امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟
7
مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی
(۲) اسلام کی حفاظت اور دین کا احیا
اسلام کی حفاظت امام حسین ؑ کی تحریک کا دوسرا محرک (motive)تھاجیسا کہ کہا گیا ہے بنی امیہ کے ہاتھوں اسلام کی تباہی کی راہ ہموار ہو رہی تھی، اِن کاخفیہ ایجنڈا اسلام کی نابودی اور پیغمبر اسلام ؐکے نام کو مٹانا تھایہاں ہم عاشورا کے قیام کا اصل سبب واضح کرنے کے لیے امام حسین ؑ کے کلمات اور تاریخی شواہد سے کام لیں گے۔
الف: ابوسفیان نے اپنے اقربا اور بیٹوں سے کہا تھا:
” خلافت ایک دوسرے کو منتقل کرتے رہنا، تاکہ یہ تمہاری اولادوں میں وراثت کے طور پر پہنچتی رہے۔“
--------------
1:- لہوفص ۲۷
ب: مسعودی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے:
” مطرف بن مغیرہ نے کہا کہ معاویہ کے دربار میں میرے والد کی کافی آمد ورفت تھی اوروہ اکثر معاویہ کی تعریف و تمجید کیاکرتے تھےایک روز وہ دربار سے واپس آئے تو بہت غصے میں تھے اور مضطرب دکھائی دیتے تھےمیں نے دریافت کیا: کیا بات ہے آپ کیوں دل گرفتہ اور ملول نظر آ رہے ہیں؟ اُنہوں نے کہا:مجھے معلوم نہ تھا کہ معاویہ ایسا شخص ہے۔ اب مجھے پتا چلا ہے کہ وہ تو ہمارے زمانے کا سب سے زیادہ خراب آدمی ہےمیں نے پوچھا: بتایئے تو ہوا کیا ہے؟ کہا: میں نے اُس سے کہا کہ اب جبکہ تم نے اپنا مقصود حاصل کر لیا ہے، تو اپنی عمر کے ا س آخری حصے میں لوگوں کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو، اور بنی ہاشم کو ستاناچھوڑدو، تاکہ تمہارے بعد تمہارانام احترام اور نیکی کے ساتھ لیا جائےاِس پرمعاویہ نے کہا: افسوس، افسوس ابوبکر نے عدل و انصاف سے کام لیا لیکن دنیا سے گزر جانے کے بعد اُن کانام بھی باقی نہ بچاعمر اور عثمان بھی اسی طرح بے نام گزر گئے لیکن برادرِ ہاشم! تمام اسلامی شہروں میں ہر روز پانچ مرتبہ اذان میں اُس کی گواہی دی جاتی ہےاب نیک نامی کے لیے کونسا عمل باقی رہا ہے۔“ (1)
اِس حقیقت کی عکاسی امام حسین ؑ کے کلمات اور خطبات سے بھی ہوتی ہےامام ؑ اسلام اور قرآن کے لیے پائے جانے والے ایک بڑے خطرے سے پردہ ہٹاتے ہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، اہلِ کوفہ کی دعوت اور یزید کابیعت طلب کرنا فرعی مسائل ہیں، اصل چیز بقائے اسلام اورحکومت کا قیام ہےاِس بارے میں امام ؑ کے کلمات اور خطبات ملاحظہ ہوں:
-------------
1:- مروج الذھبج ۲ص ۲۶۶
(۱) معاویہ کی موت سے دوسال قبل امام حسین ؑ نے مکہ میں ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
