیح ہے، ہم پر غم کرنا عبادت ہے اور ہمارا راز پوشیدہ رکھنا راہ خدا میں جہاد ہے پھر فرمایا: میری اس بات کو آب زر سے لکھ لینا چاہئے ۔ (٣)
آپ نے یہ بھی فرمایا :

''لکلّ سرّ ثواب الّا الدّمعة فینا ''
ہر مصیب پر صبر کرنا اور پوشیدہ رکھنا ثواب ہے سوائے ہمارے غم میں آنسو بہانے کے

( کیونکہ اس میں اظہار و اعلان کا بہت اجر ہے )۔ (٤)

٤۔ جلیل القدر عالم سید بن طاؤوس (متوفیٰ ٦٦٤ھ)فرماتے ہیں کہ آل محمد سے منقول ہے :
جو شخص ہمارے مصائب بیان کر کے روئے یا سو آدمیوں کو رلائے ہم اس کے جنت کے ضامن ہیں اور جو پچاس آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے اورجو تیس آدمیوں کو رلائے اس کے لئے جنت ہے اور جو ایک آدمی کو رلائے اس کے لئے جنت ہے اور جو رونے والے کی صورت بنائے اس کے لئے بھی جنت ہے ۔ (٥ )
امام رضا نے پہلی محرم کو ریان بن شبیب سے گفتگو کے درمیان فرمایا :
اے فرزند شبیب! اگر تم پسند کرتے ہو کہ تم جنت میں ہمارے بلند درجات میں رہو تو ہمارے غم میں غمگین ہو اور ہماری خوشی میں خوش ہو اور تم پر ہماری ولایت لازم ہے ۔ اگر کوئی شخص کسی پتھر سے بھی ولایت کا دم بھرے تو خدا اس کو اسی کے ساتھ محشور فرمائےگا۔(
۶)

عزائے اہلبیت میں اشعار پڑھنا
جعفر بن عفان عزائے حسین میں اشعار کہہ کے حضرت صادق آل محمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے امام نے ان سے کہا: میں نے سنا ہے تم نے عزائے حسین میں بڑے اچھے اشعار کہے ہیں ۔ عرض کی: جی ہاں !
فرمایا :پڑھو ۔ انہوں نے اپنے اچھے اشعار سنائے انہیں سن کر امام بھی روئے اور جو لوگ وہاں موجود تھے وہ بھی روئے، اس کے بعد امام نے فرمایا: اے جعفر !خدا کی قسم خدا کے مقرب فرشتے یہاں موجود تھے اور غم حسین میں تمہارے اشعار سن رہے تھے انہوں نے ہم سے زیادہ گریہ کیا خدا نے اسی وقت تمہیں بخش دیا اور بہشت تم پر واجب کر دی ۔
اس کے بعد فرمایا : اے جعفر کچھ اور نہیں سناؤ گے ؟
جعفر نے عرض کی : ضرور سناؤں گا ۔
امام نے فرمایا : جو شخص غم حسین میں ایک شعر کہے اور لوگوں کو رلائے خدا اس پر بہشت واجب کر دے گا اور اسے بخش دے گا ۔ (
۷)

مقصد عزائے حسین
گریہ و سوگواری کی چند قسمیں :
گریہ ٔ شوق گریہ ٔدلسوزی و عاطفی ، دشمن سے نفرت کے اظہار کا گریہ ،ذلت آمیز اور ناپسندیدہ گریہ، عاجز و شکست خوردہ گریہ ۔
اسی طرح سوگواری کی بھی دو قسمیں ہیں : مثبت اور منفی
منفی سوگواری وہ ہے جو نا امیدی ، مایوسی اور جمودو عاجزی کا سبب ہواور ذلت و شکست کی پہچان ہو ۔
مثبت سوگواری وہ ہے جس میں ظلم و ستم کے خلاف فریاد اور حرکت ہو جس سے ظالموں کے خلاف نفرت کا جذبہ بھڑک اٹھے ۔
ایک دانشور نے کہا ہے کہ :
''زبان ہمیشہ عقل کی ترجمان ہوتی ہے لیکن عشق کی ترجمان آنکھ ہے ، جب بھی احساس درد کی وجہ سے آنسو ٹپکے گا عشق آموجود ہو گا ، لیکن جب زبان اپنی مرتب گردش میں آکر منطقی جملے کہے گی عقل موجود ہو گی، بنابریں جس طرح خطیب کے لا جواب کر دینے والے منطقی دلائل ان کے رہبر ان مکتب کے مقاصد کو اجاگر کرتے ہیں اسی طرح آنسوؤں کے قطرے بھی جذباتی اعلان جنگ کر کے دشمنان مکتب کے خلاف شمار کئے جاتے ہیں ۔ '' (
۸)
اسی بنیاد پر رسول خدا (ص)اور اماموں نے ان لوگوں کو جو نہیں رو سکتے ''تباکیٰ'' ( رونے والوں کی صورت بنانے )کی دعوت دی ہے تاکہ یاد حسین ہر عہد اور ہر عصر میں دلوں کے اندر زندہ رہے، صادق آل محمد نے فرمایا
''من تباکیٰ فلہ الجنة '' جو رونے والوں کی صورت بنائے وہ جنت کا مستحق ہے۔ (۹ )
ظاہر ہے کہ تباکیٰ اسی وقت ہوتا ہے جب انسان کی آنکھ سے آنسو نہ گرے لیکن مطالب سن کر متاثر ہو ۔

نتیجہ یہ نکلا کہ
حضرت زینب اور اہلبیت کا گریہ جذباتی اور تبلیغ سے بھر پور گریہ تھا، نہی از منکر، شور انگیز طاغوت کو بھسم کرنے والا، ظالموں کو رسوا کرنے والا گریہ تھا ،یہ گریہ ہمیشہ جذباتی جنگ کے عنوان سے ستمگروں اور طاغوتوں کے خلاف جاری ہے اور انقلابی زمانوں میں کسی وقت بھی اس جذباتی حرکت و تڑپ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے ۔ اس تڑپ کو شعائر اور شعار کے عنوان سے برتنا چاہئے کیونکہ اصولی طور سے شعار و شعور جد و جہد کی سمت متعین کرتے ہیں اور انسانوں کو اسی سمت میں متحرک رکھتے ہیں ۔

حوالہ جات
١۔بحار الانوار ،ج٤٤،ص ٢٩٣
٢۔اللہوف ص٩
٣۔ترجمہ نفس المہموم ص١٧
٤۔بحار الانوار ،ج٤٤،ص ٢٨٧
٥۔ اللہوف ،ص١١
۶۔عیون الاخبار ،ج١،ص ٢٩٩،بحارالانوار ،ج ٤٤،ص ٢٧٨۔٢٩٦ ، نفس المہموم باب اول فصل دوم
۷۔رجال کشّی ص١٨٧
۸۔ شرح کتاب انگیزۂ پیدائش مذہب ص١٥٠
۹۔ امالی صدوق ،مجلس ص٢٩

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 18:53

عزاداری حضرت امام حسینؑ ائمہ علیہم السلام کی سیرت میں

تمہید :


خداوند متعال نے اہل بیت اطہار ؑ کی محبت ہم پر واجب کی ہے جیسے کہ قرآن مجید میں خالق باری کا ارشاد ہوتا ہے :
((قُل لَّا أَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَى) (1)
ترجمہ : (اے رسول )کہہ دو کہ میں تم سے (تبلیغ رسالت کا )کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے قرابتداروں (اہل بیتؑ )کی محبت کے ۔


اس آیہ شریفہ کے مطابق محبت کا تقاضا ہے کہ اہل بیت کی خوشیوں پہ خوش اور ان کے غم و اندوہ میں  غمگینہوں ۔
تاریخ بشریت ظلم کے واقعات سے بھری پڑی ہے لیکن
۶۱ ہجری کو سرزمین کربلا پہ سید الشہداء امام حسین ؑ اور آپ کے اصحاب پہ جو ظلم کیا گیا ، حیات بشریت میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔
ظالم کے ظلم کے مقابلے میں آواز اٹھانا ، اس کے ظلم کا  پرچار کرنا اور مظلوم کی  آواز دنیا والوںتک پہنچانا قرآن کریم کے مطابق جائز ہے ۔ جیسے کہ خداوند کا ارشاد ہوتا ہے :
 ((لاَّ یُحِبُّ اللّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ ))(2)
ترجمہ : اللہ برملا بدگوئی کو پسند نہیں کرتا سوائے اس کے کہ جس پر ظلم ہوا ہو۔
 اس آیہ شریفہ کے مطابق ، اللہ تعالی نے انسانوں کو ظلم کے مقابلے میں آواز اٹھانے اور مظلوموں کی یاد منانے اور ان کے غم میں عزاداری کرنے اور صف ماتم بچھانے کی اجازت دی ہے ۔
ائمہ طاہرین ؑ زندگی کے دیگر امور کی طرح ، عزاداری سید الشہداء حضرت امام حسین ؑمنانے میں ہمارے لئے نمونہ ہیں ۔ ذیل میں عزاداری امام حسین ؑکا سیرت  ائمہؑ میں مختصر جائزہ لیا جارہا ہے۔


امام سجاد ؑ اور عزادری امام حسین ؑ :


سانحہ کربلا میں امام سجاد ؑ کا کردار کسی پہ پوشیدہ نہیں ۔ حضرت سب سے زیادہ رنج و الم و مصائب سے دوچار ہوئے ہیں ، کیونکہ امام سجاد ؑ کا رنج و الم عصر عاشور یا سفر شام و دربار  یزید تک محدود نہیں ، بلکہ یہ امام والا مقام ، سانحہ کربلا و امام حسین ؑکا غم پوری زندگی نہایت صبر و استقامت سے مناتے رہے ۔ حضرت امام سجاد ؑجو بکّائین (کثرت سے گریہ و بکاء کرنے والوں) میں سے ایک تھے ۔اور خشیت الہی سے حالت سجدہ میں اتنا آنسو بہاتے کہ زمین کے سنگ ریزے بھی تر ہوجاتے تھے ۔


امام زین العابدین ؑنے آنسو بہانے کے ذریعے اپنے بابا جان کے قاتلوں کو رسوا کرنے کو اپنا مشن بنایا تھا۔ حضرت کے سامنے جب کھانا پینا حاضر کیا جاتا تو حضرت ، اپنے بابا کے مظلومیت کو یاد کرکے آنسو بہاتے ۔ ایک دن جب حضرت کے ایک خدمت گذار نے حضرت سے عرض کیا کہ کیا آپ کا غم و اندوہ ابھی تک ختم نہیں ہوا ؟ تو  آنحضرت نے فرمایا :
 ( ویحک ! ان یعقوب ؑ کان له اثنی عشر ابنا فغیّب الله واحدا منهم فابیضت عیناه من الحزن و کان ابنه یوسف حیّاً فی الدنیا و انا نظرت الی ابی و اخی و عمی و سبعة عشر من اهلبیتی و قوما من انصار ابی مصرعین حولی فکیف ینقض حزنی  )(3)
ترجمہ :واے ہو تم پہ !حضرت یعقوبؑ کے بارہ بیٹے تھے ۔ خدا نے ان میں سے ایک کو ان کے نگاہوں سے اُوجھل کیا تو یعقوبؑ اپنے بیٹے کے غم میں اتنا روئے کہ ان کی آنکھیں سفید ہوگئیں جبکہ یوسفؑ زندہ تھے ۔ لیکن میرے آنکھوں کے سامنے میرے بابا ، بھائی ، چچا ، میرے اہل بیت کے سترہ افراد اور میرے بابا کے اصحاب کو قتل کرکے ان کے سروں کو جدا کیا گیا ، بھلا کیسے میرا غم و اندوہ ختم ہوسکتا ہے ؟!
دوسری روایت میں آیا ہے کہ حضرت نے اپنے خدمت گزار کے جواب میں فرمایا :
((کیف لا ابکی و قد منع ابی من الماء کان مطلقا للسباع والوحوش))(4)
ترجمہ :کیسے میں گریہ نہ کروں جبکہ میرے بابا کو اس پانی سے روکا گیا جو درندوں اور جانوروں کیلئے آزاد تھا۔
حضرت امام زین العابدین ؑکے ہمیشہ عزادار رہنے کے متعلق امام صادق ؑیوں فرماتے ہیں :
 ( بکی علی ابن الحسین علیه السلام عشرین سنة وما وضع بین یدیه طعام الّا بکی)(5)
ترجمہ : امام سجاد ؑ بیس سال تک (غم حسینؑ میں)روتے رہے اور جب بھی ان کے سامنے کھانا رکھا جاتا تو حضرت روتے تھے۔
حضرت امام سجاد ؑکا سید الشہداء امام حسین ؑپہ گریہ و عزاداری کرنا سال کے کچھ دنوں تک محدود نہیں تھا بلکہ حضرت ہر وقت کربلا والوں پہ روتے رہتے تھے ۔ اس لئے جب حضرت سے کہا گیا ، کہ اگر آپ یوں ہی روتے رہے تو ممکن ہے آپ کی جان چلی جائے تو حضرت فرماتے ہیں :
 (اپنے غم و اندوہ کا خداوند متعال سے شکوہ کرتا ہوں اور خداوند کی جانب سے جو کچھ میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔(6)


درواقع امام سجاد ؑکا یہ فرمانا قرآن کریم کے درجہ ذیل آیہ شریفہ کا مفہوم ہے :
 (قَالَ إِنَّمَا أَشْکُو بَثِّی وَحُزْنِی إِلَى اللّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ )(7)
ترجمہ : (یعقوب نے) کہا : میں اپنے اضطراب اور غم اللہ کے سامنے پیش کررہا ہوں اور خدا کی جانب سے جو باتیں میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے ہو ۔
امام سجاد ؑکا غم حسین ؑ منانا  ان کی زندگی کا مشن تھا اور حضرت کی عزاداری سید الشہداء کے دو اہم ہدف تھے ، حضرت ، عزاداری کرنے سے نہ صرف دلی طور پر اظہار غم و اندوہ فرماتے بلکہ عزاداری کرنے سے ظالم حکمرانوں کو بھی رسوا فرماتے تھے تاکہ قیام قیامت تک انسانوں پہ ظالموں کا حقیقی چھرہ پوشیدہ نہ رہے اور لوگ سمجھ لیں کہ کربلا کے واقعے میں باطل  یزیدیت نے خدا کے نمائندے ، امام حسین ؑ سے کیا سلوک کیا ۔


امام باقر ؑ اور عزاداری امام حسین ؑ :


      امام باقر علیہ السلام کے زمانے میں حاکمان جور نے عزاداری امام حسین ؑپہ پابندی لگائی تھی اور وقت کے ظالم حکمرانوں نے بھانپ لیا تھا کہ عزاداری سے وقت کے ظالم حاکم اور نظام کی قلعی کھل جائے گی اور لوگوں کی بیداری کا باعث ہوگی جس کے نتیجے میں ظالموں اور ان کے   نا پاک عزائم سے لوگ  آگاہ ہوں گے اور حق اور مظلوموں کا پر چار ہو گا؛اس لیے ظالم حکمرانوں نے مجالس عزاداری پہ پابندی لگائی تھی،اور غم سید الشہداء ؑمنانے کو جرم سمجھا جاتا تھا۔


  اس کٹھن ماحول میں ہمارے پانچویں امام حضرت امام باقر علیہ السلام نے مخفیانہ طور پر، خاص افراد کے ساتھ عزاداری خصوصی مجالس برپا فرماتے ، اور اس عصر کے معروف شعراء کو دعوت دیتے تھے اور یہ شعراء امام مظلوم کے اس عظیم قربانی پہ خراج تحسین پیش  کرتے اور اہل بیت ؑکے صبر و استقامت کا تذکرہ کرتے ، تاریخ میں منقول ہے : ایک بار جب حضرت امام باقر ؑکے حضور اس وقت کے مشہور شاعر " کمیت اسدی " اپنے خاص انداز میں واقعات کربلا سنارہے تھے جب اس عبارت پہ :
 (و قتیل بالطف غودر منهم بین غوغاء امة و طعام ))(8)
ترجمہ : (اور طف کے مقتول سے شور و غل ( ہنگامہ ) اور لالچ کے درمیان عزادری کی گئی) پہنچا ، تو امام باقر ؑبہت روئے اور امام ؑ نے فرمایا :
 (لو کان عندنا مال لاعطیناک ولکن لک ما قال الرسول لحسان ثابت ، لازلت مؤیدا بروح القدس ما ذیت عنا اهل البیت) (9)
ترجمہ : اگر ہمارے پاس مال و دولت ہوتا تو یقیناتمہیں عطا کرتے ، لیکن اے کمیت تمھارا  اجر و پاداش رسول گرامی اسلام کی وہی دعا ہے جس میں رسول اللہ نے حسان بن ثابت کے لئے دعا فرمائی کہ ہم اہل بیتؑ کے دفاع اور حمایت کی وجہ سے ہمیشہ تمھیں روح القدس فرشتے کی حمایت و نصرت حاصل رہے گی۔


مالک جھنی سے منقول ہے کہ امام باقر ؑمؤمنین کو عاشورا کے دن عزاداری امام حسین ؑکی یوں تعلیم دیتے ہیں :
 ( ولیندب الحسین و یبکیه و یامر من فی داره بالبکاء علیه و یقیم فی داره مصیبته باظهارالجزع علیه و یتلاقون بالبکاء علیه بعضهم فی البیوت والیعز بعضهم بعضا بمصاب الحسین فانا ضامن علی اللهلهم اذا احتملوا ذلک ان یعطیهم ثواب الفی حجة و عمرة و غزوة مع رسول الله والائمة الراشدین)(10)
ترجمہ : امام حسین ؑکے لئے عزاداری کی جائے اور حضرت پہ گریہ کیا جائے اور اپنے اہل و عیال کو امام ؑ پہ ماتم کرنے کا حکم دیا جائے اور اپنے گھر میں امام علیہ السلام کے لئے مجلس عزاء کا اہتمام کیا جائے اور ایک دوسرے سے ملتے وقت رویا جائے اور ایک دوسرے کو مصائب امام حسین ؑکے سلسلے میں تعزیت پیش کی جائے جو کوئی یہ اعمال انجام دے گا میں اس کے لئے خداوند کی جانب سے دو ہزار حج و عمرہ اور رسول خدا اور آئمہ برحق کی رکاب میں جھاد کے ثواب کی ضمانت دیتا ہوں۔


شیخ طوسی ؓ سے منقول ہے کہ امام باقر ؑعاشورکے دن کربلا سے دور رہنے والوں کو یوں عزاداری امام مظلوم منانے کا حکم دیتے ہیں :
(ان البعید یؤمی الیه بالسلام و یجتهد فی الدّعا علی قاتله و یصلّی من بعده رکعتین قال ذلک فی صدر النهار قبل ان تزول الشمس ثم لیندب الحسین و لیبکیه و یامر من داره ممن لا یتبعه بالبکاء علیه و یقیم فی داره المصیبة باظهار الجزع علیه)(11)
ترجمہ : کربلائے معلّی سے دور رہنے والا ، زیارت کے لئے اشارے سے کربلا کے طرف سلام کرے اور حضرت کے قاتلوں کو زیادہ لعنت کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کرے اور یہ اعمال ظہر سے پہلے انجام دے پھر حضرت امام حسین ؑپہ بلند آواز میں روئے اور اہل خانہ میں سے جو حضرت پہ نہیں رورہا ہے اسے رونے کا حکم دے اور اپنے گھر میں امام حسین ؑکی مصیبت منانے کے لئے مجلس عزاء کا اہتمام کرے۔
حضرت امام باقر ؑمجالس عزاء برپا کرنے کے ساتھ ساتھ مؤمنین کو بھی مجالس عزاء کے منعقد کرنے کی ترغیب دیتے ہیں اور حتی کہ کربلا سے دور رہنے والے مؤمنین کو مجالس عزاداری کی تعلیم دیتے ہیں ۔


امام صادق ؑ  اور عزاداری :


   امام صادق ؑکے عصر امامت میں اقتدار بنو امیہ کے خاندان سے بنو عباس کو منتقل ہوتا ہے ، اور اسی انتقال اقتدار کی کشمکش میں امام صادق ؑکو مذہب حقہ پہ (ہزاروں شاگرد تعلیم دینے کی صورت میں) بنیادی کام کرنے کا موقع ملتا ہے ۔ اقتدار کی اس رسہ کشی کے زمانے میں امام صادق ؑکو معارف اہل بیتؑ اور اسلامی تعلیمات کے پرچار کا اچھا موقع ملا ، اسی لئے امام اپنے اصحاب کو عزاداری اہل بیتؑ کی بھی تعلیم دیتے ہیں ۔
     امام صادق ؑکے معروف صحابی معاویہ بن وہب کہتے ہیں: امام صادق ؑکی خدمت میں عاشورا کے دن حاضر ہوا تو حضرت کو محراب عبادت میں اپنے خالق یکتا سے راز و نیاز میں مصروف پایا ، ابن وہب کہتے ہیں میں حضرت سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے انتظار کررہا تھا اور حضرت شوق عبادت میں طولانی سجدوں اور راز و نیاز میں مشغول تھے ۔ حضرت اپنے لئے ، اپنے اصحاب اور زائرین امام حسین ؑکے لئے خداوند متعال سے طلب مغفرت فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت میرے طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا :
      (یابن وهب زرالحسین من بعید اقصی ومن قریب ادنی وجدد الحزن علیه واکثرالبکاء علیه ۔۔۔ ثم بکی الصادق ؑ حتی اخضلت لحیته بدموعه ولم یزل حزینا کئیبا طول یومه ذلک وانا ابکی لبکائه و احزن لحزنه)(12)


ترجمہ : اے وہب کے بیٹے ، امام حسین ؑکی نزدیک اور دور سے زیارت کرو ۔ امام حسینؑ پہ اپنے غم و اندوہ کا اعادہ کرو اور رونے کو زیادہ کرو ۔اس کے بعد خود امام صادق ؑ بہت روئے یہاں تک کہ آنسو حضرت کی داڑھی مبارک پہ بہنے لگے اور حضرت سارا دن عزادار رہے اور میں بھی روتا رہا اور حضرت کے غمگین ہونے پہ محزون تھا۔


زید شحام کہتا ہے کہ اہل کوفہ کے ایک گروہ کے ساتھ امام صادق ؑکے حضور میں حاضر تھے کہ عرب کے مشہور شاعر جعفربن عفان ، امام کے خدمت میں حاضر ہوئے ، حضرت نے عفان کا خاص احترام کیا اور انہیں اپنے پاس جگہ دی ۔ امامؑ نے جعفر بن عفان کو مخاطب کرکے فرمایا : اے عفان سنا ہے تم نے سید الشہداء امام حسین ؑکے متعلق اشعار کہے ہیں ۔ جعفر بن عفان نے تائید کیا ۔ امام ؑ نے عفان کو وہ اشعار سنانے کو فرمایا ۔ شاعر نے امام کے فرمان کے مطابق اشعار سنانا شروع کیا اور امام صادق ؑ،  آپ کے اصحاب اور دیگر حضار مجلس رونے لگے اور حضرت کے چہرے پہ آنسو جاری ہوئے اور حضرت نے فرمایا :
یا جعفر والله لقد شهدت ملائکة الله المقربین هاهنا یسمعون قولک فی الحسین و لقد بکوا کما بکینا او اکثر  ولقد اوجب الله تعالی لک یا جعفر فی ساعته الجنة باسرها و غفر الله لک)(13)


