پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

بایگانی

رسول خدا (ص) کا امام حسین (ع) کے غم میں گریہ کرنا۔ اہلِ سنت روایات

 

حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں لکھتا ہے کہ

( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علی الجوهری ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهیثم القاضی ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعی عن أبی عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَیْتُ اللَّیْلَةَ حُلْماً مُنْکَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِیدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِی حَجْرِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) خَیْراً رَأَیْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَیَکُونُ فِی حَجْرِکِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَیْنَ(علیه السلام) فَقَالَتْ وَ کَانَ فِی حَجْرِی کَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ یَوْماً عَلَی النَّبِیِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِی حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَیْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَکَ قَالَ أَتَانِی جَبْرَئِیلُ(علیه السلام) فَأَخْبَرَنِی أَنَّ أُمَّتِی سَتَقْتُلُ ابْنِی هَذَا وَ أَتَانِی بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.

المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 3، ص 176 – 177 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 196 – 197 و البدایة والنهایة، ابن کثیر، ج 6، ص 258 و.

ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔

بہت جلد فاطمه(علیها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔

ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔

حاکم نیشابوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.

اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:

أخبرناه أبو الحسین علی بن عبد الرحمن الشیبانی بالکوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاری ثنا خالد بن مخلد القطوانی قال حدثنی موسی بن یعقوب الزمعی أخبرنی هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبی وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتنی أم سلمة رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وآله اضطجع ذات لیلة للنوم فاستیقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استیقظ وهو حائر دون ما رأیت به المرة الأولی ثم اضطجع فاستیقظ وفی یده تربة حمراء یقبلها فقلت ما هذه التربة یا رسول الله قال أخبرنی جبریل(علیه الصلاة والسلام) ان هذا یقتل بأرض العراق للحسین فقلت لجبریل أرنی تربة الأرض التی یقتل بها فهذه تربتها هذ حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.

المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 4، ص 398.

عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔

حاکم نیشابوری کہتا ہے:یہ حدیث بخاری و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

طبرانی نے معجم کبیر، هیثمی نے مجمع الزوائد اور متقی هندی نے کنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:

وعن أم سلمة قالت کان رسول الله صلی الله علیه وسلم جالسا ذات یوم فی بیتی قال لا یدخل علی أحد فانتظرت فدخل الحسین فسمعت نشیج رسول الله صلی الله علیه وسلم یبکی فأطلت فإذا حسین فی حجره والنبی صلی الله علیه وسلم یمسح جبینه وهو یبکی فقلت والله ما علمت حین دخل فقال إن جبریل علیه السلام کان معنا فی البیت قال أفتحبه قلت أما فی الدنیا فنعم قال إن أمتک ستقتل هذا بأرض یقال لها کربلاء فتناول جبریل من تربتها فأراها النبی صلی الله علیه وسلم فلما أحیط بحسین حین قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا کربلاء فقال صدق الله ورسوله کرب وبلاء، وفی روایة صدق رسول الله صلی الله علیه وسلم أرض کرب وبلاء.

المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 23، ص 289 – 290 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 188 – 189 و کنز العمال، المتقی الهندی، ج 13، ص 656 – 657 و….

ام سلمه کہتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ام سلمه کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا(ص) کو دکھائی۔

جب دشمن کے لشکر نے امام حسین(ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسین علیه السلام نے فرمایا کہ رسول اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔

هیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبرانی بأسانید ورجال أحدها ثقات.

اسی طرح، هیثمی مجمع الزوائد میں ، ابن عساکر تاریخ مدینه دمشق میں، مزّی تهذیب الکمال میں  اور ابن حجر عسقلانی  تهذیب التهذیب میں لکھتے ہیں کہ:

عن أم سلمة قالت کان الحسن والحسین یلعبان بین یدی رسول الله صلی الله علیه وسلم فی بیتی فنزل جبریل فقال یا محمد إن أمتک تقتل ابنک هذا من بعدک وأومأ بیده إلی الحسین فبکی رسول الله صلی الله علیه وسلم وضمه إلی صدره ثم قال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة ودیعة عندک هذه التربة فشمها رسول الله صلی الله علیه وسلم وقال ویح وکرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمی أن ابنی قد قتل قال فجعلتها أم سلمة فی قارورة ثم جعلت تنظر إلیها کل یوم وتقول إن یوما تحولین دما لیوم عظیم.