اَمَّا بَعْدُ فَاِنَ هٰذَه الطّٰاغِیَةَ قَدْ فَعَلَ بِنٰا وَ بِشیعَتِنٰا مٰاقَدْ رَأَیْتُمْ وَعَلِمْتُمْ وَشَهِدْتُمْ وَاِنّی اُریدُ أَنْ أَسأَلَکُمْ عَنْ شَیْءٍ فَاِنْ صَدَقْتُ فَصَدِّ قُونی، وَاِنْ کَذِبْتُ فَکَذِّبُونی، اِسْمَعُوا مَقٰالَتی وَاکْتُبُوا قَوْلی ثُمَّ ارْجِعُوااِلیٰ اَمْصٰارِکُمْ وَقَبٰاءِلِکُمْ فَمَنْ آمَنْتُمْ مِنَ النَّاسِ وَوَثِقْتُمْ بِهِ فَادْعُوهُمْ اِلٰی مٰا تَعْلَمُونَ مِنْ حَقِّنٰا فَاِنّی أَ تَخَوَّفُ اَنْ یَدْرُسَ هَذَا الْاَمْرُ وَیَذْهَبَ الْحَقُّ وَیُغلَبَ، وَاﷲُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْکَرِهَ الْکٰافِرُونَ
اِس شخص نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ جو ظلم وستم روا رکھا ہواہے، وہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ آپ کے علم میں ہے اور آپ اس کے گواہ ہیں۔ آج میں آپ سے کچھ امورکے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوںاگر میں حقائق پیش کروں، تو میری تصدیق کیجیے گا بصورتِ دیگر بلا جھجک میری بات جھٹلا دیجیے گامیری باتوں کو سنیے اور انہیں لکھ لیجیے، پھر جب اپنے شہروں کوپلٹیے اور اپنے قبیلوں میں واپس جایئے، تو اپنے قابلِ اعتماد ہم وطنوں کو ہمارے اور ہمارے حق کے بارے میں جو کچھ جانتے ہوں اُس کی دعوت دیجیے کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں یہ دین حق فرسودہ ہو کر سرے سے ختم ہی نہ ہو جائےاور خداوندِ قدوس اپنے نور کو مکمل کر دیتا ہے چاہے انکار کرنے والوں کے لیے یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔ (1)
(۲) مدینہ میں یزید کے گورنر ولید بن عتبہ بن ابی سفیان نے جب امام ؑ سے یزید کی بیعت کا تقاضا کیا، تو آپ ؑ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا:
أَیُّهَا الْأَمیرُ! انّٰا أَهْلُ بَیْتِ النُّبُوَّة وَمَعْدِنُ الرِّسٰالَةِ وَمُخْتَلَفُ الْمَلاٰءِکَةِ وَبِنٰافَتَحَ اﷲُ وَبِنٰاخَتَمَ، وَیَزیدُ رَجُلٌ فٰاسِقٌ شٰارِبُ خَمْرٍ قٰاتِلُ النَّفْسِ الْمُحَرَّمَةِ مُعْلِنٌ بِالْفِسْقِ، وَمِثْلی لاٰیُبٰایِعُ لِمِثْلِهِ، وَلٰکِنْ نُصْبِحُ وَ تُصْبِحُونَ وَنَنْتَظِرُوَتَنْتَظِروُنَ أَ یُّنٰاأَحَقُّ بِالْخِلاٰفَةِ وَالْبَیْعَةِ
--------------
1:- مقتلِ مقرمص ۱۲۷، مقتلِ امین ص ۲۲
اے امیر! ہم اہلِ بیتِ نبوت اور معدنِ رسالت ہیں، ہمارے ہی یہاں فرشتوں کی آمد و رفت رہی ہے، ہم ہی سے خدا نے آغاز کیا اور ہم ہی پر اختتام کرے گایزید ایک فاسق شخص ہے جو شراب پیتا ہے، نیک لوگوں کو قتل کرتا ہے اور فسق و فجور کا کھلم کھلا ارتکاب کرتا ہےمجھ جیسا انسان اُس جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتالیکن ہم بھی صبح تک دیکھتے ہیں تم بھی دیکھو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں، تم بھی انتظار کرو کہ ہم میں سے کون خلافت اور بیعت کا زیادہ حق دار ہے۔ (1)
(۳) مروان بن حکم سے آپ ؑ کی ملاقات ہوئی، تو اُس نے کہا کہ آپ ؑ یزید کی بیعت کر لیجیے، دنیا اور آخرت میں آپ ؑ کی بھلائی اِسی میں ہےیہ سن کر امام ؑ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمایا:
اِنّٰالِلّٰهِ وَاِنّٰاالَیْهِ رٰاجِعُونَ وَعَلیَ الْاِسْلاٰمِ اَلسَّلاٰمُ اذْ قَدْبُلِیَتِ الأُمَّةُ بِرٰاعٍ مِثْلِ یَزیدَ، وَلَقَدْسَمِعْتُ جَدّی یَقُولُ:أَلْخِلاٰ فَةُ مُحَرَّمَةٌ عَلیٰ اٰلِ ابی سُفْیٰان
انا ﷲ واناالیہ راجعون (یعنی اب ہمیں اسلام پر فاتحہ پڑھ لینی چاہیے اور اسلام کو الوداع کہہ دینا چاہیے) اب امت یزید جیسے حاکم کے شکنجے میں آ گئی ہے میں نے اپنے نانا رسول اﷲ ؐسے سنا ہے کہ آپ ؐ فرماتے تھے: خلافت اولادِ ابو سفیان کے لیے حرام ہے(2)
(۴) معروف مؤرخ طبری کہتا ہے کہ امام حسین ؑ نے ” ذی حسم“ کے مقام پر درجِ ذیل مضمون کا ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
اِنَّهُ قَدْ نَزَلَ مِنَ الْأَمْرِمٰاقَدْ تَرَوْنَ وَاِنَّ الدُّنْیٰا قَدْ تَغَیَّرَتْ وَ تَنَکَّرَتْ وَأَدْبَرَمَعْرُوفُهٰا وَاسْتَمْرَّتْ جِدّاًوَ لَمْ یَبْقَ مِنْهٰا اِلاّٰ صُبٰابَةٌ کَصُبٰابَةِ الْاِنٰاءِ وَخَسیْسِ عَیْشٍ کَالْمَرْعَی الْوَبیلِ
--------------
1:- امالئصدوقص ۱۳۰
2:- مقتلِ مقرمص ۱۳۰، لہوف ص ۱۳، مثیرالاحزان ص ۱۰
تم دیکھ رہے ہو کہ حالات کہاں پہنچ گئے ہیںدنیا بدل گئی ہے، اس کی اچھائیاں ختم ہو گئی ہیں اور برائیاں چھا گئی ہیں اب اس میں سے اتنا بچا ہے جتنا برتن کی تہہ میں بچ رہنے والے چند قطرے اور ایسی ذلت آمیز زندگی جیسے سخت اور بنجر زمین۔ (۱)
اِس کے بعد فرماتے ہیں:
أَلاٰ تَرَوْنَ أَنَّ الْحَقَّ لاٰ یُعْمَلُ بِهِ وَانَّ الْبٰاطِلَ لاٰ یُتَنٰاهیٰ عَنْهُلِیَرْغَبَ الْمؤْمِنُ فی لِقٰاءِ اللّٰهِ مُحِقّاً
کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل کی روک تھام کی کوشش نہیں کی جاتیایسے حالات میں مومن کو خدا سے ملاقات کی آرزو کرنی چاہیے(2)
فَاِنّی لاٰأَرَی الْمَوْتَ اِلاّٰ سَعادَةً وَالْحَیٰاةَ مَعَ الظّّٰالِمینَ اِلاّٰ بَرَماً۔
میں تو ایسی موت کو سعادت سمجھتا ہوں اور ظالمین کے ساتھ زندہ رہنے کو ذلت(3)
سَاَمْضِی وَمٰابِالْمَوْتِ عٰارٌعَلَی الْفَتیٰ
اِذٰا مٰانَویٰ حَقّاً وَجٰاهَدَ مُسْلِماً
وَوٰاسیَ الرِّجٰالَ الصّٰالِحینَ بِنَفْسِهِ
وَفٰارَقَ مَثْبُوراًوَخٰالَفَ مُجْرِماً
فَاِنْ عِشْتُ لَمْ اَنْدَمْ وَاِنْ مِتُّ لَمْ أُلَمْ
کَفیٰ بِکَ ذُلاًّ أََنْ تَعیشً وَتَرْغَمٰا
--------------
1:- مقتلِ مقرمص ۱۳۰، لہوفص ۱۳
2:- تحف العقولص ۱۷۴، تاریخِ طبریج ۷ص ۳۰۰، لہوفص۶۹، تاریخِ ابن عساکرص ۲۱۴، مثیرالاحزانص ۲۳۰، مقتلِ خوارزمیج ۲ص ۵
3:-۔ بلاغۃ الحسین ؑ ص ۸۶
میں یہی راہ اپناؤں گاجواں مرد کے لیے موت عیب نہیں اگر وہ حق کی راہ میں اور اسلام کی خاطر مصروفِ جہاد ہو، پھر جبکہ وہ صالح انسانوں کی مدد کرتے ہوئے اپنی جان فدا کر دے، ظالموں سے دورہو اور مجرموں کا مخالفاگر زندہ رہا تو مجھے کوئی پشیمانی نہ ہوگی اور نہ ہی مارے جانے کی صورت میں کوئی رنج۔ جبکہ تمہارے لیے یہی کافی ہے کہ تم یہ ذلت بھری زندگی بسر کرو(۱)
(۵) امام حسین ؑ نے مکہ تشریف لانے کے بعد بصرہ کے عمائدین اور سرداروں میں سے مالک بن مسمع، احنف بن قیس، منذر بن جارود، مسعود بن عمرو، قیس بن الہیثم اور عمرو بن عبید کے نام ایک خط لکھا، جس میں فرمایا:
أَمّٰابَعْدُ:فَاِنَّ اﷲَ اصْطَفیٰ مُحَمَّداً ( ص) مِنْ خَلْقِهِ، وَأَکْرَمَهُ بِنُبُوَّتِهِ، وَاخْتٰارَهُ لِرِسٰالَتِهِ، ثُمَّ قَبَضَهُ اِلَیْهِ وَقَدْ نَصَحَ لِعِبٰادِهِ وَبَلَّغَ مٰااُرْسِلَ بِهِ(ص) وَکُنّٰاأَهْلَهُ وَأَوْلِیٰاءَ هُ وَأَوصِیٰاءَ هُ وَوَرَثَتَهُ وَأَحَقَّ النَّاسِ بِمَقٰامِهِ فِی النّٰاسِ، فَاسْتَأْ ثَرَعَلَیْنٰا قَوْمُنٰابِذٰلِکَ، فَرَضینٰاوَکَرِهْنَا الْفُرْقَةَ وَأَحْبَبْنَاالْعٰافِیَةَ، وَنَحْنُ نَعْلَمُ أَنّٰاأَحَقُّ بِذٰلِکَ الْحَقِّ الْمُسْتَحَقِّ عَلَیْنٰا مِمَّنْ تَوَلاّٰهُ وَقَدْ بَعَثْتُ رَسُولِی اِلَیْکُمْ بِهٰذَا الْکِتٰابِ، وَأَنَاأَدْعُوکُمْ اِلیٰ کِتٰابِ اﷲِ وَ سُنَّةِ نَبیِّهِ(ص)، فَاِنَّ السُّنَّةَ قَدْاُمیتَتْ، وَالْبِدْعَةَ قَدْ اُحیِیَتْ، فَاِن تَسْمَعُوا قَوْلِی اَهْدِکُمْ اِلیٰ سَبِیلِ الرَّشٰادِ، وَالسَّلاٰمُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرکٰاتُهُ
اما بعد! خدا نے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی مخلوقات میں سے منتخب کیا، نبوت سے اُنہیں بزرگی بخشی اور رسالت کے لیے اُن کا انتخاب کیا اور جب اُنہوں نے رسالت کے فریضے کو بحسن و خوبی انجام دے لیا اور بندگانِ خدا کی ہدایت اور رہنمائی فرما چکے، تو حق تعالیٰ نے اُنہیں اپنے پاس بلا لیاہم لوگ اُن کے اہل، وصی، وارث اور تمام امت میں اُن کے مقام کے سب سے زیادہ حقدار تھےلیکن ایک گروہ نے ہمارا یہ حق ہم سے چھین لیااور ہم نے یہ جاننے کے باوجود کہ ہم ان لوگوں سے
--------------
1:- اصابہج ۳ص ۴۸۰، تاریخِ طبریج۳ص ۲۸۰، مثیر الالحزان ص ۲۸۰
زیادہ لائق اور حقدار ہیں امت کو اختلاف اور انتشار سے بچانے اور دشمنوں کے تسلط سے محفوظ رکھنے کے لیے اِس صورتحال پر رضا و رغبت کا اظہار کیا اور مسلمانوں کے امن و سکون کو اپنے حق پر ترجیح دی البتہ اب میں نے اپنا پیغام رساں تمہاری طرف بھیجا ہے اور تمہیں کتابِ خدا اور سنتِ پیغمبرؐ کی طرف دعوت دے رہا ہوںکیونکہ اب ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ سنتِ رسول ؐمٹا دی گئی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے لے لی ہےاگر تم نے میری بات سنی تو میں سعادت اور خوش بختی کے راستے کی جانب تمہاری ہدایت کروں گاوالسلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ۔ (۱)
امام حسین ؑ اپنی شہادت، عاشورا کی تحریک کے ثمرات اوراپنے اہلِ بیت ؑ کی اسیری سے پوری طرح واقف تھے نیز آپ ؑ جانتے تھے کہ دین کی بقا اور اُس کے احیا کے لیے جہاد و شہادت کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا ہے۔
لَوْکُنْتُ فی جُحْرِهٰامَّةٍ مِنْ هٰذِهِ الْهَوٰامِّ لاَسْتَخْرَجُونِی حَتّٰی یَقْضُوا فیَّ حَاجَتَهُمْ
اگر میں حشرات کے بلوں میں بھی جا چھپوں، تب بھی یہ لوگ مجھے وہاں سے نکال لیں گے تاکہ اس طرح اپنا مقصد پورا کر لیں۔
امام ؑ کے پاس صرف دو راستے تھے یا تو جہاد و شہادت کی راہ اپنائیں یا کفروگمراہی کا راستہ منتخب کریں، تیسری کوئی راہ نہ تھی ظاہر ہے امام حسین ؑ نے پہلا ہی راستہ اختیار کیاکیونکہ یزیدی حکومت اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے پر کمر بستہ تھی اور عامتہ الناس کا جہل اور لاعلمی ان کے اس مقصد کی تکمیل میں ان کی مدد کر رہے تھے زیارتِ اربعین کے ایک حصے میں اس بات کی جانب اِن الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے:
وَبَذَلَ مُهْجَتَهُ فیکَ لِیَسْتَنْقِذَ عِبٰادَکَ مِنَ الْجَهٰالَةِ وَحَیْرَةِ الضَّلاٰلَةِ
اور تیری راہ میں اپناخون نچھاورکیا، تا کہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی سرگردانی سے نجات دلائیں۔ (2)
--------------
1:- تاریخِ طبری ج ۳ص ۳۰۶، الکامل فی التاریخ۔ ج۲۔ ص ۵۵۲، احقاق الحق۔ ج۱۱۔ ص ۶۰۹، وقعہ الطف ص ۱۷۲، مقتلِ خوارزمی۔ ج۱۔ ص ۲۲۴، انساب الاشراف ج ۳ص ۱۷۱
2:- مفاتیح الجنان ص ۸۵۶
عاشورا کا قیام صرف اس لیے نہ تھا کہ امام ؑ یزید کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تھے، کیونکہ اگر صرف بیعت نہ کرنا مقصود ہوتا، تو امام ؑ اِس علاقے سے چلے جاتے اور جزیرہ عرب سے باہر نکل جاتے جس طرح اور بہت سے لوگ فتنے کے مقام سے دور چلے گئے اور بیعت نہ کی اور نہ ہی آپ ؑ کے قیام کا محرک کوفیوں کی دعوت پر لبیک کہنا تھا کیونکہ ایک تو امام ؑ انہیں خوب اچھی طرح جانتے تھے (اور اِس بات کی جانب محمد بن حنفیہ نے بھی آپ ؑ کو متوجہ کیا تھا کہ اہلِ کوفہ بے وفا ہیں، انہوں نے آپ ؑ کے والد اور بھائی کے ساتھ بھی بے وفائی کی تھی) دوسرے یہ کہ امام ؑ کے لیے حضرت مسلم بن عقیل ؑ کی شہادت بھی کوفہ کی جانب سفر ترک کر دینے کے لیے کافی تھی۔
در اصل اِس مقدّس تحریک میں امام ؑ کے پیش نظر دو بنیادی مقاصد تھے۔
*ایک دین کو نابودی سے بچانا اور اسلام و قرآن کی بقا۔
* اور دوسرا بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ، خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ اور اِس کے موروثی ہونے کی بدعت کے خلاف جہاد۔
امام ؑ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، بیعت سے پرہیز اور کوفیوں کی دعوت قبول کرنے کی بابت جو کچھ فرمایا، وہ دراصل لوگوں کو آگاہ کرنے، حالاتِ حاضرہ پر اُن کی توجہ مبذول کرانے، اُن پر اتمامِ حجت کرنے اور اپنے آپ کو نام نہاد خلیفۃ المسلمین کے خلاف خروج کی تہمت سے بچانے کے لیے تھا۔
کتاب ” العواصم والقواصم“ میں ابن عربی نے لکھا ہے : ” حسین ؑ اپنے جد کی تلوار سے قتل ہوئے۔ کیونکہ جب لوگوں نے یزید کی بیعت کرلی اور اربابِ حل و عقد کے اجماع کے ذریعے اُس کی خلافت پر اتفاق ہوگیا، تو حسین ؑ نے بلا کسی جواز کے اپنے زمانے کے امام (یزید ) کے خلاف خروج کیا، جو اُن کے قتل کا سبب بنا۔“
یہی وجہ تھی کہ امام ؑ نے ہرہر قدم پر یزید کے فاسق و فاجر اور ظالم ہونے کا اعلان کیااور خلافت کے لیے اپنی لیاقت اور اولویت کا بار ہا ذکرکیانیز واضح کیا کہ خرابی کی جڑ حکومتِ یزید ہے اور بس۔
(۶) امام حسین ؑ نے معاویہ کی زندگی کے آخری ایام میں اصحابِ رسول اور تابعین کو خطوط تحریر کر کے اُنہیں منیٰ آنے کی دعوت دی، اور وہاں اُن کے سامنے ایک تقریر کی۔
اِس تقریر میں حکومت کے بارے میں اُن (اصحاب و تابعین ) کی سنگین ذمے داری کی جانب اُنہیں متوجہ کرنے اور یہ ثابت کرنے کے بعد کہ معاشرتی امور کی باگ ڈور علمائے ربانی کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے فرمایا :
فَأَنْتُمْ الْمَسْلُوبُونَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ، وَمٰاسُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَاخْتِلاٰفِکُمْ فِی الْسُنَّةِ بَعْدَالْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ، وَلَوْصَبَرْتُمْ عَلَی الْأذیٰ وَتَحَمَّلْتُمُ الْمَؤُونَةَ فٰی ذٰاتِ اﷲِ کٰانَتْ اُمُورُاﷲِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ، وَعَنْکُمْ تَصْدُرُ، وَاِلَیْکُمْ تَرْجِعُ
تم جو مقام و منزلت رکھتے تھے وہ تم سے چھین لی گئی اس کی وجہ یہ ہے کہ تم حق کے بارے میں تفرقے کا شکار ہوئے اور سنتِ پیغمبر کی اتباع کے واضح اور روشن راستے میں باہم اختلاف کیا اگر تم سختیوں پر صبر کرتے اور راہِ خدا میں مشکلات برداشت کرتے، تو امورِ الٰہی تمہارے سپرد ہوجاتے، حکومتی معاملات کی باگ ڈور تمہارے ہاتھوں میں ہوتی، تم فیصلے صادر کرتے اور لوگ اپنی حاجات کے سلسلے میں تم سے رجوع کرتے۔
وَلٰکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ، وَأَسْتَسلَمْتُمْ اُمُورَاﷲِ فِی أَیْدیهِمْ یَعْمَلُونَ بِالشُّبُهٰاتِ وَ یَسیرُونَ فِی الشَّهَوٰاتِ
لیکن تم نے رضا آمیز خاموشی کے ذریعے قوت و قدرت ظالموں کے لیے چھوڑ دی، امورِ الٰہی اُن کے سپرد کر دیے، تو اب وہ شبہات پر عمل کرتے ہیں اور شہوات و خواہشات میں ڈوبے ہوئے ہیں(۱)
(۷) مکہ یا بیضہ کے مقام پر آپ ؑ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں اللہ رب العزت کی حمدو ثناکے بعد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث سے آغاز کیا اور فرمایا :
--------------
۱:- تحت العقول ص ۲۳۷
أَیُّهَاالنَّاسُ !اِنَّ رَسُولَ اﷲِ (ص) قٰالَ:مَنْ رَأیٰ سلْطٰاناً جٰائراً مُسْتَحِلّاًلِحَرامِ اﷲِ، نٰا کِثاً لِعَهْدِاﷲِ، مُخَالِفاً لِسُنَّنهِ رَسُولِ اﷲِ، یَعْمَلُ فِی عِبٰادِاﷲِ بِالْاِ ثْمِ وَالْعَدْوٰانِ، فَلَمْ یُغَیِّرْعَلَیْهِ بِفِعْلٍ وَلاٰ قَوْلٍ، کٰانَ حَقَّاً عَلَی اﷲِ أَنْ یُدْخِلَهُ مُدْخَلَهُ
اے لوگو ! رسول اﷲ ؐ نے فرمایا ہے: جو کوئی بھی ایسے ظالم حکمراں کو دیکھے جو خدا کے حرام کیے ہوئے کو حلال قرار دے، اﷲ رب العزت سے کیے ہوئے عہد و پیمان کی خلاف ورزی کرے، سنتِ رسول کی مخالفت کرے اور لوگوں سے ظالمانہ سلوک کرے، تو اُس (شخص) پر واجب ہے کہ اپنے قول یا عمل سے اس حکمراں کی مخالفت کا اظہار کرے اگر وہ ایسا نہ کرے، تو خداوندِ عالم کو حق ہے کہ اسے بھی اِس ظالم حکمراں کے ٹھکانے میں جگہ دے۔
اِس کے بعد فرمایا:
اِنَّ هٰؤُلاٰءِ قَوْمٌ لَزِمُوا طٰاعَةَ الشَّیْطٰانِ وَتَرَکُواطٰاعَةَ الرَّحْمانِ وَ أَظْهَروُا الْفَسٰادَ، وَعَطَّلُوا الْحُدُودَ، وَاسْتَأْثَرُوابِالْفَیْءِ، وَأَحَلّوُا حَرٰامَ اﷲِ، وَحَرَّمُواحَلاٰلَهُ، وَأَنٰا أَحَقُّ مَنَ غَیَّرَ“
دیکھو اِن لوگوں نے خود کو شیطان کی پیروی کا پابند کر لیاہے، خدا کی اطاعت ترک کردی ہے، بُرائیوں کو علانیہ کر دیا ہے، حدودِ الٰہی کو معطل کیے ہوئے ہیں، اور (میں حسین ابن علی ؑ ) اِس صورتحال پر ردِعمل کے اظہار اور معاشرے میں انقلاب اور تبدیلی کے لیے اقدام کا دوسروں سے زیادہ ذمے دار ہوں۔ (۱)
(۸) امام حسین ؑ نے متعدد مواقع پر خلافت کے لیے اپنی لیاقت کی جانب اشارہ کیا اور اسی پر اپنی جدوجہد کی بنیاد استوار کی حضرت ؑ نے نمازِ ظہر کے موقع پر ” حرا بن یزید ریاحی“ کے سامنے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :
أَمّٰابَعْدُ، أَ یُّهَاالنَّاسُ! فَاِنَّکُمْ اِنْ تَتَّقُواﷲ وَتَعْرِفُوا الْحَقَّ لِاَهْلِهِ یَکُنْ اَرْضیٰ لِلّٰهِ، وَنَحْنُ اَهْلُ بیْتِ مُحَمَّدٍ اَوْلیٰ بِوِلاٰیَةِ هٰذَاالْأَمْرِ مِنْ هٰؤُلاٰءِ الْمُدَّعینَ مٰا لَیْسَ لَهُمْ وَالسّٰائرینَ بِالْجَوْرِوَالْعُدوٰانِ
--------------
۱:- کامل ابن اثیرج۲۔ ص۵۵۲، لہوف ص۳۴، اعیان الشیعہج۱ص۵۹۶، وقعہ الطف ص۱۷، بحارالانوار ج۴۴۔ ص۳۷۷
لوگو ! اگر تم خوفِ خدا کرو اور اِس بات کو مانو کہ حق حقداروں کے پاس ہوناچاہیے، تویہ خوشنودئ خدا کا باعث ہو گا۔ اور ہم اہلِ بیتِ پیغمبر لوگوں کی ولایت و رہبری کے لیے اِن (بنی امیہ) سے زیادہ اہل اور لائق ہیں، جو ناحق اِس مقام کے دعویدار بن بیٹھے ہیں اور جنہوں نے ہمیشہ ظلم و ستم اور خدا سے دشمنی کا راستہ اختیار کیا ہے۔ (1)
امام حسین ؑ کی تحریک ایک ایسی حکومتِ حق کے قیام کے لیے تھی جو بقائے اسلام کی ضامن ہو۔ آپ ؑ کا اپنے وصیت نامے میں شہادتین کے اظہار اور قبر و قیامت کی حقانیت کے اعتراف کے بعد یہ فرمانا کہ
: ” وَ أَنّی لَمْ أَخْرُجْ أشِراًوَلاٰبَطِراًوَلاٰ مُفْسِداًوَلاٰظٰالِماً“
( میں سرکشی کے ارادے سے نہیں نکل رہا ہوں اور نہ ہی میرا مقصد فساد پھیلانا یا کسی پر ظلم کرنا ہے ) اس لیے تھا کہ اپنی تحریک کو دشمنوں کی تہمت اور ناروا الزامات سے محفو ظ رکھیںمبادا وہ آپ ؑ کو خارجی اور مرتد کہیں(نعوذباﷲ)۔ اُسی طرح جیسے انہی لوگوں نے حضرت علی ؑ کو(نعوذباﷲ) کافر اور تارک الصلوٰۃ کہا تھا۔
امام ؑ نے اپنے کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا :
وَاِنَّمٰاخَرَجْتُ لِطَلَبِ الْاِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی
میں اپنے نانا کی امت کی اصلاح کی غرض سے نکل رہا ہوں۔
آپ ؑ اپنی تحریک کوامت کی اصلاح کا ذریعہ سمجھتے تھےوہ امت جس پر ظلم و ستم، جرم و جنایت کی حکومت تھی اور جس کا حاکم بغیر کسی خوف اورڈر کے اسلام کو مٹانے کے راستے تلاش کر رہا تھا، بے جھجک کفر آمیز اشعار پڑھتا تھا آپ ؑ نے دورانِ تحریک جب کبھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر کیا، تو آپ ؑ کے پیش نظر حکومت ہوا کرتی تھی عوام نہیں۔ جس طرح منیٰ میں اپنے خطاب کے دوران سورہ توبہ کی آیت نمبر۷۱ کی تلاوت کے بعد فرمایا :
--------------
۱:- مقتلِ خوارزمی ج۱ص۲۳۲، الفتوحج۵ص۸۷، تاریخِ طبریج۳۔ ص ۳۰۶
فَبَدَأَﷲُ بِالْأَمْرِبِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیِ عَنِ الْمُنْکَرِفَریضَةً مِنْهُ لِعِلْمِهِ بِأَنَّهٰا اِذٰااُدِّیَتْ وَاُقیمَتْ اِسْتَقٰامَتِ الْفَرٰاءِضُ کُلُّهٰا هَیِّنُهٰاوَصَعْبُهٰا، وَذٰلِکَ أَنَّ الْأَمْرَبِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْیَ عَنِ الْمُنْکَرِدُعٰاءٌ اِلَی الْاِسْلاٰمِ مَعَ رَدِّ الْمَظٰالِمِ وَمُخٰالَفَةِ الظّٰالِمِ، وَقِسْمَةِ الْفَیْیءِ وَالْغَنٰاءِمِ وَأَخْذِالصَّدَقٰاتِ مِنْ مَوٰاضِعِهٰا وَوَضْعِهٰا فِی حَقِّهٰا
(مذکورہ آیہ کریمہ میں ) خداوندِ عالم نے پہلا فریضہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قرار دیا ہے، سب سے پہلے اسی کو واجب کیا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر یہ فریضہ انجام دیا جاتا رہے اور لوگ اس حکم کی پابندی کریں، توسارے سخت اور سہل فرائض خودبخودادا ہو جائیں گےامر بالمعروف اور نہی عن المنکر درحقیقت لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا، مظلوموں کے حقوق کی بازیابی، ظالموں کی مخالفت، لوگوں کے مال اور جنگی غنائم کی عادلانہ تقسیم، صدقات کی صحیح صحیح جگہوں سے وصولی اور اُن کی درست تقسیم ہے۔
یہ ہماری مختصر گزارشات تھیں امام حسین ؑ کی تحریک کے اسباب اور مقاصد کے بارے میں، امید ہے امام ؑ کی راہ پر چلنے والوں کے لیے مفید اور قابلِ تقلید ثابت ہوں گی۔