ترجمہ :اے جعفر خداوند متعال کے مقرب فرشتے ابھی اس مجلس میں موجود ہیں اور تمھارے کلام کو سن کر ہمارے طرح رو رہے ہیں یا ہم سے بھی زیادہ ، اے جعفر خداوند متعال نے ابھی تیرے لئے جنت واجب کی اور تجھے بخش دیا ۔


اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ فقط انسان امام حسین ؑکے غم میں عزاداری نہیں کرتے بلکہ فرشتے بھی ہماری مجالس عزاء میں آکر غم حسینؑ مناتے ہیں اور روتے ہیں ۔پس عزاداری سید الشہداء ایسی عبادت ہے کہ جس میں فرشتے ہمارے ساتھ شریک ہوتے ہیں ۔
محدث قمی ؒ اپنی کتاب نفس المہموم میں نقل کرتے ہیں کہ ابوہارون جو مشہور شاعر اور امام صادق ؑکےنابیناصحابی تھے، کبھی کبھار امام ؑکی خدمت میں مرثیہ اور اشعار سناتے تھے ۔ ایک دن جب امام صادق ؑکے خدمت میں حاضر ہوا تو امام نے فرمایا :اے ابوہارون وہ مرثیہ جو تم نے میرے دادا  امام حسین ؑکی شان میں کہا ہے سنادو :ابو ہارون جب مرثیہ سنانے کے لئے آمادہ  ہوا تو  امامؑ نے حکم فرمایا کہ مستورات بھی پردے کے پیچھے آکر مرثیہ سنیں ۔ الغرض ابوہارون نے مرثیہ پڑھنا شروع کیا ، امام صادق ؑکے گھر میں کہرام مچ گیا  اور حضرت کے آنسو رواں ہوئے اور حضرت شدت سے رونے لگے ۔ اور امام کے گھر سے آہ و بکاء کی آواز بلند ہوئی  ۔(14)


امام صادق ؑنے اپنے عصر امامت میں نہ صرف ہزاروں شاگردوں کو تربیت دے کر اسلام کو زندہ کیا اور لاکھوں احادیث کے ذریعے اسلام حقیقی کو ہم تک پہنچایا بلکہ اپنے عمل کے ذریعے بھی معارف اسلامی کو زندہ کیا جیسے کہ حضرت نے عزاداری امام حسین ؑکا طریقہ اور آداب شیعیان کو سکھائے   اور مشہور شعراء کو دعوت دے کر مجالس عزاء برپا کیں ۔ عزاداری میں خواتین اور اہل و عیال کو بھی شرکت کرنے کی ترغیب فرمائی۔


حضرت امام موسی کاظم ؑ اور غم امام حسین ؑ :


امام موسی کاظم ؑ کے عصر امامت میں بنو عباس کی جابر حکومت کے طرف سے حضرت پہ بہت دباؤ تھا  اور حکمران حضرت کی سارے مصروفیات کی سخت نگرانی کرتے تھے۔ اسی لیے حضرت اپنے امامت کا زیادہ عرصہ پابند سلاسل رہے اور دشمنان اہل بیتؑ کی جانب سے مجالس عزاداری پہ پابندی تھی اور دشمن امامؑ کو لوگوں کے اجتماعات سے ہر ممکن طور پر دور رکھتا تھا ؛لیکن حضرت امام موسی کاظمؑ ایام محرم کے شروع ہوتے ہی غم و اندوہ کے عالم میں ہوتے جیسے کہ امام رضاؑ فرماتے ہیں:
( کان ابی اذا دخل المحرم لا یری ضاحکا و کانت الکابة تغلب علیه حتی تمضی منه عشرة ایام فاذا کان الیوم العاشر منه کان ذلک الیوم یوم مصیبته و حزنه و بکائه) (15)

ترجمہ:محرم الحرام کے ایام شروع ہوتے ہی میرے بابا جان(امام موسی کاظمؑ)کا چہرہ خوش نظر نہیں آتا تھا۔ اور غم و اندوہ حضرت پہ طاری ہوتا تھا۔یہاں تک کہ عاشورا کا دن حضرت کی مصیبت کا دن ہوتا تھا  اور اس دن حضرت کثرت سے گریہ و بکاء فرماتے تھے۔


امام صادق ؑکی اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ حکمرانوں کی سختی اور پابند یوں کی وجہ سے کھلے عام مجالس عزاداری کا برپا ہونا ناممکن تھا لیکن ان سخت حالات میں بھی حضرت امام موسی کاظم ؑاپنے طور پر اپنے جدّ مظلوم پر عزاداری فرماتے تھے۔


امام رضا ؑ اور عزاداری امام حسینؑ


امام رضا ؑحکمرانوں کی شدید مخالفتوں اور پابندیوں کے باوجود عزاداری امام حسینؑکی مجالس کا انعقاد فرماتے اور اپنے اصحاب کو عزاداری کی برپائی کی ترغیب دیتے، جیسے کہ ریّان بن شبیب سے منقول ہے کہ میں اول محرم کو امام رضاؑکے خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت نے مجھے فرمایا:
(اے شبیب کے بیٹے اگر امام حسین ؑپہ رونے لگو اور آنسو تمھارے رخساروں پہ جاری ہو ، تو خداوند متعال تمھارے ہر گناہ کوجو تم سے سرزد ہوا ہے معاف کردے گا ۔ پھر حضرت نے فرمایا :اگر چاہتے ہو کہ جنت کے درجات میں ہمارے ساتھ رہو تو ہماری مصیبت میں غمگین اور ہمارے خوشیوں میں خوش رہو۔)(16)
     حضرت کی اس حدیث کے مطابق سید الشہداء کی عزاداری اور حضرت پہ آنسو بہانا  گناہوں کو مٹاتا ہے ۔اور نیز اہل بیت ؑکی خوشی اور غم میں شریک ہونا مؤمن کے اخروی درجات کو اتنا بلند کردیتا ہے کہ جنت میں اُسے اہل بیت ؑکے ہمنشین ہونے کا اعزاز ملتا ہے ۔
اہل بیتؑ کے ماننے والے دعبل خزاعی مشہور شاعر کہتے ہیں:
۱۹۸ ہجری کو جب میں شہر مرو میں حضرت امام رضا ؑکی خدمت میں حاضر ہوا  تو حضرت  نہایت غم و اندوہ کے عالم میں اپنے اصحاب میں تشریف فرما تھے ۔میرے مجلس میں داخل ہوتے ہی حضرت نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا :خوش نصیب ہو  اے دعبل کہ اپنے ہاتھ اور زبان سے ہماری مدد کررہے ہو ، تب مجھے نہایت احترام سے حضرتؑ نے اپنے پاس جگہ دی  اور فرمایا ہمارے لئے اشعار کہو اور امام ؑ مزید فرماتے ہیں :
(فان هذه الایام حزن کانت علینا اهل البیت و ایام سرور کانت علی اعدائنا خصوصا بنوامیة ثم انه نهض وضرب شرابیننا و بین حرمه و اجلس اهل بیته من وراء الستر لیبکوا علی مصاب جدهم الحسین ثم التفت الیّ و قال یا دعبل ارث الحسین فانت ناصرنا و مادحنا ما دمت حیا ، قال دعبل فاستعبرت وسالت دموعی و انشات : '' افاطم ۔۔۔)(17)


ترجمہ : یہ دن ہم اہل بیتؑ کے غم و اندوہ کے دن ہیں ۔ اور ہمارے دشمنوں اور خاص کر بنوامیہ کی خوشی کے دن ہیں ۔ اس کے بعد امام رضا ؑنے ہمارے اور مستورات کے درمیان پردہ لگایا اور اہل بیتؑ کی مستورات غم امام حسینؑ پہ رونے کے لئے پردے کے پیچھے بیٹھ گئیں ۔ ا س کے بعد حضرت میرے جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا : اے دعبل امام حسین ؑپہ مرثیہ خوانی کرو ، تم جب تک زندہ ہو ہمارے مددگار اور اہل بیت کی مدح کرتے رہوگے ؛ تب میں رویا  اور آنسو میرے چہرے پہ جاری ہوئے اور میں یہ اشعار پڑھنے لگا : افاطم ۔۔۔
اس روایت کے مطابق امام رضا ؑ دیارغربت (مرو)میں بھی عزاداری کا اہتمام فرماتے ہیں  اور حتی کہ آنحضرتؑ خواتین کی عزاداری کا بندوبست بھی فرماتے ہیں ۔ جیسے کہ رسول گرامی اسلام نے بھی مدینے کی خواتین کو اپنے چچا حمزہ کی عزاداری کا حکم دیا تھا ۔
 
امام جواد ؑ ، امام ہادی ؑ ، امام حسن عسکری ؑ اور امام عصر (عج) کی عزاداری:


امام جواد ؑکے عصر امامت میں مؤمنین کے گھروں میں آزادانہ طور پر مجالس عزاداری کا انعقاد ہوتا تھا ، لیکن خلیفہ معتصم عباسی کے بعد اس کے جانشین عزاداری کے سخت مخالف تھے ۔اور انھوں نے زیارت قبور ائمہؑ اور شہداء کربلا کی بھی ممانعت کی ۔
امام ہادی ؑکے عصر امامت میں سخت کٹھن کے ماحول کا زمانہ تھا ۔ اور متوکل عباسی آپ کے عصر کا خلیفہ تھا جسے ائمہ ؑ  اور شیعوں سے خاص دشمنی تھی ۔ متوکل اہل بیتؑ  اور سید الشہداءؑ سے دشمنی میں اتنا ظالم تھا کہ کئی بار قبر مطہر امام حسین ؑکو ویران کرکے قبر مبارک کے آثار تک مٹانا چاہا  تاکہ محبین اہل بیتؑ کربلا معلّی کی زیارت نہ کرسکیں  ۔ (18) 

                                    
ابوالفرج اصفہانی کہتا ہے :
 (متوکل عباسی ، اہل بیتؑ سے دشمنی رکھتا تھا اور ان کے امور اور فعالیتوں پہ سخت مراقبت کرتا تھا ، اور دل میں علویوں سے سخت نفرت اور دشمنی رکھتا تھا اسی لئے علویوں کو بے بنیا د نسبتیں دیتا تھا اور گذشتہ خلفاء کے بہ نسبت اہل بیتؑ اور ان کے ماننے والوں پہ زیادہ ظلم کرتا تھا ۔ اور اہل بیتؑ سے دشمنی میں متوکل اتنا آگے بڑھا کہ اس نے امام حسین ؑکی قبر مبارک کو اس طریقے سے ویران کیا کہ اس کے کوئی آثار باقی نہ رہے  اورمتوکل نے کربلا کے راستے میں چیک پوسٹیں بنائی تاکہ زائرین کربلا کو گرفتار کرکے سزائیں دی جاسکیں  ۔(19)


عزاداری پہ پابندی کا یہ سلسلہ امام حسن عسکریؑ کے عصر تک جاری رہا ، لیکن اہل بیتؑ کے ماننے والے غیّور شیعوں نے دشمنوں کے ہر سازش کا مقابلہ کیا اور دشمنوں سے ہرگز خائف نہ ہوئے اور طول تاریخ میں اہل بیتؑ کی سیرت پہ چلتے ہوئے عزاداری اور غم شہداء کربلا کو زندہ رکھا ۔
یقینا حضرت امام عصر (عج)بھی اپنے آباء کے سیرت عزاداری کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور اپنے جدّ مظلوم پہ آنسو بہاررہے ہیں جیسے کہ زیارت ناحیہ مقدسہ میں حضرت صاحب (عج)اپنے جدّ مظلوم امام حسین ؑکو مخاطب کرکے فرماتے ہیں  :
( لاندبنک صباحا و مساءا و لابکین علیک بدل الدموع دما ))(20)
ترجمہ : ہر صبح و شام آپ ؑ پہ روتا ہوں اور آنسو کے بجائے آپؑ پہ خون کے آنسو بہاتا ہوں ۔
اور حضرت صاحب اروحنا فداء اور آپؑ کے اجداد طاہرینؑ کی سیرت عزاداری امام حسین ؑانشاء اللہ حضرت (عج)کے ظہور تک جاری رہے گا  (انشاء اللہ)۔

..............................................................................................................................

منابع:

(1) سوره شوری /23

(2) سوره نساء/148

(3)مناقب ابن شھر آشوب ، ج۴ ، ص ۱۷۹ ، فصل فی کرعہ و صبرہ و بکائہ۔

(4) ابن شھر آشوب ، محمد بن علی ، مناقب آل ابیطالب ، ج۴ ، ص ۱۸۰۔

(5) ایضا

(6)  ۔ ایضا ، ص ۱۸۱۔

(7)  ۔ سورہ یوسف /86۔

(8) طوسی ، محمد بن حسن ، مصباح المتہجد ، ص ۷۱۳

(9) ایضا ۔

(10)  ۔ ابن قولویہ ، جعفربن محمد ، کامل الزیارات ، باب ۷۱ :من زار الحسین (ع) یوم العاشورا ، ص ۱۷۴۔

(11)  ۔ طوسی ، محمد بن حسن ، مصباح المتہجد ، ص ۷۱۳

(12)  ۔ شھرستانی ، صالح ، تاریخ النیاحۃ علی الحسین ، ص ۱۵۷

(13)  ۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج۴۴ ، ص ۲۸۲

(14) قمی ، عباس ، نفس المہموم ، ص ۴۶

(15) صدوق ، امالی صدوق ، مجلس ۲۷

(16)  ۔ صدوق ، امالی صدوق ، مجلس ۲۷ ، ص ۱۲۳

(17)  ۔ مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج۴5 ، ص ۲۵۷

(18) ابن اثیر ، علی بن محمد ، الکامل ، ج۵ ، ص ۲۸۷۔

(19) اصفہانی ، ابی الفرج ، مقاتل الطالبین ، ص ۴۷۸۔

(20) مجلسی ، محمد باقر ، بحار الانوار ، ج98، ص 320 ، باب کیفیۃ زیارت حسین ؑ۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 18:42

زندگی نامہ حضرت امام حسین علیہ السلام




امام حسین (ع) کی ولادت با سعادت
تین شعبان کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ بعض روایتوں کی بنا پر آپ پانچ شعبان ہجرت کے تیسرے یا چوتھے سال پیدا ہوئے۔
حاکم کتاب مستدرک میں محمد بن اسحاق ثقفی سے سند کے ساتھ قتادۃ سے نقل کرتےہیں کہ آپ ہجرت کے چھٹے سال ۱۵ جمادی الاول کو پیدا ہوئے۔
ایک گروہ نے آپ کی ولادت کو ربیع الاول کے آخر میں نقل کیا ہے۔اور دوسرے گروہ نے تین یا پانچ جمادی الاولیٰ کو، لیکن مشہور قول آپ کی ولادت کے سلسلے میں وہی ہے کہ آپ چھ مہینے شکم مادر میں رہنے کے بعد تین شعبان کو دنیا میں تشریف لائے۔ اس لیے کہ امام حسن (ع) کی ولادت پندرہ رمضان المبارک سن دوم ہجرت کو ہوئی اور مشہور قول کی بناپر ایک طہر کے بعد آپ کے شکم مادر میں قرار پانے اور تین شعبان کو دنیا میں آنے کے درمیان کا فاصلہ چھ مہینے کا ہے۔
ایک اعتبار سے اس روایت کی توجیہ کی جا سکتی ہے کہ ولادت امام حسین ربیع الاول کے اواخر میں ہوئی ہو اور وہ روایت جس سے ولادت امام حسن کی تاریخ اور امام حسین کے حمل میں ایک طرم کا استنباط کیا جاتا ہے اس کو ضمیمہ کر کے امام حسن اور امام حسین کے درمیان ایک طہر اور چھ مہینے کا فاصلہ ثابت ہوتا ہے۔ و اللہ اعلم۔ لیکن حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے کہ جناب فاطمہ (س) امام حسن کی ولادت کے ایک سال اور دس مہینے بعد امام حسین کو دنیا میں لائیں۔
جب امام حسین (ع) دنیا میں تشریف لائے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ اور امام حسین(ع) کی ولادت کی آپ کو خوشخبری دی۔آنحضرت نے ایک کان میں آذان اور دوسرے میں اقامت کہی اور سات دن گزرجانے کے بعد عقیقہ کروایا۔ اور اس نومولود کا نام حسین انتخاب کیا۔ اور ماں کو حکم دیا کہ امام حسین کے سر کے بال اتارے جائیں اور بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ دیں جناب فاطمہ(س) نے اس حکم کی تعمیل کی۔
زبیر بن بکار نے کتاب انساب قریش میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام حسن اور امام حسین پیدا ہونے کے ساتویں دن ان بزرگواروں کےنام رکھے اور امام حسین کا نام امام حسن کے نام سے اخذ کیا۔
حاکم نے کتاب مستدرک میں صحیح سند کے ساتھ ابی رافع سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیکھا کہ جب جناب فاطمہ (س) امام حسین (ع) کو لے کر آنحضرت کی خدمت میں آئیں آپ نے ان کے کانوں میں آذان و اقامت کہی۔ دوسری روایت میں جسے امام جعفر صادق (ع) نے اپنے اجداد سے اور انہوں نے امیر المومنین(ع) سے صحیح السند روایت کے ساتھ نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے جناب فاطمہ (س) کو حکم دیا کہ امام حسین کے سر کے بالوں کو اتار کر ان کےوزن کے برابر راہ خدا میں چاندی صدقہ دیں۔
اور دوسری روایت میں بھی لکھتے ہیں: رسول خدا (ص) نے امام حسن و امام حسین کی ولادت کے ساتویں دن ان کا عقیقہ کروایا اور ان کے نام انتخاب کئے۔ اور خدا سے دعا کی کہ ہر طرح کے درد و غم کو ان سے دور رکھے۔
ایک اور روایت میں سند صحیح کے ساتھ محمد بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب علیمس السلام سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک گوسفند کو امام حسین کے لیے عقیقہ کیا اور اپنی بیٹی فاطمہ(س) کو حکم دیا کہ حسین کے سر کے بال اتاریں اور اور ا ن کا وزن کریں اور اگر ایک درھم کے برابر ہوں تو ان کی مقدار میں چاندی صدقہ دیں۔

امام حسین (ع) کی کنیت اور لقب اور آپ کی انگوٹھی کا نقش
آپ کی کنیت ابا عبد اللہ ہے اور القاب، الرشید، الوفی، الطیب، السید ، الزکی، المبارک، التابع لمرضاۃ اللہ، الدلیل علی ذات اللہ اور والبسیط ذکر ہوئے ہیں۔ لیکن سب سے بلند لقب وہی ہے کہ جو رسول خدا (ص) نے آپ اور آپ کے بھائی امام حسن (ع) کو دیا ہے کہ آپ دونوں بزرگوار " سیدا شباب اھل الجنۃ" ہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول خدا (ص) نے آپ کو سبط کے نام سے بھی پکارا ہے۔
کتاب وافی میں امام صادق (ع) سے نقل ہوا ہے کہ آپ کی انگوٹھی کا نقش " حسبی اللہ" تھا اور امام رضا (ع) سے انگوٹھی کا نقش " ان اللہ بالغ امرہ" نقل ہوا ہے۔ اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آپ کے چند ایک انگوٹھیاں تھیں جن پر مختلف نقش تھے۔

امام حسین (ع) کی اولاد
امام حسین (ع) کے چھ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ ۱: علی اکبر کہ جو کربلا میں شہید ہو گئے جن کی ماں لیلی ابومرۃ بن مسعود ثقفی کی بیٹی تھی۔ ۲: علی اوسط، ۳: علی اصغر، زین العابدین کہ جن کی ماں " شاہ بانو" ایران کے بادشاہ یزدگرد کی بیٹی تھیں۔ لیکن شیخ مفید کے عقیدہ کے مطابق زین العابدین علی اکبر سے بڑے تھے۔ ۴: محمد۔ ۵: جعفر کہ جو پہلے ہی دنیا سے چل بسے تھے۔ ۶: عبد اللہ، شش ماہے جو کربلا میں اپنی گردن پر سہ شعبہ تیر کھا کر شہید ہو گئے۔ آ پ کی بیٹیاں سکینہ، فاطمہ اور زینب تھیں۔
واقعہ کربلا کے بعد آپ کی اولاد میں سے صرف امام زین العابدین باقی بچے تھے جن سے آپ کی نسل آگے بڑھی۔
ماخذ: سیرہ معصومان، ج۴ سید محسن امین

 

 آپ کااسم گرامی

 امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ ولادت کے بعد سرور کائنات صلعم نے امام حسین کی آنکھوں میں لعاب دہن لگایا اور اپنی زبان ان کے منہ میں دے کر بڑی دیرتک چسایا، اس کے بعد داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی، پھردعائے  خیرفرما کر حسین نام رکھا (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔

علماء کابیان ہے کہ یہ نام اسلام سے پہلے کسی کا بھی نہیں تھا، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ نام خود خداوندعالم کا رکھا ہوا ہے (ارجح المطالب و روضة الشہداء ص ۲۳۶) ۔

کتاب اعلام الوری طبرسی میں ہے کہ یہ نام بھی دیگرآئمہ کے ناموں کی طرح لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے۔


 آپ کاعقیقہ

 امام حسین کانام رکھنے کے بعد سرور کائنات نے حضرت فاطمہ سے فرمایا کہ بیٹی جس طرح حسن کا عقیقہ کیا گیا ہے اسی طرح اسی کے عقیقہ کا بھی انتظام کرو، اوراسی طرح بالوں کے ہم وزن چاندی تصدق کرو، جس طرح اس کے بھائی حسن کے لیے کرچکی ہو، الغرض ایک مینڈھا منگوایا گیا اور رسم عقیقہ ادا کردی گئی (مطالب السؤل ص ۲۴۱) ۔

بعض معاصرین نے عقیقہ کے ساتھ ختنہ کا ذکرکیا ہے جومیرے نزدیک قطعا ناقابل قبول ہے کیونکہ امام کا مختون پیدا ہونا مسلمات سے ہے۔

 

 کنیت و القاب

 آپ کی کنیت صرف ابوعبداللہ تھی، البتہ القاب آپ کے بے شمارہیں جن میں سید وصبط اصغر، شہیداکبر، اورسیدالشہداء زیادہ مشہورہیں۔ علامہ محمد بن طلحہ شافعی کا بیان ہے کہ سبط اورسید خود رسول کریم کے معین کردہ القاب ہیں (مطالب السؤل ص ۳۱۲) ۔

 

 آپ کی رضاعت

اصول کافی باب مولدالحسین ص ۱۱۴ میں ہے کہ امام حسین نے پیدا ہونے کے بعد نہ حضرت فاطمہ زہرا کا شیر مبارک نوش کیا اورنہ کسی اوردائی کا دودھ پیا، ہوتا یہ تھا کہ جب آپ بھوکے ہوتے تھے توسرور کائنات تشریف لا کرزبان مبارک دہن اقدس میں دے دیتے تھے اورامام حسین اسے چوسنے لگتے تھے ،یہاں تک کہ سیر وسیرآب ہوجاتے تھے، معلوم ہوناچاہئے کہ اسی سے امام حسین کاگوشت پوست بنا اورلعاب دہن رسالت سے حسین پرورش پا کر کار رسالت انجام دینے کی صلاحیت کے مالک بنے یہی وجہ ہے کہ آپ رسول کریم سے بہت مشابہ تھے (نورالابصار ص ۱۱۳) ۔

 

 خداوند عالم کی طرف سے ولادت امام حسین کی تہنیت اور تعزیت

علامہ حسین واعظ کاشفی رقمطرازہیں کہ امام حسین کی ولادت کے بعد خلاق عالم نے جبرئیل کوحکم دیاکہ زمین پرجاکرمیرے حبیب محمد مصطفی کومیری طرف سے حسین کی ولادت پرمبارک باد دے دو اورساتھ ہی ساتھ ان کی شہادت عظمی سے بھی مطلع کرکے تعزیت ادا کردو، جناب جبرئیل بحکم رب جلیل زمین پر وارد ہوئے اورانہوں نے آنحضرت کی خدمت میں شہادت حسینی کی تعزیت بھی منجانب اللہ اداکی جاتی ہے، یہ سن کرسرورکائنات کا ماتھا ٹھنکا اورآپ نے پوچھا، جبرئیل ماجرا کیا ہے تہنیت کے ساتھ تعزیت کی تفصیل بیان کرو، جبرئیل نے عرض کی کہ مولا ایک وہ دن ہوگا جس دن آپ کے چہیتے فرزند”حسین“ کے گلوئے مبارک پرخنجر آبدار رکھا جائے گا اورآپ کا یہ نورنظر بےیار و مددگار میدان کربلامیں یکہ و تنہا تین دن کا بھوکا پیاسا شہید ہوگا یہ سن کرسرور عالم محو گریہ ہوگئے آپ کے رونے کی خبرجونہی امیرالمومنین کوپہنچی وہ بھی رونے لگے اورعالم گریہ میں داخل خانہ سیدہ ہوگئے ۔

جناب سیدہ نے جوحضرت علی کوروتا دیکھا دل بے چین ہوگیا، عرض کی ابوالحسن رونے کاسبب کیا ہے فرمایا  بنت رسول ابھی جبرئیل آئے ہیں اوروہ حسین کی تہنیت کے ساتھ ساتھ اس کی شہادت کی بھی خبردے گئے ہیں حالات سے باخبرہونے کے بعد فاطمہ کے گریہ گلوگیر ہوگیا، آپ نے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوکرعرض کی باباجان یہ کب ہوگا، فرمایاجب میں نہ ہوں گا نہ توہوگی نہ علی ہوں گے نہ حسن ہوں گے فاطمہ نے پوچھا بابا میرابچہ کس خطا پرشہید ہوگا فرمایا فاطمہ بالکل بے جرم وخطا صرف اسلام کی حمایت میں شہادت ہوگی، فاطمہ نے عرض کی باباجان جب ہم میں سے کوئی نہ ہوگا توپھراس پر گریہ کون کرے گااوراس کی صف ماتم کون بچھائے گا،راوی کا بیان ہے کہ اس سوال کاحضرت رسول کریم ابھی جواب نہ دینے پائے تھے کہ ہاتف غیبی کی آواز آئی، اے فاطمہ غم نہ کروتمہارے اس فرزند کاغم ابدالآباد تک منایاجائے گا اوراس کا ماتم قیامت تک جاری رہے گا ایک روایت میں ہے کہ رسول خدا نے فاطمہ کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ خدا کچھ لوگوں کوہمیشہ پیدا کرتا رہے گا جس کے بوڑھے بوڑھوں پراورجوان جوانوں پراوربچے بچوں پراورعورتیں عورتوں پر گریہ وزاری کرتے رہیں گے۔


فطرس کا واقعہ

علامہ مذکور بحوالہ حضرت شیخ مفید علیہ الرحمہ رقمطرازہیں کہ اسی تہنیت کے سلسلہ میں جناب جبرئیل بے شمارفرشتوں کے ساتھ زمین کی طرف آرہے تھے کہ ناگاہ  ان کی نظرزمین کے ایک غیرمعروف طبقہ پرپڑی دیکھا کہ ایک فرشتہ زمین پرپڑاہوا زاروقطار رو رہا ہے آپ اس کے قریب گئے اورآپ نے اس سے ماجرا پوچھا اس نے کہا اے جبرئیل میں وہی فرشتہ ہوں جوپہلے آسمان پرستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرتا تھا میرا نام فطرس  ہے جبرئیل نے پوچھا تجھے کس جرم کی یہ سزاملی ہے اس نے عرض کی ،مرضی معبود کے سمجھنے میں ایک پل کی دیرکی تھی جس کی یہ سزابھگت رہا ہوں بال وپرجل گئے ہیں یہاںکنج تنہائی میں پڑاہوں ۔

ائے جبرئیل خدارا میری کچھ مدد کروابھی جبرئیل جواب نہ دینے پائے تھے کہ اس نے سوال کیا ائے روح الامین آپ کہاں جا رہے ہیں انہوں نے فرمایا کہ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفی صلعم کے یہاں ایک فرزند پیدا ہوا ہے جس کا نام حسین ہے میں خداکی طرف سے اس کی ادائے تہنیت کے لیے جا رہا ہوں، فطرس نے عرض کی اے جبرئیل خدا کے لیے مجھے اپنے ہمراہ لیتے چلو مجھے اسی درسے شفا اورنجات مل سکتی ہے جبرئیل اسے ساتھ لے کر حضورکی خدمت میں اس وقت پہنچے جب کہ امام حسین آغوش رسول میں جلوہ فرما تھے جبرئیل نے عرض حال کیا،سرورکائنات نے فرمایا کہ فطرس کے جسم کوحسین کے بدن سے مس کر دو، شفا ہوجائے گی جبرئیل نے ایسا ہی کیا اورفطرس کے بال وپراسی طرح روئیدہ ہوگیے جس طرح پہلے تھے ۔

وہ صحت پانے کے بعد فخرومباہات کرتا ہوا اپنی منزل”اصلی“ آسمان سوم پرجا پہنچا اورمثل سابق ستر ہزار فرشتوں کی قیادت کرنے لگا، بعد از شہادت حسین چوں برآں قضیہ مطلع شد“ یہاں تک کہ وہ زمانہ آیا جس میں امام حسین نے شہادت پائی اوراسے حالات سے آگاہی ہوئی تواس نے بارگاہ احدیت میں عرض کی مالک مجھے اجازت دی جائے کہ مین زمین پرجا کردشمنان حسین سے جنگ کروں ارشاد ہوا کہ جنگ کی ضرورت نہیں البتہ توستر ہزار فرشتے لے کر زمین پر جا اوران کی قبرمبارک پرصبح وشام گریہ ماتم کیا کر اوراس کا جو ثواب ہو اسے ان کے رونے والوں کے لیے ہبہ کردے چنانچہ فطرس زمین کربلا پرجا پہنچا اورتا قیام قیامت شب و روز روتا رہے گا(روضة الشہدا صص ۲۳۶ تا ۲۳۸ طبع بمبئی ۱۳۸۵ ئھ وغنیة الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی)۔

 

 امام حسین سینہ رسول پر

 صحابی رسول ابوہریرہ راوی حدیث کا بیان ہے کہ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ دیکھا ہے کہ رسول کریم لیٹے ہوئے اورامام حسین نہایت کمسنی کے عالم میں ان کے سینہ مبارک پرہیں، ان کے دونوں ہاتھوں کوپکڑے ہوئے فرماتے ہیں اے حسین تومیرے سینے پرکود چنانچہ امام حسین آپ کے سینہ مبارک پر کودنے لگے اس کے بعد حضورصلعم نے امام حسین کا منہ چوم کرخداکی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے میں اسے بے حد چاہتا ہوں توبھی اسے محبوب رکھ، ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت امام حسین کا لعاب دہن اوران کی زبان اس طرح چوستے تھے جس طرح کجھورکوئی چوسے (ارجح المطالب ص ۳۵۹ و ص ۳۶۱ ، استیعاب ج ۱ ص ۱۴۴، اصابہ جلد ۲ ص ۱۱، کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۴، کنوزالحقائق ص ۵۹) ۔


 جنت کے کپڑے اور فرزندان رسول کی عید

امام حسن اورا مام حسین کا بچپنا ہے عید آنے والی ہےاوران اسخیائے عالم کے گھرمیں نئے کپڑے کا کیا ذکر پرانے کپڑے بلکہ نان جویں تک نہیں ہے بچوں نے ماں کے گلے میں بانہیں ڈال دیں مادرگرامی اطفال مدینہ عید کے دن زرق برق کپڑے پہن کرنکلیں گے اورہمارے پاس بالکل لباس نونہیں ہے ہم کس طرح عید منائیں گے ماں نے کہا بچوگھبراؤ نہیں، تمہارے کپڑے درزی لائے گا عید کی رات آئی بچوں نے ماں سے پھرکپڑوں کا تقاضا کیا،ماں نے وہی جواب دے کرنونہالوں کوخاموش کردیا۔

ابھی صبح نہیں ہونے پائی تھی کہ ایک شخص نے دق الباب کیا، دروازہ کھٹکھٹایا فضہ دروازہ پرگئیں ایک شخص نے ایک بقچہ لباس دیا، فضہ نے سیدئہ عالم کی خدمت میں اسے پیش کیا اب جوکھولاتواس میں دوچھوٹے چھوٹے عمامے دوقبائیں،دوعبائیں غرضیکہ تمام ضروری کپڑے موجود تھے ماں کا دل باغ باغ ہوگیا وہ توسمجھ گئیں کہ یہ کپڑے جنت سے آئے ہیں لیکن منہ سے کچھ نہیں کہا بچوں کوجگایا کپڑے دئیے صبح ہوئی بچوں نے جب کپڑوں کے رنگ کی طرف توجہ کی توکہا مادرگرامی یہ توسفید کپڑے ہیں اطفال مدینہ رنگین کپڑے پہننے ہوں گے، امام جان ہمیں رنگین کپڑے چاہئیں ۔

حضور انورکواطلاع ملی، تشریف لائے، فرمایا گھبراؤ نہیں تمہارے کپڑے ابھی ابھی رنگین ہوجائیں گے اتنے میں جبرئیل آفتابہ لیے ہوئے آ پہنچے انہوں نے پانی ڈالا محمدمصطفی کے ارادے سے کپڑے سبزاورسرخ ہوگئے سبزجوڑاحسن نے پہنا سرخ جوڑاحسین نے زیب تن کیا، ماں نے گلے لگا لیا باپ نے بوسے دئیے نانا نے اپنی پشت پرسوارکرکے مہارکے بدلے زلفیں ہاتھوں میں دیدیں اورکہا،میرے نونہالو، رسالت کی باگ ڈورتمہارے ہاتھوں میں ہے جدھرچاہو موڑدو اورجہاں چاہولے چلو(روضة الشہداء ص ۱۸۹ بحارالانوار) ۔

بعض علماء کاکہناہے کہ سرورکائنات بچوں کوپشت پربٹھا کردونوں ہاتھوں اورپیروں سے چلنے لگے اوربچوں کی فرمائش پراونٹ کی آوازمنہ سے نکالنے لگے (کشف المحجوب)۔

 

 امام حسین کا سردار جنت ہونا

پیغمبر اسلام کی یہ حدیث مسلمات اورمتواترات سے ہے کہ الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنة و ابوہما خیر منہما حسن اور حسین جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدر بزرگواران دنوں سے بہترہیں (ابن ماجہ)صحابی رسول جناب حذیفہ یمانی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سرور کائنات صلعم کو بے انتہا مسرور دیکھ کرپوچھا حضور،افراط مسرت کی کیا وجہ ہے فرمایا اے حذیفہ آج ایک ایسا ملک نازل ہوا ہے جومیرے پاس اس سے قبل کبھی نہیں آیا تھا اس نے مجھے میرے بچوں کی سرداری جنت پرمبارک دی ہے اورکہا ہے کہ”ان فاطمة سیدة نساء اہل الجنة وان الحسن والحسین سیداشباب اہل الجنة“ فاطمة جنت کی عورتوں کی سردارہیں اورحسنین جنت کے مردوں کے سردارہیں (کنزالعمال جلد ۷ ص ۱۰۷، تاریخ الخلفاص ۱۲۳، اسدالغابہ ص ۱۲، اصابہ جلد ۲ ص ۱۲، ترمذی شریف، مطالب السول ص ۲۴۲، صواعق محرقہ ص ۱۱۴) ۔

اس حدیث سے سیادت علویہ کامسئلہ بھی حل ہوگیا قطع نظراس سے کہ حضرت علی میں مثل نبی سیادت کا ذاتی شرف موجود تھا اورخود سرورکائنات نے باربارآپ کی سیادت کی تصدیق سیدالعرب، سیدالمتقین، سیدالمومنین وغیرہ جیسے الفاظ سے فرمائی ہے حضرت علی کا سرداران جنت امام حسن اورامام حسین سے بہترہونا واضح کرتا ہے کہ آپ کی سیادت مسلم ہی نہیں بلکہ بہت بلند درجہ رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ میرے نزدیک جملہ اولاد علی سید ہیں یہ اوربات ہے کہ بنی فاطمہ کے برابرنہیں ہیں۔


 امام حسین عالم نمازمیں پشت رسول پر

 خدا نے جوشرف امام حسن اورامام حسین کوعطا فرمایا ہے وہ اولاد رسول اورفرزندان علی میں آل محمد کے سواکسی کونصیب نہیں ان حضرات کا ذکرعبادت اوران کی محبت عبادت، یہ حضرات اگرپشت رسول پرعالم نمازمیں سوارہوجائیں، تونمازمیں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا، اکثرایسا ہوتا تھا کہ یہ نونہالان رسالت پشت پرعالم نمازمیں سوار ہوجایا کرتے تھے اورجب کوئی منع کرنا چاہتا تھا توآپ اشارہ سے روک دیاکرتے تھے اورکبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ سجدہ میں اس وقت تک مشغول ذکررہا کرتے تھے جب تک بچے آپ کی پشت سے خود نہ اترآئیں آپ فرمایا کرتے تھے خدایا میں انہیں دوست رکھتا ہوں توبھی ان سے محبت کر؟ کبھی ارشاد ہوتا تھا اے دنیا والو! اگرمجھے دوست رکھتے ہوتومیرے بچوں سے بھی محبت کرو(اصابہ ص ۱۲ جلد ۲ ومستدرک امام حاکم ومطالب السؤل ص ۲۲۳) ۔

 

حدیث «حسین منی»

 سرور کائنات نے امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے دنیا والو! بس مختصریہ سمجھ لوکہ حسین منی وانامن الحسینحسین مجھ سے ہے اورمیں حسین سے ہوں ۔ خدا اسے دوست رکھے جوحسین کو دوست رکھے (مطالب السؤل ص ۲۴۲، صواعق محرقہ ص ۱۱۴، نورالابصار ص ۱۱۳ ،صحیح ترمذی جلد ۶ ص ۳۰۷ ،مستدرک امام حاکم جلد ۳ ص ۱۷۷ و مسند احمد جلد ۴ ص ۹۷۲، اسدالغابہ جلد ۲ ص ۹۱ ،کنزالعمال جلد ۴ ص ۲۲۱)

 

 مکتوبات باب جنت

سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ شب معراج جب میں سیرآسمانی کرتا ہوا جنت کے قریب پہنچا تودیکھا کہ باب جنت پرسونے کے حروف میں لکھا ہوا ہے۔

لاالہ الااللہ محمد حبیب اللہ علی ولی اللہ وفاطمة امةاللہ

والحسن والحسین صفوة اللہ ومن ابغضہم لعنہ اللہ

 ترجمہ  :  خداکے سواکوئی معبودنہیں۔ محمدصلعم اللہ کے رسول ہیں علی، اللہ کے ولی ہیں ۔ فاطمہ اللہ کی کنیزہیں، حسن اورحسین اللہ کے برگزیدہ ہیں اوران سے بغض رکھنے والوں پراللہ کی لعنت ہے(ارجح المطالب باب ۳ ص ۳۱۳ طبع لاہور ۱۲۵۱ )

 

 امام حسین اور صفات حسنہ کی مرکزیت

یہ تومعلوم ہی ہے کہ امام حسین حضرت محمد مصطفی صلی علیہ وآلہ وسلم کے نواسے،حضرت علی و فاطمہ کے بیٹے اورامام حسن کے بھائی تھے اورانہیں حضرات کو پنتن پاک کہا جاتا ہے اور امام حسین پنجتن کے آخری فرد ہیں یہ ظاہرہے کہ آخرتک رہنے والے اور ہردورسے گزرنے والے کے لیے اکتساب صفات حسنہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، امام حسین ۳/ شعبان ۴ ہجری کو پیدا ہو کرسرور کائنات کی پرورش و پرداخت اور آغوش مادرمیں میں رہے اورکسب صفات کرتے رہے، ۲۸/ صفر   ۱۱ ہجری کوجب آنحضرت شہادت پا گئے اور ۳/ جمادی الثانیہ کوماں کی برکتوں سے محروم ہوگئے توحضرت علی نے تعلیمات الہیہ اورصفات حسنہ سے بہرہ ورکیا، ۲۱/ رمضان ۴۰ ہجری کوآپ کی شہادت کے بعد امام حسن کے سرپرذمہ داری عائد ہوئی ،امام حسن ہرقسم کی استمداد و استعانت خاندانی اورفیضان باری میں برابرکے شریک رہے، ۲۸/ صفر ۵۰ ہجری کوجب امام حسن شہید ہوگئے توامام حسین صفات حسنہ کے واحد مرکز بن گئے، یہی وجہ ہے کہ آپ میں جملہ صفات حسنہ موجود تھے اورآپ کے طرزحیات میں محمد وعلی و فاطمہ اورحسن کا کردارنمایاں تھا اورآپ نے جوکچھ کیا قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا، کتب مقاتل میں ہے کہ کربلامیں حب امام حسین رخصت آخری کے لیے خیمہ میں تشریف لائے توجناب زینب نے فرمایا تھا کہ ائے خامس آل عباآج تمہاری جدائی کے تصورسے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محمد مصطفی، علی مرتضی، فاطمةالزہراء، حسن مجتبی ہم سے جدا ہو رہے ہیں۔

 عمرکا اعتراف شرف آل محمد

عہدعمری میں اگرچہ پیغمبر اسلام کی آنکھیں بندہوچکی تھی اورلوگ محمد مصطفی کی خدمت اورتعلیمات کوپس پشت ڈال چکے تھے لیکن پھربھی کبھی کبھی ”حق برزبان جاریکے مطابق عوام سچی باتیں سن ہی لیا کرتے تھے ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ عمرمنبررسول پرخطبہ فرما رہے تھے ناگاہ حضرت امام حسین کاادھرسے گزر ہوا آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور عمرکی طرف مخاطب ہوکربولے ”انزل عن منبر ابیمیرے باپ کے منبرسے اتر آئیے اورجائیے اپنے باپ  کے منبر پربیٹھے آپ نے کہا کہ میرے باپ کا توکوئی منبرنہیں ہے اس کے بعدمنبرسے اترکرامام حسین کواپنے ہمراہ گھرلے گئے اوروہاں پہنچ کرپوچھا کہ صاحب زادے تمہیں یہ بات کس نے سکھائی ہے توانہوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے سے کہا ہے، مجھے کسی نے سکھایا نہیں اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میرے ماں باپ تم پرفد اہوں، کبھی کبھی آیا کروآپ نے فرمایا بہترہے ایک دن آپ تشریف لے گئے تو عمرکومعاویہ سے تنہائی میں محوگفتگو پا کر واپس چلے گئے

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 18:16

معرفت امام حسین علیہ السلام

مقدمہ

اس سے پہلے کہ اصلی گفتگو میں وارد ہوں اور شخصیت امام حسین (ع) کے بارے میں کچھ لکھیں اپنے فہم و ادراک کے مطابق سید الشہداء امام حسین (ع) کی معرفت کے سلسلے میں کچھ باتیں مقدمہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:

۱: ا س بات میں کسی اسلامی مذہب کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ تمام آئمہ معصومین (ع)، مولائے کائنات سے لیکر امام مھدی (ع) تک ایک ہی نور سے ہیں کہ جو حقیقت محمدیہ ہے۔اس بنا پر اصل خلقت کے اعتبار سے کسی کو کسی پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب انوار الٰہیہ ہیں اور نور محمدیہ سے ہیں۔ اور کمالات و فضائل میں سب برابر ہیں۔ یعنی جو فضیلت کسی ایک امام کے لئے ثابت ہو دوسرے آئمہ کے لیے بھی خودبخود ثابت ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو امامت میں نقص لازم آئے گا کہ جو عقلا باطل اور محال ہے۔

۲: بعض آئمہ (ع) کی زندگی میں کچھ خاص مواقع اور فرصتیں پیش آتی رہی ہیں کہ دوسرے اماموں کی زندگی میں پیش نہیں آئی تھیں۔ لہٰذا بہت سارے آئمہ کو بعض کام انجام دینے کی فرصت اور موقع نصیب نہیں ہوتا رہا ہے۔ جیسے بنی امیہ کے سقوط اور بنی عباس کے برسر اقتدار آنے کے دوران امام صادق علیہ السلام کو فرصت ملی کہ آپ نےاس سے مکمل فائدہ اٹھایا اور علمی کارنامہ انجام دینا شروع کئے کہ جس کے نتیجہ میں چار ہزار سے زیادہ شاگردوں کو تربیت کیا۔ اسلام واقعی کی دنیا میں پہچان کروائی اور مذہب تشیع کو عروج دیا۔ لیکن زندگی کے آخر میں بنی عباس کی ظالمانہ حکومت نے ان پر مصائب ڈھانا شروع کر دئے اور آخر کار منصور نے زہر دے کر شہید کردیا۔

اب اگر یہ کہا جاتا ہے کہ امام جعفر صادق (ع) مذہب تشیع کے رئیس اور اسلام کو دوباره زندگی دینے والے ہیں اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ باقی آئمہ کے اندر معاذ اللہ اس کام کو انجام دینے کی صلاحیت نہیں تھی۔ یا امام حسین (ع) نے قیام کیا اور حیرت انگیز کارنامہ انجام دے کر اسلام کو حیات جاودانہ عطا کی تو دوسرے امام یہ کام نہیں کر سکتے تھے۔ یا امام حسن (ع) تکوینی طور پر قیام کرنے سے عاجز تھے۔ تاریخ کا دقیق مطالعہ کرنے سے یہ تمام مشکلات حل ہو جاتی ہیں کہ امام حسین کا قیام پہلے مرحلے پر حسنی ہے دوسرے مرحلے پر حسینی ہے۔

پہلی فصل

امام حسین (ع) کی خصوصیات

۱: پروردگار عالم نے امام حسین (ع) کےلیے ایک خصوصی حساب و کتاب رکھا ہے جو کسی نبی یا معصوم کے لیے نہیں رکھا۔

کیوں اور کیسے امام حسین (ع) نے اتنا بڑاانعام جیتا ہے؟ اس کا جواب آپ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہو جاتا ہے۔

حضرت امام حسین (ع) نہ صرف شیعوں کے دلوں میں مقام و منزلت رکھتے ہیں بلکہ تما م مذاہب اسلامی اور غیر اسلامی آپ کو ایک مرد آزاد کے عنوان سے پہچانتے ہیں۔اور آپ کے لیے کچھ خاص خصوصیات کے قائل ہیں۔ ہم یہاں پر بعض غیر اسلامی دانشوروں اور مورخین کے اقوال امام حسین (ع) سلسلے میں نقل کرتے ہیں:

ع۔ ل۔ پویڈ لکھتے ہیں:

"امام حسین (ع) نے یہ درس دیا ہے کہ دنیا میں بعض دائمی اصول جیسے عدالت، رحم، محبت وغیرہ پائے جاتے ہیں کہ جو قابل تغییر نہیں ہیں۔ اور اسی طریقے سے جب بھی کوئی برائی رواج پھیل جائے اور انسان اس کے مقابلے میں قیام کرے تو وہ دنیامیں ایک ثابت اصول کی حیثیت اختیار کر لے گا۔ گذشتہ صدیوں میں کچھ افراد ہمیشہ جرأت ،غیرت اور عظمت انسانی کو دوست رکھتے رہے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ آزادی اور عدالت، ظلم و فساد کے سامنے نہیں جھکی ہے ۔امام حسین بھی ان افراد میں سے ایک تھے جنہوں نے عدالت اور آزادی کو زندہ رکھا۔ میں خوشی کا احساس کر رہا ہوں کہ میں اس دن ان لوگوں کے ساتھ جن کی جانثاری اور فداکاری بے مثال تھی شریک ہوا ہوں اگرچہ ۱۳ سو سال اس تاریخ کو گزر چکے ہیں۔

امریکہ کا مشہور ومعروف مورخ اپرونیک، واشنگٹن سے لکھتا ہے:

"امام حسین(ع) کے لیے ممکن تھا کہ یزید کے آگے جھک کر اپنی زندگی کو بچا لیتے۔ لیکن امامت کی ذمہ داری اجازت نہیں دی رہی تھی کہ آپ یزید کو ایک خلیفۃ المسلمین کے عنوان سے قبول کریں انہوں نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر طرح کی مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ دھوپ کی شدت طمازت میں جلتی ہوئی ریتی پر حسین نے حیات ابدی کا سودا کر لیا ، اے مرد مجاہد، اے شجاعت کے علمبردار، اور اے شہسور، اے میرے حسین"۔

۲:امام حسین (ع) کی ولادت سے پہلے اور ولادت کے بعد شہادت تک تمام موجودات عالم نے آپ پر گریہ کیا ہے۔ اور شہادت کے بعد قیامت تک گریہ کرتے رہے گے ایسا حادثہ کسی کے لیے نہ پیش آیا ہے اور نہ پیش آ ئےگا۔ ہاں حضرت یحیی (ع) کے لیے بھی آسمان نے گریہ کیا تھا۔ تفسیر مجمع البیان میں اس آیت " فما بکت علیھم السماء وا لارض " کے ضمن میں مرحوم طبرسی نے فرمایا: دو آدمیوں جناب یحیی اور حضرت امام حسین (ع) کے لیے آسمانوں اور فرشتوں نے چالیس دن تک گریہ کیا ہے۔ اور اسی تفسیر میں آیا ہے: سورج طلوع اور غروب کے وقت چالیس دن تک سرخ حالت میں رہا ہے ۔ ابن شہر آشوب کے مناقب میں یوں آیا ہے:

بکت السماء علی الحسین (ع) اربعین یوماً۔( تفسیر صافی ، سورہ دخان)۔

۳: امام حسین (ع) تمام کمالات اور فضائل میں تمام انسانوں سے برتر تھے۔ کیوں آپ کی کنیت ابا عبدا للہ ہے ۔ کیا یہ ایک معمولی سی کنیت ہے؟ بظاہر اس کنیت کے اندر ایک ایسی خصوصیت ہے جو آپ کو تمام کمالات کا محور اور مرکز قرار دیتی ہے۔

ابو عبد اللہ یعنی اللہ کے بندے کا باپ۔ باپ کا ایک خاندان میں بنیادی رول ہوتا ہے۔وہ اس خاندان کے لیے نمونہ ہوتا ہے۔ باپ ایک مربی ہوتا ہے۔ پس امام حسین (ع) بھی تمام اللہ کے بندوں کے باپ ہیں یعنی تمام عبادتگذار کمالات کو حاصل کرنے کے لیے آپ کے در پہ آتے ہیں ۔ وہ ہر کمال کا نمونہ ہیں اور ہر کمال آپ میں خلاصہ ہوتا ہے۔

۴: امام حسین (ع) کی زیارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے۔ بہت ساری روایات میں آیا ہے کہ اگر کسی دن ایسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالی ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہو جاتا ہے کہ بیت اللہ کی زیارت کرنے جائیں۔ اگر چہ مستطیع نہ بھی ہوں یا حج واجب ادا کر چکے ہوں۔ مرحوم صدوق رضوان اللہ علیہ نے یہی بات امام حسین (ع) کے روضے کے بارے میں لکھی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہو امام حسین (ع) کا روضہ زائرین سے خالی ہو جائے تو تمام شیعوں پر واجب کفائی ہو جائے گا کہ امام کی زیارت کرنے جائیں۔ امام کی زیارت زائرین سے خالی نہیں رہنا چاہیے۔( نقل از آیت اللہ مرعشی نجفی)

کیا امام حسین (ع) کی زیارت عرفہ کے دن خانہ خدا کی زیارت کے برابر ہے؟

یا یہ کہا جائے کہ امام کی زیارت کا ثواب خانہ خدا کی زیارت سے زیادہ ہے یا برابر ہے؟۔ سب سے بڑی دلیل اس سلسلے میں یہ ہے : اس میں کوئی شک نہیں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ میں واقع ہے اس کی عظمت، حرمت، اور اس کا احترام جناب ابراہیم کی وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ابراہیم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعیل کو ذبح کرنے لگتے ہیں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتے ہیں لیکن امام حسین (ع) اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کئی اسماعیل راہ خدا میں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں پر پٹی نہیں باندھتے۔ پس زمین کربلا کہ جو فخر اسماعیل علی اکبر اور علی اصغر اور فخر ابراہیم امام حسین(ع) کو اپنی آغوش میں سلائے ہوئے ہے اس کی زیارت خانہ خدا کی زیارت سے اگر زیادہ ثواب نہیں رکھتی تو کسی قیمت پر کم بھی نہیں رکھتی۔

۵: امام حسین (ع) اپنے والد بزرگوارمولاے متقیان(ع) کی طرح رات کی تاریکی میں اپنے دوش پر اناج حمل کرتے تھے اور فقراء کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔ حتیٰ آپ کی شہادت کے بعد بھی آپ کی پشت پر کچھ ایسے زخم تھے جو نہ تلوار کے زخم تھے اور نہ نیزہ کے بلکہ اناج کی بوریاں اٹھانے کی وجہ سے یہ زخم پڑے تھے۔ لہذا جب امام زین العابدین (ع) سے پوچھا گیا فرماٰیا: یہ زخم فقراء اور مساکین کے گھروں تک غذا پہنچانے کے ہیں۔ اس حدیث کو دوسروں نے بھی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ جیسے ابن جوزی نے کتاب تذکرۃ الخواص اور ابو نعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں۔

امام حسین (ع) اور دینی حکومت

الٰہی نمائندوں اورآسمانی راہنماؤں نے دینی حکومت قائم کرنے کی آخری سانسوں تک کوشش کی ہے۔ اورظلم و ستم سے بشریت کو نجات دلانے کے لیے کچھ قوانین مقرر کیے ہیں ۔ امام علی (ع) کی شہادت کے بعد بنی امیہ کے بر سر اقتدار آنے سے اسلامی حکومت استعماری حکومت میں تبدیل ہو گئی۔ حکام نے اسلامی خلیفہ کے عنوان سے اسلام کو کھلونہ بنا لیا۔

سماج میں طبقہ بندی شروع گئی حضرت علی(ع) کے چاہنے والوں کو تمام اسلامی اور سماجی حقوق سے محروم رکھا جانے لگا۔ شعیوں پر زندگی نہات تنگ کر دی گئی۔ علی (ع) اور ان کے خاندان سے محبت عظیم جرم شمار ہونے لگا کہ جو شیعوں کی محرومیت کا سبب بن گیا۔ معاویہ اور اسکے تمام اہلکاروں کو قتل و غارت کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ اسلام کومکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹانے کی سازش رچائی گیئ۔

بعض لوگ اشکال کرتے ہیں کہ کیوں امام حسین (ع) نے زندگی کو خطرے میں ڈال دیا اور حکومت کے ساتھ صلح نہیں کی؟

مگر چین کی زندگی کیاہے؟ راحت کی زندگی الٰہی رہبروں کے نزدیک یہ ہے کہ معاشرہ چین سے زندگی گذارے۔ لوگ اپنی زندگی پر راضی ہوں۔ آزادی ہو ظلم وستم نہ ہو۔ قومی اور طبقاتی تعصب نہ پایا جاتا ہو۔

امام حسین (ع) اس وقت آرام کی زندگی گذار سکتے ہیں کہ لوگوں کے حقوق پامال نہ ہوں اور لوگ اپنے مذہب پر آزادی سے عمل پیرا ہو سکیں نہ یہ کہ لوگوں کے حقوق کو پامال کیا جائے اور وہ تنگ ماحول میں زندگی گذار رہے ہوں ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ایک گروہ دوسروں کے حقوق مار کر شان و شوکت کی زندگی جی رہا ہو اور خوشیوں سے مزے اڑا رہا ہو اور دوسرا گروہ ایک لقمہ نان کے لیے ترس رہا ہو۔

حسین (ع) اس کا بیٹا ہے جسے ہمیشہ بے کسوں اور بے بسوں کی فکر لاحق رہتی تھی۔ اور محروم اور مظلوم لوگوں کوظالموں اور ستمگروں سے نجات دلانے میں کوشاں رہتا تھا۔ راتوں کو اناج اپنے کاندھوں پر حمل کرتا تھا اور فقراء کے گھروں تک پہنچاتا تھا اور کبھی بھی ایک ساتھ دوقسم کی غذا تناول نہیں کی۔اور فرماتے تھے: میں کیسے نیا لباس پہنوں اور پیٹ بھر کے کھانا کھاؤں حالانکہ ممکن ہے اسلامی ممالک میں کوئی بھوکا اور برہنہ ہو۔

امام حسین (ع) اور آزادی

حریت اور آزادی ہر نظام کی بقاء کے لیے ایک بنیادی اصل اور اساسی رکن ہے۔ آزادی پیغمبروں کے اہداف میں سے ایک اہم ہدف تھا۔ وہ آئے تاکہ بشریت کو آزادی دلائیں۔ انسانی سماج کو سپر پاور اور ڈکٹیٹر شپ سے نجات دلائیں۔ آزادی ایسی چیز ہے جسے دنیا کا ہر انسان چاہتا ہے حتیٰ حیوانات اور دیگر موجودات بھی آزادی کو دوست رکھتے ہیں۔

امام حسین (ع) دنیائے اسلام پر ایک گہری نگاہ ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ بنی امیہ کے اقتدار سنبھالنے اور دین اسلام کو کھلواڑ بنانے سے اسلام کا نام ونشان بھی مٹ رہا ہے۔ اسلامی احکام اور قوانین انحراف کا شکار ہو گئے ہیں شیعہ جو اسلام کے واقعی ماننے والے تھے محرومیت کی زندگی گذار رہے ہیں۔

اس حالت کودیکھ کر فرزند علی (ع) جگر گوشہ بتول (س) اپنے آپ کو اجازت نہیں دیتا کہ خاموشی سے بیٹھ جائے اور تماشہ دیکھتا رہے۔ وہ علی (ع) کا لال ہے اسے میدان میں نکلنا پڑے گا اور طاغوت اور یزدیت کو صفحہ ہستی سے نابود کرنا پڑے گا۔

آپ بار بار یہ کہتے ہوئے جارے رہے تھے: اذا بلیت الامۃ علی مثل یزید بن معاویہ فعلی الاسلام السلام۔ یعنی جب بھی امت اسلامی یزید جیسے ملعون کے ہاتھوں گرفتار ہو گی تو اس وقت اس اسلام پر فاتحہ پڑھنی پڑے گی۔ لہذا امام حسین (ع) نے امت اسلام کی آزادی کی خاطرقیام کر کے ایک عظیم انقلاب رونما کر دیا۔

 

دوسری فصل

امام حسین علیہ السلام کے فضائل

امام حسین (ع) کی زیارت کا ثواب

شیخ صدوق نے کتاب " امالی" میں عبد اللہ بن فضل سے روایت کی ہے ان کا کہنا ہے : میں امام صادق (ع) کے پاس تھا کہ ایک طوس کا رہنے والا آدمی گھر میں داخل ہوا اور امام سے سوال کیا : اے فرزند رسول! جو شخص امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے اسے کیا ثواب ملے گا؟۔

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

اے طوس کے رہنے والے! جو شخص امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرے گا اس معرفت کے ساتھ کہ امام واجب الاطاعت ہیں یعنی خدا وند عالم نے تمام انسانوں پر واجب کیا ہے کہ ان کی اطاعت کریں ، خدا اس کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہوں کومعاف کر دے گا۔ اس کی شفاعت کو ستر(۷۰) گناہگاروں کے حق میں قبول کرے گا اور امام حسین (ع) کی قبر کے پاس انسان جو حاجت بھی طلب کرے گا خدا اسے بھر لائے گا۔(امالی صدق، ص 684، ح 11، مجلس 86).

امام حسین علیہ السلام کی عفو و گذشت

بعض اخلاقی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ عصام بن مصطلق نے کہا: میں مدینہ میں داخل ہوا امام حسین (ع) کو دیکھا کہ عجیب طرح کی چہرہ پہ نورانیت اور ہیبت تھی۔ میں حسد سے جل گیا اور ان کے باپ کی نسبت جو میرے سینے میں بغض و کنہ تھا ابھر آیا میں نے ان سے کہا: پس ابوترابی آپ ہی ہیں؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ جب انہوں نے جواب میں ہاں کہا، میں نے جوکچھ میری زبان پر آیا انہیں اورا ن کے باپ کو کہااور گالیاں دی۔امام حسین (ع) نے ایک محبت بھری نگاہ سے میری طرف دیکھا اور فرمایا:

" آعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ عفو اور بخشش کو اپنا پیشہ بنا لو اور نیکی اور صبر کی تلقین کرو، اور جاہل لوگوں سے منہ موڑ لو۔ اور جب شیطان تمہیں وسوسہ میں ڈالنا چاہے تو خدا کی پنا لو بتحقیق وہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔ صاحبان تقویٰ جب شیطانی وسوسوں اور توہمات میں گرفتار ہوتے ہیں خدا کو یاد کرتے ہیں اور فورا آپے سے باہر آتے ہیں اور باخبر ہو جاتے ہیں لیکن شیاطین اپنے بھائیوں کو ضلالت اور گمراہی کی طرف کھینچتے ہیں اور اس کے بعد انہیں گمراہ کرنے میں کوئی دریغ نہیں کرتے۔( سورہ اعراف، ۱۹۹،۲۰۲ )

ان آیات کی تلاوت کے بعد مجھے فرمایا:

تھوڑا دھیرے اور حواس میں رہو، میں اپنے لیے اور تمہارے لیے خدا سے مغفرت طلب کرتا ہوں۔ اگر تمہیں مدد کی ضرورت ہے تو تمہاری مدد کرتا ہوں اور اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو عطا کرتا ہوں اور اگر راستہ بھول گئے ہو رہنمائی کی ضرورت ہے تو رہنمائی کرتاہوں ۔

عصام کہتا ہے: میں اپنے کئے پہ پشیمان ہوا اور امام نے جب میرے چہرے پہ شرمندگی کے آثار دیکھے تو فرمایا:

کوئی اشکال اور ملامت آپ پر نہیں ہے خدا آپ کو معاف کر دے گا۔ وہ سب سے زیادہ مہربان ہے۔( سورہ یوسف ۹۲)

اس کے بعد فرمایا: کیا تم شام کے رہنے والے ہو؟ عرض کیا: جی ہاں

اس کے بعد امام حسین (ع) نے فرمایا: حیانا اللہ و ایاک۔ یعنی خدا ہمیں اور آپ کو زندہ رکھے۔ اور اسکے بعد فرمایا: شرم مت کرو جو تمہیں چاہیے ہے مجھ سے مانگو۔ اور اگر ہم سے کچھ طلب کیا ہمیں اپنے گمان سے بھی زیادہ عطا کرنے میں بڑا پاؤ گے۔

عصام کہتا ہے : زمین مجھ پر تنگ ہو گئی میں سوچ رہا تھا زمین پھٹے اور میں دفن ہو جاؤں اس لیے کہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے امام سے دور ہوتا ہوا دور ہو گیا، لیکن اس کے بعد روۓ زمین پر امام حسین (ع) اور ان کے باپ سے زیادہ میرے نزدیک کوئی محبوب نہیں تھا ۔(سفینة البحار، ج 2، ص 116)

ایک سائل کے ساتھ امام کی رفتار

شیخ ابو محمد حسن بن علی بن شعبہ صاحب کتاب " تحف العقول" نقل کرتے ہیں :

 انصار کا ایک آدمی امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سےاپنی حاجت طلب کرنا چاہتا تھا، امام نے اس سے فرمایا:

اے بھائی ، اپنی عزت کا خیال رکھو، اپنی حاجت کو ایک کاغذ پہ لکھو اور مجھے دو انشا ء اللہ تمہیں راضی کروں گا۔

اس آدمی نے لکھا: میں فلاں شخص کےپانچ سو دینار کا مقروض ہوں اوروہ اس کے واپس لینے میں اصرار کر رہا ہے۔ آپ سے تقاضا کر رہا ہوں کہ اس سے کہیں کہ مجھے اتنی مہلت دے جب تک میں آمادہ کرتا۔

جب امام حسین (ع)نے اس کے نوشہ کو پڑھا فورا گھر تشریف لے گئے اور اس تھیلی کو جس میں ہزار دینار تھے لا کے اسے دیا اور فرمایا:

پانچ سو دینار سے اپنا قرض ادا کرو اور پانچ سو کو اپنے پاس محفوظ رکھو تاکہ مشکلات میں تمہاری مدد ہو سکے۔ اور یاد رکھو اپنی حاجت کو ان تین آدمیوں کے علاوہ کسی سے طلب نہ کرنا جن کو میں پہچنوا رہا ہوں:

۱: متدین اور دیندار، ۲: سخی اور اہل کرامت، ۳: وہ شخص جو شریف خاندان سے تعلق رکھتا ہو۔( تحف العقول ، ص 245)

امام حسین (ع)کا تواضع اور انکساری

روایت میں ہے کہ عاشورا کے دن امام علیہ السلام کے پشت مبارک پر کچھ اثرات رونما تھے۔ امام زین العابدین (ع) سے ان کی وجہ معلوم کی گئی۔ آپ نے فرمایا:هذا مما کان ینقل الجراب علی ظهره إلی مناز الأرامل و الیتامی و المساکین یہ اثرات اس بوجھ کے ہیں جو آپ اپنی پشت پر اٹھا کر بیواؤں ، یتیموں اور بیکسوں کے گھروں میں پہنچاتے تھے۔( مناقب ابن شهر آشوب، ج4، ص 66).

امام حسین (ع) کا احسان

انس کہتے ہیں: میں امام حسین (ع) کی خدمت میں تھا ایک کنیز داخل ہوئی اور پھولوں کا دستہ امام کو ہدیہ دیا۔ امام نے فرمایا:

تم راہ خدا میں آزاد ہو۔

عرض کیا: اس نے آپ کے لئے پھولوں کا ایک دستہ لایا کہ جس کی اتنی قیمت نہیں ہے کہ آپ اس کو آزاد کر دیں۔ امام نے فرمایا:

خدا نے اسی طرح کا ہمیں ادب سیکھایا ہے۔ اور قرآن میں فرمایا:و إذا حُییتُم بِتَحِیة فَحَیوا بِأَحسَن مِنها أو رُدُّوها." ( نساء/86 جب تمہیں کوئی سلام کرے یا تمہارے ساتھ احسان کرے تم یا تو اس کا ویسا ہی جواب لوٹا دو یا اس سے بہتر جواب دو۔ اور اس کے احسان سے بہتر اس کو آزاد کرنا ہی ہے۔(کشف الغمة، ج 2، ص 31.)

 

تیسری فصل

عاشورا کی تعلیمات

 کربلا ایک ایسی عظیم درسگاہ ہے جس نے بشریت کو زندگی کے ہر گوشہ میں درس انسانیت دیا ہے اور ہر صاحب فکر کو اپنی عظمت کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ روز عاشورا کی تعلیمات ہر انسان کے لیے ابدی زندگی کا سرمایا ہیں کہ جن میں سے چند ایک کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے:

۱: حریت اور آزادی

تحریک کربلاکا سب سے اہم درس آزادی ، حریت اور ظلم و استبداد کے آگے نہ جھکنا ہے۔ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: موت فی عز خیر من حیاۃ فی ذل۔ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے۔ اور ظالم کی بیعت قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا: لا و اللہ ، لا اعطیھم یدی اعطاہ الذلیل و لا اقر اقرار العبید۔خدا کی قسم، اپنا ہاتھ ذلت کے ہاتھوں میں نہیں دوں گا اور غلاموں کی طرح تمہارے آگے نہیں جھکوں گا۔

اسی طریقے سے کربلا میں جب آپ کو جنگ اور بیعت کے درمیان مقید کر دیا تو آپ نے فرمایا: الا و انّ الدعی بن الدعی قد رکزنی بین اثنین ،بین السلۃ و الذ لۃ، ھیھات منا الذلۃ۔۔۔ ناپاک کے بیٹے ناپاک نے مجھے دوچیزوں کے درمیان ،شمشیر اور ذلت کے درمیان مخیر قرار دیا ہے تو یاد رکھنا ذلت ہم سے کوسوں دور ہے۔

نہضت عاشورا نے تمام مظلومان عالم کو مقاومت اور ظالموں کا مقابلہ کرنے والوں کو ثابت قدمی کا درس دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے مصلح اعظم جناب گاندھی جی یہ تاریخی جملہ کہنے پر مجبور ہو گئے: میں ہندوستان کے لوگوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں لے کر آیا۔ میں صرف اس نتیجہ کو جومیں نے کربلا کے بہادروں کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد اخذ کیا ہے تمہارے لیے تحفہ کے طور پر لایا ہوں ۔ اگر تم لوگ ہندوستان کو ظلم سے نجات دلاتا چاہتے ہوتو حسین بن علی علیہ السلام کی سیرت پر عمل کر پڑے گا۔

۲: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

تاریخ عاشورا میں یزید کی حکومت سب سے بڑا منکر اور برائی ہے اور حق و صداقت کو حاکم بنانے کے لیے اور ظلم کی بیخ کنی کرنے کے لیے جنگ کرنا سب سے بڑا معروف اور نیکی ہے۔ لہٰذا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر واقعہ کربلا کا سب سے اہم فلسفہ ہے۔ حضرت سید الشہداء (ع) اپنے وصیت نامہ میں جو اپنے بھائی محمد حنفیہ کو لکھتے ہیں یہ بیان کرتے ہیں: «اِنّى ما خَرَجتُ اَشراً و لا بَطراً و لا مُفسداً و لا ظالماً، اِنّما خرجتُ لِطلَبِ الاِصلاح فى اُمَّهِ جدّى، اُریدُ اَن آمُرَ بالمعروفِ و اَنهى عن المنکر و اُسیر بسیرهِ جدّى و اَبى علىّ بن اَبیطالب‏»؛میں سرکشی اور مقام طلبی کی خاطر یا ظلم و فساد پھیلانے کی خاطر نہیں چلا ہوں بلکہ میرا مقصد صرف نانا کی امت کی اصلاح کرنا، اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور بابا کی سیرت پر عمل پیرا ہونا ہے۔

امام(ع) کے یہ کلمات امام(ع) کی تحریک میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کےضروری ہونے کو روز روشن کی طرح واضح کرتے ہیں۔ امام کے زیارت نامہ میں بھی یہ موضوع بیان ہوا ہے: اشھد انک قد اقمت الصلاۃ و آتیت الزکاۃ و امرت بالمعروف و نہیت عن المنکر و جاھدت فی سبیل اللہ حتی اتاک الیقین۔

زیارت کے یہ کلمات اس فریضہ الہی کی گہرائی کو میدان جہاد میں جلوہ نما کرتے ہیں ۔ امام حسین (ع) نے عصر عاشورا اس فریضہ الہی پر عمل کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ انسانی سماج قائم کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ،واجبات کی تلقین اور محرمات سے روکنا، حتی عدل و انصاف کی خاطر قیام کرنا اور ظلم و استبداد کو سرنگوں کرنا کرہ ارض کے ہر خطہ میں بسنے والے ہر انسان پر ضروری ہے ۔سید الشہداء امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت کا انکار کر کے ولید اور مروان کو منہ توڑ جواب دے دیا اور اس کے بعد نانا رسول خدا(ص) کی قبر پر تشریف لے گئے۔ نانا سے مناجات کرنا شروع کیا۔ اور اپنی مناجات میں معرو ف اور نیکی سے محبت کا اظہار کیا۔ اور خدا سے اس سلسلے میں طلب خیر کرتے ہوئے فرمایا: خدایا میں نیکیوں کو دوست رکھتا ہوں اور منکرات سے متنفر ہوں اے خداۓ عز و جل میں تجھے اس قبر اور صاحب قبر کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے لیے اس راستہ کا انتخاب کر جس میں تیری رضا ہو۔

۳: وفاداری

وفاۓ عہد، ایمان کی نشانی ہے۔ روایت میں ہے: من دلائل الایمان ، الوفاء بالعھد۔ ایمان کی ایک نشانی وعدہ کا وفا کرنا ہے۔

جب ہم واقعہ عاشورا کی طرف دیکھتے ہیں ایک طرف وفاداری کے مجسم پیکر نظر آتے ہیں اوردوسری طرف بے وفائی اور عہد شکنی کے بت۔

کوفیوں کا ایک اہم نکتہ ضعف یہی بے وفائی تھی۔چاہے وہ مسلم بن عقیل کے ساتھ بیعت میں بے وفائی ہو چاہے وہ امام حسین (ع) کی طرف خط لکھنے اور دعدہ نصرت کرنے کو بعد بے وفائی ہو۔ اور یہ نہ صرف بے وفائی کا ثبوت دیتے ہوئے امام کی مدد نہیں کی بلکہ برعکس دشمنوں کی صفوں میں آکر امام کے ساتھ معرکہ آرا ہو گئے۔ امام نے جو جناب حر کے ساتھ گفتگو کی اس میں بیان کیا: اگر تم نے میرے ساتھ وعدہ کو وفا نہیں کیا اور عہد شکنی کی، یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے اس لیے کہ تم لوگوں نے میرے باپ علی (ع)، میرے بھائی حسن(ع) اور میرے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کے ساتھ بھی یہی کیا ہے۔

ایک طرف بے وفائی کی انتہاء تھی اور دوسری طرف امام حسین (ع) وفاداری کا مجسم نمونہ اور نہ صرف امام حسین (ع) بلکہ ان کے بہتر(۷۲) جانثار بھی وفاداری کی آخری منزل پر فائز ہیں۔ جب شب عاشور کو امام حسین (ع) ان کے ایک ایک کے قتل ہو جانے کی خبر دے رہے ہیں نہ صرف انہوں نے سر نہیں جھکائے بلکہ حیرت کن جملات پیش کر کے امام کے قدموں میں اپنی جانیں قربان کرنے کی آمادگی کا اظہار کیا حالا نکہ امام (ع) نے اپنی بیعت کو ان کے کاندھوں سے اٹھا لیا تھا۔ آخر کار امام کو یہ کہنا پڑا: میں اپنے اصحاب سے زیادہ وفادار اصحاب کو نہیں جانتا۔

حضرت ابوالفضل العباس اور ان کے بھائیوں کو دشمن نے امان دی لیکن انہوں نے ان کی امان کو قبول نہیں کیا اور ایسا کردار پیش کیا کہ وفاداری کی مثال بن گئے۔ تاریخ بشریت میں عباس جیسا باوفا انسان نظر نہیں آ سکتا۔ وہ عباس کہ جس کا دوسرا نام ہی وفا ہو گیا ہو۔ جناب عباس کے زیارت نامہ میں وارد ہوا ہے:«أشهدُ لکَ بِالتسلیمِ و التّصدیقِ و الوفاءِ و النَّصیحهِ لِخَلَفِ النّبیِّ»؛ یہ گواہی ہے عباس کی بھائی کے سامنے اطاعت ،تسلیم، تصدیق اور وفاداری پر۔

عاشورا کے پیغامات میں سے ایک پیغام ، پیغام وفا ہے جو کبھی بھی دنیا کے وفا دار اور وفا دوست افراد کے ذہنوں سے محو نہیں ہو سکتا۔

۴: رضا اور تسلیم

عرفان کے بلند ترین مراتب میں سے ایک مرتبہ رضا کا ہے۔ رضا ، خدا کی نسبت انتہائی محبت اور عشق کی علامت بھی ہے اور کمال اخلاص اور استحکام ارادہ و عمل کی دلیل بھی ہے۔

اہلبیت علیھم السلام نے بر بنائے رضا ہر بلا اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے تحمل کر لیا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر گز شجرۂ دین استوار اور پر ثمر نہ ہو پاتا۔

واقعہ کربلا رضا اور تسلیم کا کامل نمونہ ہے۔ امام حسین (ع) کوفہ کے راستے میں فرزدق سے ملاقات کرنے کےبعد فرماتے ہیں: میں قضاۓ الٰہی کو دوست رکھتا ہوں خدا کا اس کی نعمات پر شکریہ ادا کرتا ہوں اور اگر قضائے الٰہی نے ہمارے درمیان اور ہماری امید کے درمیان فاصلہ ڈال دیا تب بھی ہم رضائے الٰہی کو مقدم رکھیں گے۔

اسی طریقے سے امام اپنے ان اشعار میں جو اس سفر کے دوران رنج و مصائب کی بنا پر ان کی زبان پر جاری ہوئے فرماتے ہیں: رضا اللہ رضان اھل البیت۔ یعنی جو اللہ کی رضا ہے وہی اہم اہلبیت کی رضا ہے۔

آپ نے زندگی کے آخری لمحوں میں پیشانی کو تپتی ہوئی ریت پر رکھ کر قضائے الٰہی پر رضا اور تسلیم کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا: «إلهی رضاً بِقضائکَ تَسلیماً لِأمرِکَ لا معبودَ سِواک یا غیاثَ المُستغیثینَ ۔

البتہ یہ یاد رہے کہ صبر و رضا کا دعویٰ کر لینا تو بہت آسان ہے اپنے آپ کو صابر اور تسلیم حق کہہ دینا تو بہت آسان ہے لیکن حسین بن علی (ع) کی طرح ثبوت پیش کرنا اور تسلیم و رضا کے درجۂ کمال کو پا لینا صرف حسین (ع) کا کام ہے۔

۵: اخلاص

اخلاص مکتب عاشورا کا ایک آشکارجلوہ اور گراں قیمت گوہر ہے۔

تحریک عاشورا کی بقا کاایک اہم ترین راز یہ گوہر اخلاص ہے اور خدا نے وعدہ کیا ہے کہ مخلصین کے عمل کو ضائع نہیں کرے گا۔ اور انہیں دنیا اور آخرت میں اجر کامل عطا کرے گا۔

تاریخ بشری اور تاریخ اسلام میں جنگ اور جہاد کے بہت سے واقعات پائے جاتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بعض واقعات تاریخ کے صفحوں میں جاویدانی زندگی اختیار کر لیتے ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں مٹا نہیں سکتی یہ وہ واقعات ہیں جو اخلاص اور للٰہیت کے سمندر میں غوطہ ور ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کریم صبغۃ اللہ یعنی رنگ خدائی سے یاد کرتاہے۔ واقعہ عاشورا اس لازوال رنگ الٰہی میں رنگین ہے۔

امام حسین علیہ السلام نے اپنی ان تقاریر میں جو انہوں نے مدینہ سے نکلنے سے پہلے فرائیں، ہرطرح کی دنیا طلبی اور حکومت خواہی کو محکوم کیا اور اپنے سفر کے خالص ارادہ کو کہ جو وہی دین اور سماج کی اصلاح ہے بیان کیا: خدایا تو جانتا ہے کہ جو کچھ میں انجام دے رہا ہوں ہر گز دنیوی حکومت اور دنیوی مال ومنال کے لیے نہیں ہے۔ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ دین اسلام کی تعلیمات سے باخبر کروں اور خدا کی نشانیوں کو دکھلاؤں اورسماج کی اصلاح کروں تاکہ مظلوم امن و آمان سے رہیں اور تیرا حکم اور تیری سنت اجرا ہو۔

یہی الٰہی تصمیم تھا کہ جس کی وجہ سے کوئی چیز امام اور ان کے اصحاب کو اس مقصد سے روک نہ سکا۔ اس خالصانہ نہضت اور تحریک میں جو ناخالص افراد تھے دھیرے دھیرے راہ کربلا میں امام سے جدا ہو گئے۔ یہاں تک کہ عاشورا میں وہی افراد باقی تھے جو مجسمہ اخلاص تھے۔ خلوص ایسی چیز ہے جسے صرف خدا ہی پرکھ سکتا ہے۔ اور خدا کا خالص بندہ صرف خدا کے بارے میں سوچتا ہے اور اپنی جان کو اس کی راہ میں نچھاور کرنے کو آسان اور معمولی بات سمجھتا ہے۔

درس عاشورا یہ ہے کہ ہم اپنے ہر کام میں مقصد اور ہدف کو خالص کریں۔ اور یہ جان لیں کہ خدا کی بارگاہ میں وہی عملی جاودانہ ہے جو رنگ خدائی رکھتاہو اور یہی راز ہے تاریخ بشریت میں کربلا کی بقا کا۔ اس طریقے سے کہ   زمانے کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نہ صرف کوئی کمی واقع نہیں ہو پا رہی ہے بلکہ دن بدن اس نہضت اور تحریک کے دامن وسعت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔

۶: ادب، نجات کا عامل

انسان کی نجات اور عاقبت کے بخیر ہونے کا ایک سبب، ادب ہے روایات میں ہے کہ سب سے بہترین چیز جسے اولاد کو اپنے والدین سے ارث میں لینا چاہیے، ادب ہے۔

تحریک عاشورا میں ادب کے بے نظیر نمونہ پائے جاتے ہیں۔

مثال کے طور پر جب حر کے لشکر کو حکم ملا کہ امام حسین (ع) پر راستہ بند کر دیا جائے امام نے حر کی طرف رخ کیا اور فرمایا: ثکلتک امک ما ترید؟یعنی تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے ، تو مجھ سے کیا چاہتا ہے؟۔ حر نے جواب میں کہا : اگر آپ کی ماں دختر پیغمبر (ع)کے علاوہ کوئی اور ہوتی تو میں بھی ایسا ہی جواب دیتا۔ لیکن کیا کروں کہ آپ کی ماں فاطمہ زہراء (ع) ہیں۔

یہ ادب و احترام کہ جو جناب حر نے حضرت زہرا (س) کے مقابلے میں کیا ان کی نجات کا ایک سبب بن گیا۔

اسی طریقے سے حضرت ابوالفضل العباس کا بے مثال ادب و احترام امام حسین (ع) کے سلسلے میں اپنی مثال آپ ہے۔ روز عاشورا تک نہیں ملتا ہے کہ حضرت عباس نے امام حسین (ع) کو بھائی کہہ کے آواز دی ہو۔ ہمیشہ امام کو مولا کہہ کے مخاطب کرتے تھے۔ صرف اس وقت امام کو بھائی کہہ کے بلایا جب اپنے دونوں ہاتھوں کو کھو چکے تھے۔ آنکھ میں تیر پیوست تھا اور سر گرز کے وجہ سے شگافتہ ہو چکا تھا۔ جب زین فرس سے زمین پر آ رہے تھے فرمایا:یا اخاک ادرک اخاک۔ اے بھیا، اپنے بھائی کی خبر لیجئے۔

ایک سبب جو تاریخ شہداء میں حضرت عباس کے مقام کو بلند کرتا ہے یہی بے مثال ادب و احترام ہےجو انہوں اپنے زمانے کے امام کے سامنے دکھلایا ہے۔

۷: حجاب اور عفت

عورت کی کرامت اور بزرگی اس کی عفت اور پاکدامنی میں نہفتہ ہے۔ اور حجاب ، عورت کی عفت اور پاکدامنی کو محفوظ رکھنے اور سماج کو اخلاقی برائیوں سے بچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ امام حسین (ع) ، حضرت زینب (س) اور آپ کے خاندان پاک نے کربلا کی تحریک میں اپنے عمل اور اپنی زبان سے حجاب کی رعایت پر بے انتہا تاکید کی۔

شب عاشور کو امام (ع) نے اپنے اہلبیت کے ساتھ گفتگو میں انہیں حجاب اور عفت کی وصیت کی۔

روز عاشورا جب امام حسین (ع) نے بچیوں کے رونے کی بلند آواز سنی جناب عباس اور جناب علی اکبر کو بھیجا تاکہ انہیں صبر و تحمل کی تاکید کریں۔

بعض لوگوں کے گمان کے برخلاف، حضرت زینب روز عاشورا کو بہت کم خیمہ سے باہر نکلیں تاکہ نامحرموں نگاہ ان کے بدن کے حجم پر نہ پڑے۔

منجملہ، جب امام حسین (ع) جناب علی اکبر کے سرہانے پہنچے تو جناب زینب کو یہ لگا کہ کبھی امام اس مصیبت کو تحمل نہ کر پائیں اور اپنی جان دے دیں، لہٰذا خیمہ سے نکل کر بھائی کو سہارا دینے پہنچیں۔

امام سجاد (ع) کربلا کے اسیروں کے کافلہ میں مخدرات عصمت و طہارت کی عفت و حجاب کے محافظ تھے۔ اور کوفہ میں ابن زیاد سے کہا: اگر تمہاے اندر کوئی خوف خدا باقی رہ گیا ہے تو کسی نیک پاکدامن مسلمان کو ان خواتین کے ساتھ مدینہ بھیجو۔

اسی طریقہ سے جب عمر سعد کا اس کاروان کے پاس سے گذر ہوتا تھا تو اہل حرم فریاد بلند کرتے تھے اور اپنی لٹی ہوئی چادریں اس سے طلب کرتے تھے تاکہ ان کے ذریعے اپنے حجاب کے حفاظت کر سکیں۔

یہ تاریخ عاشورا میں عفت اور پاکدامنی کے چند نمونہ تھے لیکن افسوس سے جب ہم اپنے سماج کی طرف نگاہ کرتے ہیں تو جو حجاب اور پردہ ہمیں اپنی خواتین میں نظر آتا ہے وہ کربلا کی خواتین سے کوسوں دور ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو درس ہمیں کربلا کی انسانیت ساز تاریخ سے لینا چاہیے اور ان کے ذریعے اپنی زندگی کو سعادتمند بنانا چاہیے نہیں لے پا رہے ہیں۔

امام حسین(ع) کے قیام کا مقصد صحیح زندگی کی روش اور ڈھگر دکھلانا ہے اور اگر یہ روش اور طریقہ میدان عمل میں نظر نہ آئے تو کل قیامت کے دن امام حسین (ع) کو کیا جواب دیں گے۔ ذراغور و فکر کیجئے۔

چوتھی فصل

زیارت عاشورا کی فضیلت

صرف تین روایتں زیارت عاشورا کی فضیلت کے سلسلے میں حضرت ابا عبد اللہ الحسین (ع) کے عزاداروں اور چاہنے والوں کی خدمت تقدیم کرتے ہیں:

روایت اول

شیخ طوسی کتاب مصباح المجتہد میں محمد بن اسماعیل بن بزیع سے اور وہ صالح بن عقبہ سے اور وہ اپنے باپ سے اور وہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آُ پ نے فرمایا: جو شخص حسین بن علی (ع) کی عاشورا کے دن زیارت کرے اور ان کی قبر پر بیٹھ کر گریہ کرے قیامت کے دن خدا وند عالم اس کو دو ہزار حج ، دو ہزار عمرہ اور دو ہزار جہاد کا ثواب دے گا۔ اور وہ بھی وہ حج،عمرہ اور جہاد جو رسول اکرم(ص) اور آئمہ طاہرین (ع)کے رکاب میں انجام دئے ہوں۔

راوی کہتا ہے : میں نے عرض کیا میری جان آپ پر فدا ہو وہ آدمی جو کسی دوسرے شہر یا ملک میں رہتا ہے اور اس دن آپ(ع) کی قبر تک نہیں پہنچ سکتا وہ کیا کرے؟

امام نے جواب میں فرمایا: اگر ایسا ہو تو صحراء یا اپنے گھر کی چھت پر جائے اور امام حسین (ع) کی قبر کی طرف اشارہ کر کے سلام کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کرے اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور اس عمل کو ظہر سے پہلے انجام دے اور ان کی مصیبت میں گریہ و زاری کرے اور اگر کسی کا ڈر نہ ہوتو اپنے خاندان والوں کو بھی ان پر رونے کا حکم دے اور اپنے گھر میں مجلس عزا برپا کرے اور سید الشہدا (ع) کو یاد کر کے ایک دوسرے کو تعزیت دیں، میں ضمانت دیتا ہوں جو شخص اس عمل کو انجام دے گا خدا یہ تمام ثواب اسے بھی عطا کرے گا ( اس شخص کی طرح جو امام کی قبر پر حاضر ہو کر زیارت کرتا ہے)۔

راوی نے عرض کیا کیسے ایک دوسرے کو تعزیت کہیں؟

فرمایا: «أعظم الله أجورنا بمصابنا بالحسین علیه‌السلام و جعلنا و إیّاکم من الطالبین بثاره مع ولیه الإمام المهدى من آل محمد علیهم السلام»؛

یعنی خدا امام حسین کی عزاداری میں ہمارے اجر میں اضافہ کرے۔ اور ہمیں اور آپ کو انکے خون کا انتقام لینے والوں میں سے امام مھدی (ع) کے ساتھ قرار دے۔

اس کے بعد فرمایا: اس دن کسی کام لیے اپنے گھر سے باہر مت جاؤ یہ دن نحس ہے اور اس دن کسی مومن کی حاجت پوری نہیں ہوتی اور اگر پوری ہو بھی تو اس میں برکت نہیں ہو گی۔

تم میں سے کوئی بھی اپنے گھر میں کچھ بھی ذخیرہ نہ کرے اگر ایسا کیا تو اس میں برکت نہیں ہو گی اگر کوئی اس دستور پر عمل پیرا ہو گا تو اسے ہزار حج، ہزار عمرہ اور ہزار جہاد کا اور وہ بھی رسول خدا (ص) کے ساتھ انجام دینے کا ثواب ملے گا اور ابتدائے خلقت سے اب تک جتنے راہ خدا میں نبی، رسول، اور انکے وصی شہید ہوئے ہیں کا ثواب اسے ملے گا۔

روایت دوم

صالح بن عقبہ اور سیف بن عمیرہ نقل کرتے ہیں کہ علقمہ بن محمد الخضرمی نے کہا: میں نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا : ایک ایسی دعا مجھے تعلیم دیجۓ کہ اگر نزدیک سے میں کربلا والوں کی زیارت کروں تو اس کے بعد اس دعا کو پڑھوں اور اگر دور سے زیارت کروں تو اسے پڑھوں ۔

امام نے فرمایا: اے علقمہ جب تم زیارت پڑھنا چاہو تو دو رکعت نماز ادا کرو تکبیر کے بعد کربلا کی طرف اشارہ کر کے اس زیارت یعنی زیارت عاشورا کو پڑھو۔

پس اگر تم نے اس زیارت کو پڑھا اور دعا کی جسے ملائکہ بھی جو زائر حسین(ع) ہیں پڑھتے ہیں خدا وند عالم ایک لاکھ نیکیاں تمہارے حق میں لکھے گا اور تم اس شخص کی طرح ہو جو امام حسین (ع) کے ساتھ شہید ہوا ہو اور تمہارے لیے ہر پیغمبر، رسول، اور ہرزائر کا ثواب جس نے امام حسین کی زیارت کی، لکھا جائے گا۔

زیارت کو نقل کرنے کے بعد علقمہ کہتا ہے: امام باقر علیہ السلام نے مجھے کہا اگر ہر روز اس زیارت کو اپنے گھر میں ہی پڑھو گے تو یہ سارا ثواب تمہیں مل جائے گا۔

روایت سوم

شیخ (رہ) کتاب مصباح میں محمد بن خالد طیالسی سے اور وہ سیف بن عمیرہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد کہ امام صادق (ع) حیرہ سے مدینہ تشریف لائے ہم صفوان بن مھران اور کچھ دوسرے اصحاب کے ساتھ نجف اشرف چلے گئے۔ امیر المومنین علی (ع) کی زیارت کرکے جب فارغ ہوئے صفوان نے اپنا رخ کربلا کی طرف کیا اور ہم سے کہا یہیں سے امام حسین کی زیارت کیجیے کہ میں امام صادق کے ساتھ تھا انہوں نے یہیں سے امام حسین (ع) کی زیارت کی۔

اس کے بعد زیارت عاشورا پڑھنا شروع کیا اور نماز زیارت ادا کرنے کے بعد دعاے علقمہ کہ جو زیارت عاشورا کے بعد پڑھی جاتی ہے کو پڑھا۔

سیف بن عمیرہ کہتے ہیں کہ میں نے صفوان سے کہا جب علقمہ بن محمد نے زیارت عاشورا کو ہمارے لیے نقل کیا اس دعا کو ہمیں نہیں بتایا۔

صفوان نے کہا امام صادق (ع) کے ساتھ ہم یہاں پر آئے جب آپ نے زیارت عاشورا کو پڑھا اس کے بعد دو رکعت نماز ادا کی اور اس کے بعد اس دعا کو بھی پڑھا۔

اس کے بعد امام صادق (ع) نے مجھ سے کہا اے صفوان اس زیارت اور اس دعا کو فراموش نہ کرنا۔ اس کو پڑھتے رہنا میں ضامن ہوں جو شخص اس زیارت اور دعا کو چاہے نزدیک سے چاہے دور سے پڑھے۔ اس کی زیارت قبول ہو گی اور اس کا سلام انہیں پہنچ جائے گا اس کی حاجت خدا کی طرف سے قبول ہوجائے گی۔ وہ جس مقام پر بھی پہنچنا چاہے گا اسے عطا کی جائے گا۔

اے صفوان! میں نے اس زیارت کو اسی ضمانت کے ساتھ اپنے والد سے لیا ہے اور بابا نے اپنے والد علی بن حسین (ع) اوراسی طریقہ سے امیر المومنین علی (ع) نے رسول خدا سے اور انہوں نے جبرئیل سے اور جبرئیل نے اس زیارت کو خدا وندعالم سے اسی ضمانت کے ساتھ لیا ہے۔ خدا وند عالم نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ جو شخص حسین(ع) کی دور سے یا نزدیک سے زیارت کرے گا اور اس کے بعد یہ دعا پڑھے گا اس کی زیارت قبول کروں گا اور اس کی حاجت کو بھر لاؤں گا چاہے جو بھی ہو۔

وہ میرے پاس سے ناامید نہیں لوٹے گا بلکہ خوشی خوشی اپنی حاجت کے ساتھ جنت کی خوشخبری اور آتش جھنم سے رہائی کے ساتھ واپس جائے گا۔ اور اس کی شفاعت کو دشمن اہلبیت کے سوا ہر ایک کے حق میں قبول کروں گا۔

خدا نے قسم کھائی اور ہمیں گواہ رکھا جیسا کہ ملائکہ بھی گواہ تھے اور جبرئل نے کہا یا رسول اللہ خدا نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے سلام اور بشارت دی ہے آپ کو علی، فاطمہ کو حسن اور حسین کو اور آپ کے خاندان کے تمام آئمہ کو۔

اس کے بعد صفوان نےکہا امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا: جب بھی کوئی حاجت تمہیں پیش آئے جہاں بھی ہو اس زیارت کو پڑھو اور اپنی حاجت کو خدا سے چاہو وہ بھر لائے گا خدا اور اس کا رسول وعدہ خلافی نہیں کرتے۔

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 18:11

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

 

1

 

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی

 

بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم

امام حسین علیہ السلام نے کیوں قیام فرمایا؟

اِس سوال پر اسلامی تاریخ کے ہردور میں اظہارِ خیال کیاگیا ہے اور اِس تحریک اور قیام کے مختلف مقاصد ومحرکات بیان کئے گئے ہیں۔اظہارِ خیال کرنے والے بعض حضرات نے انتہائی جزئی مطالعے، کوتاہ فکری، کسی خاص فکری رجحان سے وابستگی یا بدنیتی کی بنا پرامام حسین ؑ کے قیام کا مقصد ایسی چیزوں کو قرار دیا ہے جو اسلام کی روح، تاریخی حقائق، امام حسین ؑ کی شخصیت اور آپ ؑ کے مقامِ عصمت وامامت کے یکسرمنافی ہیں۔ مثلاً یہ کہنا کہ نواسہ رسول کا اقدام نسلی یا قبائلی چپقلش کا نتیجہ تھا، یا امام ؑ نے امت کے گناہوں کی بخشش کے لیے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیاوغیرہ وغیرہ اِسی قسم کے مقاصد میں سے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے مصنفین، شعرااور مقررین بھی، بے سوچے سمجھے ایسے مقاصد کی ترویج اور تشہیر کیا کرتے ہیں۔

مختصر یہ کہ امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد کو جاننے اور سمجھنے کے لیے بھرپور کام کی ضرورت اب بھی باقی ہے اور اِس سلسلے میں مختلف زاویہ نگاہ سے جائزے اور تحقیق کاکام جاری رہنا چاہیے۔ دو مضامین پر مشتمل زیرِنظر کتابچہ اِسی جذبے اور خواہش کے تحت شائع کیا جارہا ہے۔ پہلا مضمون حوزہ علمیہ قم کے ممتازعالمِ دین آیت اللہ ابراہیم امینی سے ایک انٹرویو ہے، جو امام خمینی علیہ الرحمہ کی چھٹی برسی کی مناسبت سے منعقدہ سیمینار بعنوان ” امام خمینی و فرہنگِ عاشورا“ کے موقع پر علامہ امینی سے کیا گیاتھا۔ اِس انٹرویو میں جنابِ عالی نے امام حسین ؑ کے کلمات کی روشنی میں آپ ؑ کے قیام کا مقصد واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ دوسرا مضمون بھی حوزہ علمیہ قم ہی کی ایک علمی شخصیت حجت الاسلام محمد باقر شریعتی سبزواری کی تحریر ہے، جس میں اُس دور کے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے امام حسین ؑ کے فرامین ہی کے ذریعے امام ؑ کی تحریک کے مقصد کی وضاحت کی گئی ہے۔

امید ہے امام حسین ؑ کی تحریک کو سمجھنے اور اُس سے سبق لیتے ہوئے دورِ حاضر میں اپنے فریضے کے تعین کے سلسلے میں تمام پڑھنے والوں خصوصاً جواں نسل کے لیے اِن مضامین کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا۔


 

امام حسین ؑ نے کیوں قیام فرمایا؟

سوال: امام حسین علیہ السلام اپنی تحریک کے ذریعے کیا ہدف یا مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے؟

شہادت، احیائے اسلام، اصلاحِ امت، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، خدا کی طرف سے عائد فریضے کی ادائیگی، یزید کی ظالم حکومت کی سرنگونی اور عادلانہ اسلامی حکومت کا قیام، وہ نمایاں نقطہ ہائے نظر ہیں جو امامؑ کی تحریک کی تفسیر اورآپ ؑ کے مقاصد و محرکات کی تشریح کے سلسلے میں محققین اوراہلِ نظرافراد کی جانب سے پیش کیے جاتے ہیں۔ عاشورا کی تحریک کے فلسفے اور اہداف اور اس بارے میں اٹھائے گئے سوالات کے سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے اورآپ اپنی رائے کا دوسری آرا، خیالات اور نظریات سے کس طرح موازنہ کرتے ہیں؟

* امام حسین ؑ کے قیام کے ہدف و مقصد کے بارے میں مختلف نظریات اور خیالات پائے جاتے ہیںمصنفین و متکلمین نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مختلف مقاصد بیان کیے ہیںکبھی اس تحریک کو ایک ایسی تحریک کے طور پر پیش کیا گیا ہے جس کاپورا دستورِ عمل (program)خداوندِ عالم کی جانب سے مقرر کردیا گیا تھا اور امام حسین ؑ کا کام محض اس کو جامہ عمل پہنانا تھا اور آپ ؑ پر لازم تھا کہ خداوندِ متعال اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے آپ ؑ جن کاموں کے لیے مامور کیے گئے ہیں انہیں بغیر کسی معمولی ردوبدل کے قدم بقدم انجام دیں۔

بعض دوسرے لوگوں کے خیال میں امام حسین ؑ کی تحریک ایک سوچی سمجھی تحریک تھییہ لوگ کبھی اس تحریک کے مقصد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور کبھی حکومتِ وقت یعنی یزید کی حکومت سے ٹکراؤ اور بسا اوقات حکومتِ اسلامی کے قیام کے لیے جدوجہد قرار دیتے ہیںکچھ دوسرے لوگوں کا تجزیہ ہے کہ امام حسین ؑ پر ایک فریضہ عائد ہوتا تھا اورآپ ؑ نے تعبداً اپنی یہ ذمے داری پوری کی، وغیرہ، وغیرہ۔۔۔ ۔

اِس بارے میں اور دوسری باتیں بھی بیان اور تحریر کی جاتی ہیںباوجود یہ کہ اس بارے میں کافی کتب تحریر کی گئی ہیں اور مختلف نظریات اور افکار کا اظہار کیا گیا ہے لیکن اب تک یہ مسئلہ بخوبی واضح نہیں ہوا کہ اس تحریک میں امام حسین ؑ کی سوچ کیا تھی۔


 

یہ محض تاریخی بحث نہیں، بلکہ ایک ایسی بحث ہے جو تحریکِ اسلامی، حکومتوں، حکومتوں کے خلاف جدوجہد کرنے والوں اور ایسے افراد کے لیے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں بطورِ کلی ایک مشعلِ راہ ہوسکتی ہےامام حسین ؑ جو ایک معصوم فرد اور امام تھے، اُن کا طرز و اسلوب قطعی طور پر مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کی حیثیت رکھتا ہےافسوس کی بات ہے کہ جس طرح اِس مسئلے کی وضاحت ہونی چاہیے تھی ایسی نہیں ہوئی اور نہ ہی (امام ؑ کی) اس تحریک سے خاطر خواہ استفادہ کیا گیا ہے۔

امام حسین ؑ کے کلمات آپ ؑ کے ہدف اور محرکات کی ترجمانی کرتے ہیں اِس موضوع پر تحقیق اور اِس کی تشریح کے لیے ایک مفصل اور جداگانہ تالیف کی ضرورت ہے جو سرِ دست اِس مختصر موقع اور وہ بھی انٹرویو کی صورت میں ممکن نہیںالبتہ مختصر طور پر کہوں گا کہ ہمیں امام حسین ؑ کے مقصد اور ہدف کو خودآنجناب ؑ کے کلمات سے اخذ کرنا چاہیےجن لوگوں نے امام حسین ؑ کی تحریک کے مقاصد پر گفتگو کی ہے، اُن میں سے بھی اکثر نے امام ؑ کے کلمات کا سہارا لیا ہےلیکن کیونکہ امام حسین ؑ کے کلمات بکھرے ہوئے اور}موقع محل کی مناسبت سے{ مختلف ہیں اِس لیے اِن حضرات میں سے ہر ایک نے ان میں سے کسی ایک حصے کو لے کر اس سے استفادہ کیا ہے اور دوسرے مفاہیم سے صرفِ نظر کیا ہے اور صرف کسی ایک پہلو پر اپنی فکر مرکوز رکھی ہے۔

ہم ابتدا میں امام حسین ؑ کے ان کلمات میں سے کچھ کو بیان کریں گے جو آپ ؑ نے اپنے ہدف کے بارے میں فرمائے ہیں اور اس کے بعد ان کی جمع بندی کر کے ان سے نتیجہ اخذ کریں گےاگر ہم ان مختلف کلمات کا باہم اور یکجا کرکے تجزیہ کریں، تو سب ایک ہی راہ کی وضاحت کرتے ہیں، اور یوں ان میں تضادا ور اختلاف نظر نہیں آتا، بلکہ یہ سب ایک ہی ہدف کی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ ہدف بھی بخوبی روشن اور واضح ہے۔


 

 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 September 17 ، 15:15

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

 

2

 

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی

امر بالمعروف اور نہی عن المنکراپنی اصلاحی تحریک کے لیے امام ؑ کا وسیلہ

جب مدینہ میں امام حسین ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ کو مشورہ دیا کہ آپ ؑ اِس سفر پر روانہ نہ ہوئیے، تو امام ؑ نے ان کی بات قبول نہ کی اور}سفر پر روانہ ہوتے ہوئے {ایک وصیت نامہ تحریر کیا، جس کے ایک حصے سے امام حسین ؑ کے مقصد کی وضاحت ہوتی ہےامام ؑ اس وصیت نامے کے ایک حصے میں تحریر فرماتے ہیں:

وَ أَنّی لَمْ أَخْرُجْ أشِراًوَلاٰبَطِراًوَلاٰ مُفْسِداًوَلاٰظٰالِماً وَاِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی اُریدُأَنْ آمُرَبِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهیٰ عَنِ الْمُنْکَرِوَأَسیرَبِسیرَةِ جَدّی وَأَبی عَلیِّ بْنِ أَبی طٰالِبٍ

میں خود خواہی، غرور، فتنہ انگیزی اور ظلم کے لیے نہیں نکل رہا، بلکہ اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوںمیں چاہتا ہوں کہ معروف کا حکم دوں اور منکر سے روکوں اور اپنے نانااور والد علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت پر عمل کروں۔ (۱)

یہ اصلاح طلبی دراصل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہی ہے، اس سے مختلف کوئی چیز نہیںیعنی امام ؑ چاہتے ہیں کہ امت کی اصلاح کریں اور اصلاح کا یہ عمل امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے جامہ عمل پہنے۔

امامؑ کس قسم کی اصلاح چاہتے ہیں؟ وہ آپ ؑ کے اِس جملے سے ظاہرہےفرماتے ہیں:

میں اپنے جد اور والد کی سیرت پر عمل کرنا چاہتا ہوں۔

--------------

۱۔ موسوعہ کلماتِ امام الحسین ؑ ص۲۹۱


 

اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐ سے اسلامی معاشرے اور حکومت کا انحراف

امام حسین ؑ نے محسوس کیا تھا کہ معاویہ اور اُن کے بعد یزید اور کچھ اُن سے قبل کی حکومتوں کے دوران لوگوں کے درمیان ایسے اعمال رواج پاگئے ہیں جو پیغمبر اکرم ؐ اور حضرت علی ؑ کی سیرت کے برخلاف ہیں۔

پیغمبر اسلام ؐاپنی حکومت میں ایک خاص سیرت اور طریقے پر کاربند تھےاقتصاد کے بارے میں آنحضرتؐ کی ایک خاص روش تھیدوسرے معاملات میں بھی آپ کا خاص طریقہ کار تھاحضرت علی ؑ کی بھی وہی سیرت رہیلیکن افسوس کہ پیغمبرؐکی رحلت کے بعد اگرچہ کچھ مدت تک ایک حد تک آپؐ کی سیرت پر عمل جاری رہا لیکن بعد میں بعض انحرافات نے سر ابھارا۔

جب حکومت کی باگ ڈور علی ابن ابی طالب ؑ نے سنبھالی، تو آپ ؑ نے معاملاتِ حکومت کو پیغمبراسلام صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلمی نہج پر واپس لانے کی کوشش کیاسی وجہ سے آپ ؑ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑاکیونکہ لوگ دوسرے طریقوں کے عادی ہوچکے تھےلہٰذا امیر المومنین ؑ کو اس سلسلے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی، شاید آپ ؑ کوشہید بھی اسی بنا پرکیاگیا۔

اسلامی معاشرے کا بھی یہی حال تھا، وہاں بھی لوگوں کی عبادات میں، اُن کے اخلاق میں اور اُن کے سماجی امور میں ایسی چیزیں وجود میں آگئی تھیں جو اسلام سے موافق نہ تھیں، اس لحاظ سے اسلام کے لیے ایک خطرہ جنم لے رہا تھا۔

ایک اور بات یہ تھی کہ وہ حکمراں جو خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے، پیغمبر ؐ کے جانشین کے طور پر حکومت کر رہے تھے، اُن کا طرزِ عمل پیغمبرؐ کے طرزِ عمل سے مختلف تھا، اسلام کی تعلیمات کے منافی تھا۔

اگر یہی صورتحال جاری رہتی، تواسلام کی ایک غلط تصویر لوگوں کے سامنے آتی، اور وہ اسی کو اسلام سمجھ بیٹھتےعلاوہ ازایں خود لوگوں کے درمیان بھی ایسی باتیں رائج ہوگئی تھیں جو اسلام اور سیرتِ پیغمبر ؐکے موافق نہ تھیں۔


 

امام ؑ کی اصلاحی تحریک کا عنوان: سیرتِ پیغمبر ؐاور سیرتِ علی ؑ کا احیا

ان وجوہات کی بنا پر امام حسین ؑ سمجھتے تھے کہ اصلاح کاعمل ناگزیرہے، اور یہ اصلاح پیغمبر ؐاور علی ابن ابی طالب ؑ کی سیرت کا احیا تھییہ دیکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا ہدف اور مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے پیغمبر اسلامؐ اور امیر المومنین علی ؑ کی سیرت کا احیا تھایعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر احیا کا وسیلہ ہے، خود ہدف اور مقصد نہیںہدف درحقیقت پیغمبر اسلام ؐ اور حضرت امیرؑ کی سیرت کو زندہ کرناتھا۔

اموی حکومت کی دونمایاں خصوصیات:حدودِ الٰہی کا تعطل اور علانیہ فسق وفجور

امام حسین ؑ نے جب مکہ سے کوفہ کے ارادے سے اپنے سفر کا آغاز کیا، تو اثنائے راہ میں آپ ؑ کی ملاقات فرزدق سے ہوئیامام ؑ نے اس سے عراق کے حالات دریافت کیےاس نے جواب دیا:

لوگوں کے دل آپ ؑ کے ساتھ ہیں لیکن اُن کی تلواریں آپ ؑ کے خلاف ہیں۔

امام ؑ نے اُس سے اپنے سفر کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ هٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَةَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَةَ الرَّحْمانِ وَ أَظْهَروُا الْفَسٰادَ فِی الْأَرْضِ وَاَبْطَلُوا الْحُدُودَ وَشَرِبُوا الْخُمُورَ وَ اسْتَأْثَروُا فی أَمْوٰالِ الْفْقَرٰاءِ وَالْمَسٰاکینَ وَأَنا أَوْلیٰ مَنْ قٰامَ بِنُصْرَةِ دینِ اللّٰهِ وَاعْزٰازِ شَرْعِهِ وَالْجِهٰادِ فی سَبیلِهِ لِتَکُونَ کَلِمَةُ اللّٰهِ هِیَ الْعُلَیٰا (۱)

یعنی

یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے شیطان کی اطاعت کی ہے، رحمن کی اطاعت کو ترک کردیاہے۔

البتہ یہاں ممکن ہے ” ھٰؤُلاٰءِ“ حکام کی جانب اشارہ ہو (اور زیادہ یہی معنی ظاہر ہوتے ہیں) اور ممکن ہے پورے معاشرے کے لیے ہو۔

--------------

 


 

ان لوگوں نے فساد کو ظاہر کیا ہے۔

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی کسی فساد کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی فساد کا اظہار کرتا ہے، علیٰ الاعلان فسق وفجور کا مرتکب ہوتا ہےاِن لوگوں کے بارے میں امام ؑ فرماتے ہیں کہ انہوں نے زمین پر فساد کو ظاہر کیا ہے، یہ لوگ درحقیقت فساد کو رواج دینے والے ہیںیہ ایک اہم اور خطرناک مسئلہ ہے۔

انہوں نے حدودِ الٰہی کو معطل کردیا ہے۔

یعنی شرعی حدود پر عمل نہیں کرتےان کا اندازِ حکومت کچھ اور ہےپیغمبر ؐ نے حکومت کی تھی لیکن اُن کی حکومت دینی اور اسلامی قوانین کی حدود میں تھیلیکن ان لوگوں نے اس اندازِ حکومت کو ترک کردیا ہے، حدودِ الٰہی کو قدموں تلے روند ڈالا ہے۔

یہ لوگ شراب پیتے ہیں۔

حالانکہ شراب نوشی اسلام میں حرام ہے۔

فقرا اور مساکین کے مال کو اپنی مرضی سے خرچ کرتے ہیں۔

فقرا کے حقوق ادا نہیں کیے جاتے، بیت المال کومن مانے طریقے اور اپنی حکومت کے استحکام کے لیے استعمال کرتے ہیں، فقرااور محتاجوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال نہیں کرتےجبکہ پیغمبر اسلام ؐکے دور میں اس کا استعمال عوام الناس اور فقرا کی ضروریاتِ زندگی پوری کرنے کے لیے کیاجاتا تھادلائل یہ ثابت کرتے ہیں اور خود پیغمبر اکرم ؐ نے بھی اسی طرح عمل کیا اور امیر المومنین ؑ بھی اسی طرح عمل کرنا چاہتے تھےمگر افسوس کہ آپ ؑ کو بکثرت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

جب عنانِ حکومت اُن لوگوں کے ہاتھ میں آئی، تواُن کاطرزِ عمل یہ کہہ رہا تھا کہ یہ اموال ہمارے اختیار میں ہیں، ہم مسلمانوں کے حاکم ہیں، اس مال کواپنی حکومت کی حفاظت کے لیے خرچ کریں گے، اب فقرا کا جو حال ہوہوا کرے!!!


 

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 September 17 ، 15:14

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

 

3

 

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی

امام ؑ کی تحریک اسلام کی حفاظت کے لیے دفاعی جہاد

مذکورہ کلمات سے پتا چلتا ہے کہ امام حسین ؑ کے مدینہ سے نکلنے اور اس طویل سفر کے آغاز کا سبب ان خرابیوں کا مشاہدہ اور اُن کی اصلاح کا عزم تھا۔ آپ ؑ فرماتے تھے کہ میں دین خدا کی نصرت، اس کی شریعت کی بالادستی اور اس کی راہ میں جہاد کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمے دار ہوں۔

امام حسین ؑ کے قیام کا محرک(motive) اُس وقت کے مسلمانوں کی ابترحالت اور خاص کر اُس زمانے کی حکومتوں کا طرزِ عمل تھا کہ جس کی وجہ سے حدودِ الٰہی معطل تھے، فقرا بُرے حال میں تھے اور بیت المال کے اموال ناجائز مدوں میں خرچ ہو رہے تھےحضرت ؑ اس صورتحال کے خاتمے کے لیے قیام چاہتے تھے اور ا س قیام کے لیے خود کو دوسروں سے زیادہ ذمے دار سمجھتے تھےکیونکہ آپ ؑ نواسہ رسولؐ اور امامِ مسلمین تھے اور ان حالات کو خاموش تماشائی کی حیثیت سے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

پس معلوم ہوا کہ امام ؑ کا یہ اقدام ایک قسم کا جہاد تھا، اسلام کے تحفظ کے لیے دفاعی جہاد تھاایرانی عوام کی اسلامی تحریک بھی اسی طرح تھی، اور رہبر انقلاب امام خمینیؒ کا بھی یہی کہنا تھا کہ یہ تحریک ایک دفاعی جہاد ہے۔

امام حسین ؑ نے بصرہ کے معززین کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:

وَقَدْبَعَثْتُ رَسُولی اِلَیْکُمْ بِهٰذَاالْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اللّٰهِ وُسُنَّةِ نَبیِّهِ فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْاُمیتَتْ وَاِنَّ الْبِدْعَةَ قَدْاُحیِیَتْ (۱)

میں نے اِس خط کے ہمراہ اپنا سفیر تمہاری جانب روانہ کیا ہے، اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ رسول کی طرف دعوت دیتا ہوںدرحقیقت سنت مردہ ہوچکی ہے(یعنی لوگ اِس پر عمل پیرا نہیں۔ ) اور بدعت زندہ ہوگئی ہے۔“یعنی وہ چیزیں جو دین کا جز نہیں دین کے اندر داخل کردی گئی ہیں۔ اگر تم میری بات سنو اور میرے فرمان کی اطاعت کرو، تو میں راہِ راست کی جانب تمہاری رہنمائی کروں گایہ راہِ راست وہی سیرتِ پیغمبرؐ اور سیرتِ علی ؑ ہے یعنی وہی خالص اور حقیقی اسلام ہے۔

--------------

۱:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۳۶


 

البتہ یہاں امام ؑ نے یہ توفرمایا ہے کہ میں راہِ راست کی جانب تمہاری راہنمائی کروں گا، لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ راہِ راست حکومت کا قیام ہے یا کوئی دوسری چیزیہاں بھی امام ؑ نے اپنی تحریک کا مقصد سنت کا احیا اور بدعت کا خاتمہ بیان کیا ہے۔جب مروان نے امام حسین ؑ سے کہا کہ وہ یزید کی بیعت کرلیں، تو امام ؑ نے اس کے جواب میں جو کلمات ادا کیے وہ بھی آپ ؑ کے قیام کے مقصد کو واضح کرتے ہیں:

اِنّٰالِلّٰهِ وَاِنّٰاالَیْهِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ

جب لوگ یزید جیسے شخص کی حکومت میں مبتلا ہوجائیں، تو اسلام کو خداحافظ کہہ دینا چاہیے۔ (1)اِن کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ یزید کی حکومت کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے، اِسے اسلام و مسلمین کے لیے خطرناک سمجھتے تھے اور اسی بنا پر اس کی بیعت کو ناجائز قرار دیتے تھے۔آپ ؑ نے اسی گفتگو کے ذیل میں فرمایا:وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّی یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان۔میں نے اپنے نانا سے سنا ہے، انہوں نے فرمایاتھا کہ خلافت آلِ ابی سفیان پر حرام ہے۔پتا چلا کہ امام حسین ؑ کا مقصد یزید کی خلافت کے خلاف قیام تھا اور یہ تحریک امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی ایک صورت تھیایک دوسرے مقام پر امام ؑ نے محمد بن حنفیہ سے فرمایا:

یٰاأَخی وَاللّٰهِ لَوْلَمْ یَکُنْ فی الدُّنْیٰا مَلْجَأً وَلاٰمَأْویً لَمٰابٰایَعْتُ یَزیدَ بْنَ مُعٰاوِیَةَ

اے میرے بھائی! اگر مجھے دنیا میں کوئی بھی جائے پناہ نہ ملے، تب بھی میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کروں گا۔ (2)

امام حسین ؑ کے یزید ابن معاویہ کی بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یزید خلیفہ رسولؐ کے عنوان سے مسلمانوں پر حکومت کرتا تھا، اس کی رفتار و گفتار پیغمبر کی رفتار و گفتار سمجھی جاتی تھی، لہٰذا اس کے وہ اعمال و افعال بھی جو اسلام اور سیرتِ پیغمبرؐکے برخلاف تھے، پیغمبر ؐاور اسلام ہی کے حساب میں شمار کیے جاتے اور یہ ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۴

2:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۸۹


 

نہی عن المنکرکا پہلا مرحلہ‘ بیعت سے انکاراور حکومتِ یزید کوناجائز قرار دینا

اِن حالات میں وہ لوگ (بنی امیہ) فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ سے یزید کے لیے بیعت لینا چاہتے تھےیعنی وہ چاہتے تھے کہ امام حسین ؑ بیعت کے ذریعے یزید کی حکومت اور اُس کے اعمال کی صحت پر مہرِ تصدیق ثبت کریں اور انہیں اسلام کے مطابق قرار دیں۔

واضح بات ہے کہ امام حسین ؑ یہ نہیں کرسکتے تھے اور نہی عن المنکرکا پہلا قدم آپ ؑ کا یزید کی بیعت سے انکار اور اُس کی حکومت کو غیر قانونی قرار دیناتھا۔

اپنے نانا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرقدِ مطہر سے وداع کے موقع پر امام حسین ؑ نے جو کلمات ارشاد فرمائے وہ بھی آپ ؑ کی تحریک کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہیں، آپ نے فرمایا:

بِاَبی اَنْتَ وَاُمّی لَقَدْخَرَجْتُ مِنْ جَوارِکَ کُرْهاًوَفُرِّقَ بَیْنی وَ بَیْنَکَ حَیْثُ اَنّی لَمْ اُبٰایِعْ لِیَزیدَ بْنِ مُعٰاوِیَةَ شٰارِبِ الْخُمُورِوَرٰاکِبِ الْفُجُورِوَهٰااَنَاخٰارِجٌ مِنْ جَوٰارِکَ عَلَی الْکَرٰاهَةِ فَعَلَیْکَ مِنّیِ السَّلاٰمُ

اے رسول اللہ! آپؐ پر میرے ماں باپ فدا ہوںمیں بحالتِ مجبوری آپؐ کے جوار سے نکل رہاہوںمیرے اورآپؐ کے درمیان جدائی آپڑی ہےکیونکہ میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کرناچاہتا، جو شراب خوراور فاسق ہے۔ میں مجبوری کے عالم میں آپ کے جوار سے نکل رہا ہوں۔ آپ پر میرا سلام ہو(۱)

مذکورہ کلمات اور ان ہی جیسے دوسرے کلمات سے معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین ؑ کی تحریک کا مقصد حکومت کی اصلاح اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی تھا۔ آپ ؑ کا ہدف سیرتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ تھا۔

--------------

۱:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص۲۸۷


 

 


۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 September 17 ، 15:10

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟

 

1

 

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی


امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لیے امامؑ کے مرحلہ بہ مرحلہ اقدامات اور مؤقف

امام حسین ؑ کے بعض بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ؑ اس فریضے کی انجام دہی کے لیے مرحلہ بہ مرحلہ اور قدم بقدم آگے بڑھے اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب آپ ؑ مدینہ میں تھے اور اُن لوگوں (بنی امیہ) نے آپ ؑ سے بیعت لینا چاہی، تو آپ ؑ نے ان کے مطالبہ بیعت کی مخالفت کا فیصلہ کیااور مدینہ چھوڑ دیاکیونکہ اگرآپ ؑ مدینہ میں رہتے، توآپ ؑ کو بیعت پر مجبور کردیاجاتااِس موقع پرآپ ؑ کو مکہ کے سوا کوئی دوسری مناسب جگہ نظر نہیں آئیکیونکہ ایک تو یہ مدینہ سے نزدیک تھا، اور دوسرے ایک مقدس و محترم شہر اور حجاج اور زائرین کے جمع ہونے کی جگہ تھابنابرایں آپ ؑ پر لازم تھا کہ مدینہ چھوڑ کر مکہ تشریف لے جائیں اور اس ذریعے سے امربالمعروف اور نہی عن المنکرکریںالبتہ انجامِ کار کیا ہوگا؟ یہ دوسرا موضوع ہے جو فی الحال پیشِ نظر نہیںچنانچہ جب مدینہ سے نکلتے وقت عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے اُن کی منزل کے بارے میں سوال کیا، توآپ ؑ نے فرمایا:

أَمّٰا فی وَقْتی هٰذٰاأُریدُ مَکَّةَ فَاِذٰاصِرْتُ اِلَیْهٰااِسْتَخَرْتُ اللّٰهَ تَعٰالیٰ فی أَمْری بَعْدَ ذٰلِکَ

اِس وقت میں مکہ کا قصد رکھتا ہوں، پس مکہ پہنچ کر خدا سے اپنے کام کے بارے میں طلبِ خیر کروں گا(1)

یہ پہلا مرحلہ ہےمیں اس جملے سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ حضرت ؑ کا قصد اپنے فریضے کی انجام دہی تھا اور فریضے کی انجام دہی کی صورت ہر مرحلے میں مختلف تھیفریضے کی انجام دہی مدینہ میں یہ تھی کہ بیعت نہ کریں اور وہاں سے نکل جائیں، بعد میں کیاہوگا، اور کیا کرنا پڑے گا، یہ بعد کی بات ہے۔مکہ میں بھی امام ؑ نے حالات اور پیش آنے والے واقعات کے مطابق فیصلہ کیامیرے خیال میں امام خمینیؒ نے بھی اپنی جدوجہد کے دوران اسی طریقہ کار کی پیروی کی، قدم بقدم آگے بڑھے اور صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے کیے اور اپنا فریضہ انجام دیااپنی جدوجہد کے آغاز میں فرمایا کہ حکومت کے دین مخالف اقدامات پر خاموش نہیں رہا جاسکتا، ہمارا فرض ہے

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۰۲


 

کہ اِن پر اپنی مخالفت کااظہارکریںاس زمانے میں امام خمینی ؒ محض بیانات جاری کرنے پر اکتفا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جوں جوں قوت میں اضافہ ہوا اُسی تناسب سے بڑے بڑے فیصلے کیےیہاں تک کہ پیرس سے واپسی پر بہشتِ زہرا ؑ میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

ہم عوام کی تائید اور حمایت سے حکومت تشکیل دیں گے۔

امام حسین ؑ کی تحریک نے بھی مرحلہ بہ مرحلہ، قدم بقدم شکل اختیار کیپہلا مرحلہ مدینہ سے نکلنا تھامکہ پہنچ کر ایک عرصے تک وہاں اقامت اختیار کرنا دوسر امرحلہ تھامکہ میں بھی مختلف حوادث و واقعات پیش آئےمیں یہاں کچھ اہم حوادث کی جانب اشارہ کروں گا: جب امام حسین ؑ مکہ تشریف لے گئے، تو کیونکہ مکہ مسلمانوں کی آمدورفت کا مرکز تھا، لہٰذایہ خبرپورے عالمِ اسلام میں پھیل گئی کہ فرزندِ رسول حسین ابن علی ؑ نے مدینہ چھوڑ دیا ہےسب لوگ ایک دوسرے سے امام حسین ؑ کے مدینہ چھوڑنے کی وجہ دریافت کرتے تھےامام ؑ کے اس اقدام نے حکومت سے آپ ؑ کی ناراضگی کو لوگوں کے سامنے واضح کردیا اور یہ خود ایک بڑی بات اور اہم واقعہ تھاحکومت کے خلاف یہ کھلااقدام انتہائی مؤثررہا اور اس لحاظ سے امام ؑ کا یہ اقدام کامیاب رہااہلِ کوفہ جو امام حسین ؑ اور امیر المومنین ؑ کے شیعہ تھے، جب اُنہیں پتا چلا کہ امام حسین ؑ حکومت کے خلاف اعتراض کے طورپر مکہ تشریف لے آئے ہیں، تواُن کی طرف سے امام ؑ کے نام خطوط کاتانتا بندھ گیا (اِن خطوط کی تعداد چالیس ہزار اور اس سے بھی زیادہ بتائی جاتی ہے)اِن خطوط میں امام ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور آپ ؑ کی نصرت اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا۔

دوسری طرف امام حسین ؑ کی مکہ آمد کی وجہ سے جو صورتحال رونما ہورہی تھی، یزید کی حکومت نے اسے ایک سنجیدہ خطرہ محسوس کیااسی بنا پر ا س نے فیصلہ کیا کہ امام ؑ کو ہرقیمت پر مکہ ہی میں قتل کردیا جائےمکہ جو حرمِ امنِ الٰہی ہے، وہاں امام حسین ؑ کے قتل ہونے کے نتیجے میں پوری سلطنتِ اسلامیہ میں موجود تمام مسلمانوں پر حکومت کارعب اور خوف ووحشت طاری ہوجائے گاجب امام ؑ کو حکومت کے اس ارادے کی خبر موصول ہوئی، توامام حسین ؑ نے محسوس کرلیا کہ بہرصورت مکہ چھوڑ دینا ہی


 

ان کا فریضہ ہےاس کے لیے آپ ؑ کے پاس دو وجوہات تھیںایک یہ کہ قتل نہ ہوں اور حرمِ الٰہی کا احترام محفوظ رہےدوسرے یہ کہ اہلِ کوفہ کی جانب سے امام حسین ؑ کو بکثرت خطوط موصول ہوئے تھے، جن میں آپ ؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی گئی تھی اور حمایت کا وعدہ کیا گیا تھا، لہٰذاآپ ؑ کے لیے مناسب بات یہی تھی کہ آپ ؑ اُن کی یہ دعوت قبول کرلیں۔

جس زمانے میں امام ؑ مکہ میں تھے، تو ابن عباس آپ ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور کہا: اے فرزندِ رسول ؑ ! آپ ؑ مکہ سے کیوں جانا چاہتے ہیں؟ مکہ ہی میں رہیے، یہاں آپ ؑ زیادہ اور بہتر طور پر امن میں ہیںلوگ آپ ؑ کے اردگرد ہیں اورآپ ؑ کی جان محفوظ رہے گیمکہ سے باہر نکلنا آپ ؑ کے لیے خطرناک ہےحضرت ؑ نے اُنہیں جواب دیا:

لَاِنْ اُقْتَلَ وَاللّٰهِ بِمَکٰانٍ کَذٰااَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ اَنْ اُستُحِلَّ بِمَکَّةَ وَهٰذِهِ کُتُبُ اَهْلِ الْکُوفَةِ وَرُسُلُهُمْ وَقَدْوَجَبَ عَلَیَّ اِجٰابَتُهُمُ وَقٰامَ لَهُمْ الْعُذْرُعَلَیّ عِنْدَاللّٰهِ سُبْحٰانَهُ(1)

پہلی بات تو یہ کہ: ” حرمِ امنِ الٰہی مکہ میں میرا خون بہانا مباح ہوجائے }یہ مجھے روا نہیں{ اِس سے زیادہ مجھے کسی اور جگہ قتل ہونا پسند ہے“ ۔

یعنی مجھے قتل کرنے کے بعد حکومت کہے کہ ہمارا سامنا ایک ایسے شخص سے تھا جس کی وجہ سے مکہ کا امن وامان اور احترام خطرے میں تھا، لہٰذا ہم اسے مکہ ہی میں قتل کرنے پر مجبور ہوگئے تھے اور اس طرح مکہ میں میرا خون بہانا جائز قرار دے دیا جائے۔

مکہ میں کسی کا خون بہانا جائز ہوجانا ایک بہت اہم مسئلہ ہےاور یہ خود امام حسین ؑ کے خلاف بدترین پروپیگنڈا شمار ہوتا۔

اس کے بعد فرمایا:

یہ اہلِ کوفہ کے خطوط اور اُن کے نمائندے ہیں، اور مجھ پر واجب ہے کہ اُن کا جواب دوں تاکہ اُن پر خدا کی حجت تمام ہوجائے۔

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص۳۲


 

یہاں ایک مرتبہ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ امام ؑ کہتے ہیں کہ مجھ پر دعوت قبول کرنا واجب ہےیعنی میرا فرض ہے کہ ان کی دعوت قبول کروں اور مکہ سے نکلوںیہ وہی بات ہے، یعنی فریضے کی انجام دہی کے لیے تحریک۔

پھر جب ابن زبیر نے امام ؑ کو یہ تجویز پیش کی کہ :أَقِمْ فی هٰذَاالْمَسْجِدِ أَجْمَعُ لَکَ النّٰاسَ۔ (آپ یہاں حرم ہی میں ٹھہریے میں آپ کے لیے لوگوں کو جمع کرتا ہوں) تو امام ؑ نے فرمایا:

وَاللّٰهِ لِأَنْ اُقْتَلَ خٰارِجاً مِنهٰا بِشِبْرٍأَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ أَنْ اُقْتَلَ دٰاخِلاً مِنْهٰا بِشِبْرٍ

خدا کی قسم حرم سے ایک بالشت باہر قتل ہونا، مجھے حرم کے اندر مارے جانے سے زیادہ پسندہے۔ (1)

یہاں ایک مسئلہ تو حرم کی حرمت کے پامال ہوجانے کا ہے اور دوسرا یہ کہ دشمن اِس قتل سے پروپیگنڈے کے میدان میں فائدہ اٹھائے گاپھر جب امام ؑ نے مکہ سے عراق کی سمت سفر کاآغاز کرنا چاہا، تو ابن زبیر سے فرمایا:

وَاللّٰهِ لَقَدْ حَدَّثْتُ نَفْسی بِاِ تْیٰانِ الْکُوفَةِ وَلَقَدْکَتَبَ اِلَیَّ شیعَتی بِهٰا وَأَشْرٰافُ أَهْلِهٰا وَاَسْتَخیرُ اللّٰهَ

میں نے سوچا ہے کہ کوفہ چلا جاؤں۔ کوفہ سے میرے شیعوں اور وہاں کے معززین نے مجھے خطوط لکھے ہیں اور میں اپنے لیے خداسے خیر کا طلبگار ہوں۔ (2)

ایک دوسری عبارت ہے:

أَ تَتْنی بَیْعَةُ أَرْبَعینَ أَلْفاً یَحْلِفُونَ لی بِالطَّلاٰقِ وَالْعِتٰاقِ مِنْ اَهْلِ الْکُوفَةِ

مجھے پتا چلا ہے کہ چالیس ہزار اہلِ کوفہ نے میری بیعت کی ہے۔ (3)

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ۔ ص ۳۲۴

2:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۴

3:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۳


 

اِس مرحلے میں بھی فریضے کی ادائیگی کا مسئلہ واضح ہےامام حسین ؑ نے اپنی تحریک کے مختلف مراحل میں گاہ بگاہ اپنا اصل مقصد بیان کیا ہے، جو سیرتِ پیغمبر ؐکا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ ہےجب درمیانِ راہ میں عبداللہ ابن مطیع نے امام ؑ سے ملاقات کی اور کہاکہ آپ کیوں حرمِ خدا اور اپنے نانا کے حرم سے نکلے ہیں؟ تو امام ؑ نے جواب دیا:

اِنَّ اَهْلَ الْکُوفَةِ کَتَبُوا اِلَیَّ یَسْأَلُونَنی اَنْ اَقْدِمَ عَلَیْهِمْ لِمٰارَجُوا مِنْ اِحْیٰاءِ مَعْالِمِ الْحَقِّ وَاِمٰا تَةِ الْبِدَعِ

اہلِ کوفہ نے مجھے خطوط لکھے ہیں ! اورمجھ سے چاہا ہے کہ میں اُن کی طرف آؤں، کیونکہ اُنہیں امید ہے کہ اس طرح سے حق کا احیا ہوگا اور بدعت نابود ہوگی۔ (1)

کیونکہ مسئلہ فریضے کی ادائیگی کا ہے، اس لیے حضرت ؑ اپنے قتل کے امکان کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔جب حر کے لشکر سے امام ؑ کا سامنا ہوا، تو نماز کے وقت آپ ؑ نے اپنے اصحاب کے سامنے ایک خطبہ ارشاد فرمایااس وقت آپ ؑ کوفہ کے قریب تھے، حالات پلٹا کھاچکے تھے اور صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھیہم دیکھتے ہیں کہ اس حال میں بھی اپنے ہدف اور مقصد کا حصول امام ؑ کے پیش نظر ہےآپ ؑ اپنے اصحاب سے فرماتے ہیں:

  اِنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْأَمْرِمٰاقَدْ تَرَوْنَ وَاِنَّ الدُّنْیٰا قَدْ تَغَیَّرَتْ وَ تَنَکَّرَتْ وَأَدْبَرَمَعْرُوفُهٰا وَاسْتَمْرَّتْ جِدّاًوَ لَمْ یَبْقَ مِنْهٰا اِلاّٰ صُبٰابَةٌ کَصُبٰابَةِ الْاِنٰاءِ وَخَسیْسِ عَیْشٍ کَالْمَرْعَی الْوَبیلِ، أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِهِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاهیٰ عَنْهُلِیَرْغَبَ الْمؤْمِنُ فی لِقٰاءِ اللّٰهِ مُحِقّاً، فَاِنّی لاٰأَرَی الْمَوْتَ اِلاّٰ سَعادَةً وَالْحَیٰاةَ مَعَ الظّّٰالِمینَ اِلاّٰ بَرَماً

ہمارے معاملے نے کیا صورت اختیار کرلی ہے اُسے آپ دیکھ رہے ہیںدرحقیقت حالاتِ زمانہ دگرگوں ہوگئے ہیں، برائیاں ظاہر ہوگئی ہیں اور نیکیوں اور فضیلتوں نے اپنا رُخ موڑ لیا ہےاچھا ئیوں میں سے صرف اتنا رہ گیا ہے جتنا برتن کی تہہ میں رہ جانے والا پانی اب زندگی ایسی ہی ذلت آمیز اور پست ہوگئی ہے جیسے کوئی سنگلاخ اور بنجرمیدان۔ کیا تمہیں نظر نہیں آتا کہ حق پر عمل

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۴۱


 

نہیں ہورہا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جارہا؟ ایسے حالات میں مومن کے لیے بہترہے کہ وہ اپنے پروردگارسے ملاقات کی تمنا کرےسچ ہے کہ میں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو سوائے رنج و ذلت کے کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔ (1)یہاں بھی فریضے کی ادائیگی ہی پیش نظر ہے، لیکن ذرابلندی پرنظرآتی ہےاس سے پہلے تک شہادت اور مارے جانے کی بات نہ تھی لیکن اب ان حالات میں اِس بات کا امکان بہت زیادہ ہےایسا نہیں ہے کہ اِس مرحلے میں امام ؑ بس حصولِ شہادت کے لیے آگے بڑھ رہے ہیںنہیں، حضرت ؑ حق کے دفاع اور باطل کی نابودی کے لیے کوشاں ہیں، خواہ اِس راہ میں قتل ہی کیوں نہ ہوجائیںیہاں عبارت بدلتی ہے، کہتے ہیں:

میں ظالموں کے ساتھ زندہ رہنے کو رنج وذلت کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتا اور ایسے حالات میں موت ہی کو سعادت سمجھتا ہوں۔

یہاں پھرمقصد اور ہدف واضح و روشن ہےوہی اوّلین مقصد اب بھی سامنے ہےلیکن اب اِس نے زیادہ قوت اور شدّت حاصل کرلی ہےکیونکہ اب مقصد کی راہ میں جانثاری کا تذکرہ بھی ہے۔

اِن تمام کلمات کو سامنے رکھیں تو سمجھ میں آتا ہے کہ فریضے کی انجام دہی، یعنی حکومت کے خلاف جدوجہد کے ذریعے زندگی کے تمام شعبوں میں سنتِ پیغمبرؐ کا احیا اور بدعتوں کا خاتمہ امام حسین ؑ کا مقصد تھا امام ؑ قدم بقدم اپنے فریضے کی انجام دہی کی جانب بڑھے اور ہر موقع پر اِس کی مناسبت سے ردِعمل کا اظہار کیا۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کااقدام حصولِ حکومت کے لیے تھا ان کی یہ بات ہمارے بیان کردہ اس مقصد اورہدف سے ٹکراؤ نہیں رکھتی اور یہی بات ہے فریضے کی انجام دہی کے لیے حکومت کے خلاف جہاد لازم تھاامربالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا ضروری تھایہی فریضے اور ذمے داری کی انجام دہی ہے، اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں جسے ایک دوسرے سے متصادم کہا جاسکے۔

--------------

1:-موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۵۵

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 September 17 ، 15:08

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟ 

5 

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی

شہادت کے لیے امام ؑ کی آمادگی اور اِس کا احساس

مدینہ سے مکہ اور پھر وہاں سے کربلا کی جانب سفر کے دوران امام حسین ؑ کے کلمات میں ایسی عبارتیں بھی ملتی ہیں جن میں امام حسین ؑ اپنی شہادت کی خبر دیتے نظرآتے ہیںمثلاً جب حضرت ؑ نے مدینہ سے عزمِ سفر کیا تو امِ سلمہؓ نے آپ ؑ سے کہا: ” عراق کے لیے نہ نکلئے کیونکہ میں نے رسول اللہ ؐسے سنا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا تھا: میرا فرزند حسین عراق میں قتل کیا جائے گا۔“ حضرت ؑ نے فرمایا:

وَ اللّٰهِ اِنّی مَقْتُولٌ کَذٰلِکَوَاِنْ لَمْ أَخْرُجْ اِلیَ الْعِرٰاقِ یَقْتُلُونی أَیْضاً

آپ صحیح فرماتی ہیں، میں اسی طرح قتل ہوؤں گا جس طرح آپ فرماتی ہیں اگر میں عراق نہ جاؤں تب بھی مجھے قتل کر دیں گے۔ (۱)

یہ وہ خبر ہے جو حضرت امِ سلمہ کی حدیث کی تائید کرتی ہےحضرت ؑ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے فرمایا:

اَ تٰانی رَسُولُ اللّٰهِ بَعْدَ مٰا فٰارَقْتُکَ فقال:یٰاحُسَیْنُ اُخْرُجْ فَاِنَّ اللّٰه قَدْشٰاءَ اَنْ یَرٰاکَ قَتیلاً

آپ سے جدا ہونے کے بعد پیغمبرؐ میرے خواب میں آئے اور فرمایا: اے حسین ؑ نکل کھڑے ہو! خدا کی مرضی یہی ہے کہ تمہیں مقتول دیکھے۔ (۲)

پھر مکہ میں ابن عباس اور ابن زبیر سے فرمایا:

اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ قَدْ أَمَرَنی بِأَمْرٍ وَأَنَامٰاضٍ فیهِ

پیغمبر ؐنے مجھے ایک حکم دیاہے اور میں اس حکم کی تعمیل میں مشغول ہوں۔ (۳)

--------------

۱:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۹۳

۲:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۹

۳:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۵


 

بظاہر یہ حکم وہی بات ہے جسے آپ ؑ نے خواب میں دیکھاتھابعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا اقدام ایک پہلے سے طے شدہ دستورِ عمل (program)تھا، جس کی انجام دہی پر امام ؑ مامور تھے، بعید نہیں کہ اِن لوگوں نے امام ؑ کے انہی کلمات سے یہ نظریہ اخذ کیا ہو۔

میری نظر میں یہ بات درست نہیں ہے کہ پیغمبر ؐنے امام حسین ؑ کی تحریک اور شہادت کا منصوبہ پہلے سے معین اور منظم کر رکھا تھا اوراُنہیں حکم دیا ہوا تھا کہ اسے تعبداً انجام دیںاصولی طور پربات یہ ہے کہ امام حسین ؑ اِس سفر کے دوران مختلف مواقع پر اپنی شہادت اور موت کو محسوس کررہے تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ آپ ؑ کو اپنی شہادت کایقین ہو، البتہ آپ ؑ کو اِس کا احساس اور گمان تھا۔ بعض لوگ (امام خمینیؒ کے فرزند )حاج آقا احمد خمینی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ یہ میری زندگی کاآخری برس ہے۔ کیا وہ (احمد خمینی)علمِ غیب رکھتے تھے؟

خود میں نے بہت سے بزرگ افراد سے سنا ہے کہ وہ بعض حادثات کو قبل از وقت محسوس کرلیتے تھے۔ مومن انسان اپنی موت کاوقت نزدیک آنے پر اُسے محسوس کرلیتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ امام حسین ؑ نے جو خواب دیکھا اور جن کلمات میں حضرت ؑ نے اپنی موت اور شہادت کا ذکر کیا، اُن سے مجموعی طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ آپ ؑ موت اور شہادت قبول کرنے پر تیار تھے اِس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت ؑ نے طے کرلیا تھا کہ وہ شہید ہوں گے اورآپ ؑ ؑ گئے ہی حصولِ شہادت کے لیے تھے، لہٰذا امام حسین ؑ کا ہدف ہی شہادت تھاامام حسین ؑ شہادت کے لیے نہیں گئے تھے، بلکہ سنتِ پیغمبرؐ کے احیا اور بدعتوں کے خاتمے کے لیے آپ ؑ نے قیام فرمایاتھا، اب چاہے اِس اقدام کے نتیجے میں آپ ؑ کو شہادت قبول کرنا پڑے اس صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ ؑ کا مقصد ہی حصولِ شہادت تھابلکہ مقصدایک ایسا امر تھا جسے انجام دینا لازم تھا، خواہ اِس کی قیمت شہادت کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔


 

امام ؑ کی تحریک کے اصلاحی پہلو

سوال: جنابِ عالی! آپ کی نظر میں امام حسین ؑ کی تحریک اسلام کی حقیقی سیرت کے احیا کے لیے ایک اصلاحی قیام تھاکیا اس اصلاحی تحریک کے متعلق یہ تصور درست ہے کہ امام ؑ کی اصلاحی تحریک کے دو پہلو تھے ایک اُس زمانے کے اسلامی سماج میں پائی جانے والی دینی فکر اور دینداری کی اصلاح اور دوسرا اُس دور کے سماجی اور حکومتی نظام کی اصلاح۔

جو کچھ ہم اسلام کے بارے میں جانتے ہیں، اجمالی طور پر وہ یہ ہے کہ اسلام میں دو گانگی نہیں ہےاسلام ایک ایسی حقیقت ہے جو سیاسی امور میں بھی دخل رکھتا ہے، ثقافتی، سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور رفاہی امور میں بھیدرحقیقت اسلام ایک مجموعہ ہے کہ اگر اس کے تمام اجزا پر عمل ہو، تو یہ دنیا اورآخرت دونوں میں انسانوں کی سعادت کا ضامن ہے۔

اِس امر (اسلامی نظام کے مکمل نفاذ) کو جامہ عمل پہنانے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہےحکومت کا اس کے سوا کوئی کام نہیں۔ حکومت ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کے اقتصادی امور کی بھی اصلاح کرے، معاشرے کی سیاست کو بھی صحیح خطوط پر چلائے، لوگوں کے عبادی امور کی انجام دہی کے لیے بھی راہ ہموار کرے، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں سے بھی جنگ کرے، اچھے اخلاق کی ترویج بھی کرے، وغیرہ وغیرہحکومتِ اسلامی مجموعاً اِن تمام باتوں کی ذمے دارہے۔

وہ چیز جو امام حسین ؑ کی نظر میں باعثِ تشویش تھی اور جس کی خاطرآپ ؑ نے قیام کیا، تحریک چلائی، وہ یہ تھی کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ سیرتِ پیغمبر ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ دوسرے طریقے اختیار کرلیے گئے ہیں، ایسے طریقے جو اسلامی نہیںاگر پہلے حکومت دینی حدود میں ہوتی تھی، تو اب حکومت دین اور احکامِ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہوگئی ہے، ایک شہنشاہیت میں بدل گئی ہے۔ پہلے پیغمبر اسلامؐ معاشرتی امور اسلامی قوانین کی اساس پر چلاتے تھے، اب حاکم اپنی دلی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے۔ پہلے پیغمبرؐبیت المال کو فقرا اور مساکین کے امور کی اصلاح کے لیے صرف کرتے تھے، اب اُسے حکومت بچانے کے لیے لٹایا جارہا ہےپہلے پیغمبراسلام ؐ نے بعض کاموں کی ممانعت کی تھی، اب حکمراں خودانہی کاموں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔


 

اِس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ جب کوئی عمل معاشرے کا حکمراں انجام دینے لگتا ہے، تو عام لوگوں میں بھی وہ عمل رائج ہوجاتا ہےعبادت میں بھی اسلام پر عمل نہیں ہورہا تھاامام حسین ؑ دیکھ رہے تھے کہ حق کی پروا نہیں کی جاتی اور اِس پر عمل نہیں ہوتاآپ ؑ کو بخوبی علم تھا کہ نہی عن المنکر کرنے کے لیے اِس حکومت کے خلاف مختلف پہلوؤں میں جدوجہد کرنا ہوگی اور اِسی مقصد کے لیے آپ ؑ نے اپنی تحریک کاآغاز کیا، حکومت کو نابود کرنے اور اگر ممکن ہو تو حکومتِ حق کے قیام کے لیے اقدام کیا۔

امامؑ کی تحریک میں فریضے کی انجام دہی اور مقصد و غایت کو کیسے یکجا کیا جائے؟

سوال: بعض محققین کہتے ہیں کہ فریضے کی ادائیگی میں ہدف و غایت کو نہیں دیکھا جاتایعنی انسان پر لاز م ہے کہ ہر صورت میں اپنا فرض ادا کرے، خواہ مقصد حاصل ہو یا نہ ہولیکن آپ نے اِن دونوں باتوں کو یکجا قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ اِن دونوں کو یکجا کرنے کی وضاحت کس طرح کریں گے؟

اِن دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں، درحقیقت یہ ایک ہی چیز ہےامام حسین ؑ کا مقصد تمام شعبوں میں حق کا احیا اور باطل کی نابودی تھااس ہدف کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ امام ؑ ایک راستہ اپنائیںامام ؑ نے وہ راستہ تلاش کیا اور اس کاآغاز حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس سے ناراضگی کے اظہار سے کیا۔

اوّلین مرحلے ہی میں جب امام ؑ نے یزید کی بیعت قبول نہ کی، تواُن کے مقصد کا ایک حصہ مکمل ہوااس مرحلے میں مقصد کے حصول کا راستہ حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس کی مخالفت تھا۔

میں پیغمبرؐ کا نواسہ اِس حکومت سے راضی نہیں، اِس کے افعال کو پسند نہیں کرتابس یہ حکومت ایک اسلامی حکومت نہیں ہے۔


 

اِس عمل سے امام ؑ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کیا اور اپنے مقصد کو بھی حاصل کیااگر بالفرض اِس کے بعد امام حسین ؑ کوئی قدم نہ اٹھاپاتے، تب بھی اپنے مقصد تک پہنچ چکے تھےآپ ؑ کے مکہ جانے سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوااگر اِس کے بعدکے مراحل بھی واقع نہ ہوتے، تب بھی امام ؑ نے اپنا فریضہ انجام دے دیا تھا اور کامیابی حاصل کرلی تھیاِس کے بعد بھی اگرامام ؑ جاتے اور حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہوجاتے، تو اپنا مقصد پالیتے اور اگرحکومت حاصل نہ کرپاتے اور اِس راہ میں جامِ شہادت نوش کرلیتے، تب بھی اپنے مقصدکو حاصل کرلیتے کیونکہ آپ ؑ کامقصد امربالمعروف اور سیرتِ پیغمبر ؐ کا احیا تھا۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 September 17 ، 15:03

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟ 

6 

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی


دوسری تحریکوں کے درمیان ہدف اور مقصد کا فرق نمایاں ہےجولوگ اس تحریک کو دوسری بشری تحریکوں ہی میں سے ایک تحریک سمجھتے ہیں، اُنہوں نے دراصل اس کے اہداف و مقاصد کو نہیں سمجھاعالی مرتبہ مسلم محققین نے بھی اس کے اسرار کے کسی خاص گوشے ہی سے پردہ اٹھایا ہے، لیکن اس کی بہت سی حکمتیں تا ہنور پوشیدہ ہیںکیا اِس تحریک کی وجہ(امام حسین ؑ کی جانب سے) یزید کی مخالفت اور اُس کی بیعت سے روگردانی تھی؟ کیا تحریک کا محرک کوفیوں کی دعوت تھا؟ یا اس کاسبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام تھا؟ یا ان مذکورہ عوامل کے علاوہ کوئی اور عامل انقلابِ کربلا کا موجب تھا؟

تحریف کرنے والے سادہ لوح افراد کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کی گناہگار امت کی شفاعت کے لیے یہ قیام کیایہ طرزِ فکر عیسائیوں کے اس عقیدے کی مانند ہے جو وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں۔

بعض دوسرے لوگ یزیدی حکومت کی نابودی، قبائلی رنجش اور بنی امیہ سے انتقام لینے کوامام حسین ؑ کی تحریک کا بنیادی مقصد قراردیتے ہیںکچھ مقدس اور محدث حضرات بھی امام ؑ کے قیام کو ایک خاص غیبی دستورِ عمل(program) کی پیروی قرار دیتے ہیںجبکہ اگر ایسا ہو تو یہ قیام دوسروں کے لیے درسِ عمل اور قابلِ پیروی نہیں رہتا۔

ایک اہلِ سنت عالم ” عبداﷲ علائلی“ لکھتے ہیں:

” مجھے اِن تاریخ نگاروں پر تعجب ہے جو بے انصافی کرتے ہوئے امام حسین ؑ پر بغاوت کی تہمت لگاتے ہیں اور تلخ لہجے میں ان کا ذکر کرتے ہیںمیں ان جوانمردوں کو داد دیتا ہوں جوبد عنوان حکومتوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں، تاکہ ان حالات کو بدل کر مناسب اور مطلوب حالات وجود میں لائے جاسکیں اور ان لوگوں کے اخلاص، شرافت اور عزمِ صمیم سے معمور قلوب کو آفرین کہتا ہوںان جوانمردوں کے سالار حسین ابن علی ؑ ہیں، حسین ؑ جو حق کے مدافع اور نگہبان تھے، آپ ؑ نے اس مقصد کے لیے اپنے آپ


 

کو آگ میں جھونک دیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ دشمن نے یہ آگ آپ ؑ کی دعوت اور تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھڑکائی ہے لیکن امام ؑ کی آوازِ حق نے اس آگ کو اور شعلہ ور کر دیا، وہ مزید بھڑک اٹھی اور اس کے شعلوں نے ان لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر نابود کر دیا جنہوں نے ناحق اس آگ کو بھڑکایا تھا۔“ (1)

مشہور مصری مصنف ” عباس محمود عقاد“ لکھتا ہے:

” حسین ؑ الٰہی اور روحانی شخصیت کے مالک تھےان کا بپاکردہ انقلاب ان کی بلند مرتبہ، باصفا اور گہری الٰہی روح کا عکاس ہےاس کے برعکس یزید صرف اِس دنیا کی مستی، عیش وعشرت اور لذتوں پر یقین رکھتا تھا اور اس کے تمام اعمال پستی میں لے جانے والے تھے۔“ (2)

امام حسین ؑ کا قیام اسلام کی مانند وسیع اور جامع پہلوؤں کا حامل تھاایک طرف تو یہ تمام انبیا ؑ کے مقاصد کی تکمیل اور بقائے دین کا موجب تھا، تو دوسری طرف انسانی اقدار اور فضیلتوں کے احیااوربیدار ضمیروں اور سالم فطرتوں کو ابھارنے کاباعث بنااسی بنا پر یہ دینی تحریکوں کے رہنماؤں کے لیے آئیڈیل اورآزادی کی تمام تحریکوں کے لیے نمونہ عمل بن گیاغیر مسلم رہنما بھی اپنی قوموں کی نجات اور آزادی کے لیے، امام حسین ؑ کے انقلاب سے رہنمائی لیتے تھے۔

عاشورا کی تحریک میں چند مسائل کوبنیادی کردار حاصل ہے اوراِنہیں انقلابِ کربلا کے اصولوں میں شمار کرناچاہیےجبکہ دوسرے مسائل کو اِن کی فرع سمجھنا چاہیےیہ بنیادی مسائل درجِ ذیل ہیں:

(۱) حکومت اور خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ

حکومت کا موضوع ہمارے مکتب میں بنیادی ترین مسائل میں شمار ہوتا ہےامام محمد باقر ؑ کا ارشاد ہے:

بُنِی الْاِسْلامُ عَلیٰ خَمْسٍ:عَلَی الصَّلوٰ ةِ وَ الزَّکوٰ ةِ وَالصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَالْوِ لا یَةِ وَلَمْ یُنادَ بِشَیْ ءٍ کَمانودِیَ بَالْوِلایَهِ

--------------

1:- سمو الذات فی سمو المعنیص ۶

2:- حیات الحسین ؑ ج ۱ص ۵۶


 

اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:نمازپر، زکات پر، روزے پر، حج پر اور ولایت پر، لیکن جتنی (اہمیت کے ساتھ)ولایت کی طرف دعوت دی گئی ہے اتنی کسی اور چیز کی جانب دعوت نہیں دی گئی۔ (1)

گویا نماز، روزہ، حج اور زکات صامت احکام میں سے ہیں اور لوگوں کو عام انداز میں اُن کی طرف دعوت دی گئی ہے لیکن خداوندِ عالم نے ولایت پر خاص توجہ دی ہےکیونکہ حکومت دین کی حیات و روح اور احکام کے اجرا ونفاذکا ذریعہ ہےجس طرح باطل حکومت تمام فضیلتوں کے خاتمے اور ہر قسم کی برائیوں کی نشو و نما کا سبب ہوتی ہے، اسی طرح حکومتِ حق برائیوں کی نابودی اور معنوی اقدار اور فضائل کے رواج کا باعث ہوتی ہے۔

اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰؤُهُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ

اﷲ صاحبانِ ایمان کاولی ہے اور وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے، اورکفار کے ولی طاغوت ہیں جوانہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں(سورہ بقرہ ۲آیت ۲۵۷)حکومتِ اسلامی میں حکمراں کی صلاحیت علم، تقویٰ، عدالت اور زہد و پارسائی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حکومت کے اپنے اصل راستے سے ہٹ جانے اور اہلِ بیت علیہم السلام کو ایک طرف کر دینے کے نتیجے میں طاقت اور مکروفریب کی حکمرانی کے لیے میدان ہموار ہو گیایہاں تک کہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں تمام حساس عہدوں پر بنی امیہ کے افراد بیٹھ گئےحضرت علی ؑ کے بقول:وَقَامَ مَعَهُ بَنُوأَبِیهِ یَخْضَمُونَ مَالَ اﷲِ خِضْمَةَ الْاِ بِل نِبْتَةَ الرَّبِیعِ

اور ان کے ساتھ ان کے خاندان والے بھی کھڑے ہو گئے جو مالِ خدا کواس طرح ہضم کر رہے تھے جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کوچر لیتا ہے۔ (2)

--------------

1:- وسائل الشیعہ۔ ج۱۔ ص۴

2:- نہج البلاغہ خطبہ ۳


 

اِس طرح بنی امیہ کی قوت میں اضافہ ہوا اور بیت المال میں اُن کاخوردبرد اوراُن کا عیش وعشرت روز بروز بڑھنے لگااِس صورتحال پر علمی شخصیات، بزرگ اصحابِ رسول، عام افراد اورحد یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی تنبیہ بھی کارگر نہ ہوئیبلکہ لوگوں کے حقوق پر تجاوز، قانون شکنی، امت کی خواہشات اور مطالبات سے بے اعتنائی، اپنے اعزہ و اقربا کو معاملات میں شامل کرنے اور اصحابِ پیغمبر کوعلیحدہ کرنے جیسے امور بڑھنے ہی لگےممتاز افراد نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور مثبت و منفی، علانیہ اورخفیہ حکومت کے خلاف تحریک زور پکڑنے لگینیک سیرت افراد، علما اور گرامی قدر محدثین کلیدی ذمے داریوں اورحکومتی مناصب سے کنارہ کش ہوگئےلہٰذا حکام نے اِس خلا کو پُرکرنے کے لیے کعب الاحبار اور ابوہریرہ جیسے لوگوں کا سہارا لیااِن لوگوں نے اس حکومت کے جواز اور استحکام کے لیے احادیثِ نبوی وضع کیںحضرت عثمان کے بعد بے انصافیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کے پُرزور مطالبے پر حضرت علی ؑ بارِ خلافت اٹھانے پر تیار ہو ئےاپنے دورِ اقتدار میں آپ ؑ کو مسلسل جنگوں کا سامنا رہا، جس کے نتیجے میں معاویہ کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔

امام حسن ؑ کو بحالتِ مجبوری معاویہ سے جنگ ترک کرنا پڑیامام حسین ؑ ظلم وستم، بدعتوں کے رواج اور قتل و غارت گری کا بازار گرم دیکھ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے رہے اور لوگوں کوبیدار کرتے رہے معاویہ کا سب سے بڑا مکروہ عمل یزیدکو بطورِ ولی عہد مسلط کرنا اور خلافت کو اُس کے اصل راستے سے ہٹانا ہے۔

معاویہ کی موت کے بعداپنی نفسانی خواہشات کا غلام، کتوں سے کھیلنے والا یزید مسلمانوں کا حاکم بناوہ مکالمے اور نصیحت سے ناآشنا تھااسلام کو نابود کر دینے کے سوا اس کا کوئی اورمقصدنہ تھا یہ وقت ایک ایسی تحریک کا تقاضا کر رہا تھا جو اسلام کو نابودی سے محفوظ رکھ سکےیزید خود کو امیر المو منین اورخلیفہ رسول کہتا تھااس کے اس دعوے کے فریب میں صرف جاہل عوام اور لاعلم شامی ہی آ سکتے تھےالبتہ یزید کے علانیہ کفر آمیز اشعار، شراب نوشی، اور اس کے سابقہ قبیح کردار نیز بعض اصحابِ رسول کی جانب سے اس کی مخالفت نے بنی امیہ کی ” یزید کو خلیفہ مسلمین کہنے کی“ خواہش پوری نہ ہونے دیلیکن یزید کی حکومت کو جائز قرار دلوانے کے لیے انہوں نے ” شریح قاضی“ جیسے لوگوں کو تلاش کرہی لیا۔


 

دوسری طرف امام حسین ؑ اعلیٰ اسلامی اقدار کے احیا کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھےجب آپ ؑ نے کربلا کی سمت سفر کا آغاز کیا، تو آپ ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ سے کہا: اگر آپ ؑ سفر پر روانہ ہو ہی رہے ہیں، تو کم از کم ان عورتوں اور بچوں کو اپنے ہمراہ نہ لے جایئےامام ؑ نے اُنہیں جواب دیا:

وَقَدْ شٰاءَ اﷲ اَنْ یَراهُنَّ سَبٰایٰا

اﷲ کی مرضی ہے کہ یہ بھی قید کیے جائیں۔ (1)

امام ؑ کے اس قول سے پتا چلتا ہے کہ عاشورا کی تحریک کو ان پہلوؤں اور اس کے بعد کے حوادث کے اعتبار سے دوسری تمام تحریکوں سے ممتاز ہونا چاہیے، تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ عمل اور آئیڈیل قرار پائےایک ایسی تحریک ہو جس میں شیر خواربچے سے لے کر اسّی سالہ بوڑھا تک جانثاری اور فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق کا پرچم بلند رکھے، اپنا خون نچھاور کرے اور اِس کارواں کی خواتین کے اسیر ہوجانے کے ذریعے بنی امیہ کی استبدادی حکومت کے زوال کے لیے زمین ہموار ہو۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 21 September 17 ، 15:02