تهذیب التهذیب، ابن حجر، ج 2، ص 300 – 301 و تهذیب الکمال، المزی، ج 6، ص 408 – 409 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 192 – 193 و ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 252 – 253 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و

ام سلمه سے روایت ہوئی ہے کہ:

امام حسن و حسین علیهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔  رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے  گریہ کیا اور حسین علیه السلام کو سینے سے لگا لیا۔

پھر رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی  ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شھید ہو گیا ہے۔

ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔

ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و فی الباب عن عائشة و زینب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبی أمامة و أنس بن الحارث و غیرهم.

اس بارے میں  روایات عایشه، زینب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

اسی طرح هیثمی ایک دوسری روایت نقل کرتا ہے کہ:

عن أبی أمامة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لنسائه لا تبکوا هذا الصبی یعنی حسینا قال وکان یوم أم سلمة فنزل جبریل فدخل رسول الله صلی الله علیه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعی أحدا أن یدخل علی فجاء الحسین فلما نظر إلی النبی صلی الله علیه وسلم فی البیت أراد أن یدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغیه وتسکنه فلما اشتد فی البکاء خلت عنه فدخل حتی جلس فی حجر النبی صلی الله علیه وسلم فقال جبریل للنبی صلی الله علیه وسلم إن أمتک ستقتل ابنک هذا فقال النبی صلی الله علیه وسلم یقتلونه وهم مؤمنون بی قال نعم یقتلونه فتناول جبریل تربة فقال بمکان کذا وکذا فخرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قد احتضن حسینا کاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبی علیه فقالت یا نبی الله جعلت لک الفداء انک قلت لنا لا تبکوا هذا الصبی وأمرتنی ان لا أدع أحدا یدخل علیک فجاء فخلیت عنه فلم یرد علیها فخرج إلی أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتی یقتلون هذا.

مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 8، ص 285 – 286 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 190 – 191 و ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 245 – 246 و….

ابو امامه سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّی اللّه علیه و آلهنے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسین علیه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

جبرئیل نے رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو  بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔

جبرئیل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو دی اور کہا کہ یہ خاک اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله غم کی حالت میں حسین علیه السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔


ترمذی شریف کی عبارت ملاحظہ ہو

عن سلمیٰ قالت دخلت علی ام سلمة وھی تبکی فقلت ما تبکیک قالت رأیت رسول اللہ تعنی فی المنام وعلی راسہ ولحیتہ التراب فقلت مالک یا رسول اللہ قال شھدت قتل الحسین انفاً.(١)

ترجمہ۔؛ سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گئی تو ان کو روتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھاآپ کیوں رو رہی ہیں فرمایا میں نے سرور کائنات کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے سراور ریش مبارک پر خاک پڑی ہے تو پوچھا یا حضرتۖ آپ خاک آلود کیوں ہیں تو فرمایا: میں ابھی حسین کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا ۔(۱) 

ملاحظہ ہوں اہل اسنت کی معتبر کتابیں:

(۱)سنن ترمذی جلد٢ ص٢٤١

(۲)مشکوٰة شریف باب مناقب اہل بیت علیہم السلام ج٣،ص٢٧٦

(۳)صواعق محرقہ ص١٩٣ طبع مصر

(۴)ینابیع المودة ص٣٢٠ باب ٦٠

(۵)تاریخ دمشق ابن عساکر ص٢٦٣ حصہ ذکر امام حسین

(۶)تذکر ة الخواص ص٢٦٨

(۷)تاریخ الخلفاء سیوطی ص ٢٠٨

(۸)کفایة الطالب علامہ گنجی ص٤٣٣            

مشکوة شریف مترجم با عناوین ج٣ ص٢٧٦ پر مذکور ہ روایت پر مترجم نے ایک عجیب حاشیہ لگایا ہے کہ یہ روایت قطعا غلط ہے اس لیے کہ تمام محدثین اورمؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ام سلمہ، شھادت حسین (ع) سے دو سال قبل وفات پاچکی تھیں۔

اما الجواب : اہل سنت کی معتبر کتاب سیرت حلبیة (١) میں صریحا موجود ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات جبکہ وہ چوراسی سال کی تھیں یزیدبن معاویہ کی حکومت میں ہوئی تھی اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

(ج٣ ص٤١١ طبع دارالمعرفة بیروت)

اہل سنت کے معتبر مؤرخ علامہ ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء (ج٢ ص٢١٠ ) میں لکھتے ہیں کہ بعض نے گمان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) کی وفات   ٥٩ (انسٹھ) میں ہوئی ہے یہ بھی (انکا) وہم ہے ظاہریہ ہے کہ ان کی وفات ٦١ (اکسٹھ) میں ہوئی ہے والظاہروفاتھا فی سنة احدی و ستین رضی اللہ عنہا

نیز علامہ ذھبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں ٦١ (اکسٹھ) کے حوادث میں ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات کا ذکر کیا ہے۔

نیز علامہ ذھبی اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء (ج٢ ص٢٠٢) میں لکھتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں حضرت ام سلمہ (رض) نے وفات پائی حتی کہ جب حسین شہید کی شہادت کی خبر سنی تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور ان پر بہت محزون ہوئیں ان کی شہادت کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہیں اورپھر انتقال کر گئیں۔

وکانت آخر من مات من امھات المؤمنین عمّرت حتی بلغھا فقتل الحسین (ع) الشھید فو جمت لذلک و غش علیھا و حزنت علیہ کثیرا لم تلبث بعدہ الّا یسیراً۔

نیز اہل سنت کی معتبر کتاب مجمع الزوائد ج٩ ص٢٤٦ پر تصریح موجود ہے کہ جناب أم سلمہ (رض) نےیزید ابن معاویہ کے زمانہ میں   ٦٢ باسٹھ میں انتقال کیا ہے۔ اور اس کو محدث طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال ثقہ ہیں۔

مزیدتائید: حضرت ام سلمہ(رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے حسین بن علی کی شہادت پر جنوں کا نوحہ سنا ہے اس کو طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال صحیح ہیں ( مجمع الزوائد ج٩ ١٩٩)

اگر وہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے پہلے فوت ہوگئی تھیں تو پھر انہوں نے امام مظلوم کی شہادت پرجنّات کا نوحہ کیسے سن لیا؟ حالانکہ جنّات کا نوحہ سننے والی روایت بھی صحیح ہے۔

خلاصہ: یہ کہ حضرت ام سلمہ کی وفات بقول ذھبی حکومت یزیدمیں ٦١ ہجری میں یا صحیح قول کے مطابق ٦٢ باسٹھ ہجری میں ہوئی ہے کما فی مجمع الزوائد بہر حال ان کی وفات امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد ہوئی ہے۔

پس مترجم مشکوة کا یہ دعوی کرنا کہ ان کی وفات شھادت حسین علیہ السلام سے دو سال قبل ہونے پر سب مورخین کا اتفاق ہے، یہ دعوی جہالت پر مبنی ، اورغلط ہے۔

نوٹ :نمبر١

ابن عباس سے بھی اسی مضمون کی روایت کتب میں پائی جاتی ہے (٢) تاریخ الخلفاء ص ٢٣٦ طبع مصر (٣) کفایة الطالب مناقب علی ابن ابی طالب ص ٤٣٨ ؛ الصواعق المحرقہ ص١٩٣.

جس گھر میں ترمذی شریف ہو گویا اس گھر میں نبی موجود ہیں .

ملاحظہ ہو اہل سنت کی معتبر کتاب اسماء الرجال مشکوٰة شریف ص١٨٤ :جس گھر میں یہ کتاب (ترمذی) موجود ہو پس یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے یہاں خود نبی موجود ہیں جو گفتگو فرمارہے ہیں ۔

نوٹ:نمبر٢

مذکورہ روایت سے ام سلمہ زوجہ رسول خدا ۖ کا مصیبت امام حسین کویاد کر کےرونا ثابت کرتاہے کہ مصیبت امام حسین میں رسول ۖ خدانے اپنے سر مبارک اورریش اقدس میں مٹی ڈالی ہے تو پھر مصیبت امام حسین میں رونا اورسر پر خاک ڈالنا بدعت نہیں ہے بلکہ عین سنت رسولۖ ہے۔


 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 17/09/23

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی