پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

بایگانی

مقصد قیام امام حسین (ع)

Thursday, 21 September 2017، 03:03 PM

امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟ 

5 

مصنف:- آیۃ اللہ ابراھیم امینی

شہادت کے لیے امام ؑ کی آمادگی اور اِس کا احساس

مدینہ سے مکہ اور پھر وہاں سے کربلا کی جانب سفر کے دوران امام حسین ؑ کے کلمات میں ایسی عبارتیں بھی ملتی ہیں جن میں امام حسین ؑ اپنی شہادت کی خبر دیتے نظرآتے ہیںمثلاً جب حضرت ؑ نے مدینہ سے عزمِ سفر کیا تو امِ سلمہؓ نے آپ ؑ سے کہا: ” عراق کے لیے نہ نکلئے کیونکہ میں نے رسول اللہ ؐسے سنا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا تھا: میرا فرزند حسین عراق میں قتل کیا جائے گا۔“ حضرت ؑ نے فرمایا:

وَ اللّٰهِ اِنّی مَقْتُولٌ کَذٰلِکَوَاِنْ لَمْ أَخْرُجْ اِلیَ الْعِرٰاقِ یَقْتُلُونی أَیْضاً

آپ صحیح فرماتی ہیں، میں اسی طرح قتل ہوؤں گا جس طرح آپ فرماتی ہیں اگر میں عراق نہ جاؤں تب بھی مجھے قتل کر دیں گے۔ (۱)

یہ وہ خبر ہے جو حضرت امِ سلمہ کی حدیث کی تائید کرتی ہےحضرت ؑ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ سے فرمایا:

اَ تٰانی رَسُولُ اللّٰهِ بَعْدَ مٰا فٰارَقْتُکَ فقال:یٰاحُسَیْنُ اُخْرُجْ فَاِنَّ اللّٰه قَدْشٰاءَ اَنْ یَرٰاکَ قَتیلاً

آپ سے جدا ہونے کے بعد پیغمبرؐ میرے خواب میں آئے اور فرمایا: اے حسین ؑ نکل کھڑے ہو! خدا کی مرضی یہی ہے کہ تمہیں مقتول دیکھے۔ (۲)

پھر مکہ میں ابن عباس اور ابن زبیر سے فرمایا:

اِنَّ رَسُولَ اللّٰهِ قَدْ أَمَرَنی بِأَمْرٍ وَأَنَامٰاضٍ فیهِ

پیغمبر ؐنے مجھے ایک حکم دیاہے اور میں اس حکم کی تعمیل میں مشغول ہوں۔ (۳)

--------------

۱:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۲۹۳

۲:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۹

۳:- موسوعہ کلماتِ الامام الحسین ؑ ص ۳۲۵


 

بظاہر یہ حکم وہی بات ہے جسے آپ ؑ نے خواب میں دیکھاتھابعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ کا اقدام ایک پہلے سے طے شدہ دستورِ عمل (program)تھا، جس کی انجام دہی پر امام ؑ مامور تھے، بعید نہیں کہ اِن لوگوں نے امام ؑ کے انہی کلمات سے یہ نظریہ اخذ کیا ہو۔

میری نظر میں یہ بات درست نہیں ہے کہ پیغمبر ؐنے امام حسین ؑ کی تحریک اور شہادت کا منصوبہ پہلے سے معین اور منظم کر رکھا تھا اوراُنہیں حکم دیا ہوا تھا کہ اسے تعبداً انجام دیںاصولی طور پربات یہ ہے کہ امام حسین ؑ اِس سفر کے دوران مختلف مواقع پر اپنی شہادت اور موت کو محسوس کررہے تھے۔ یعنی ایسا نہیں تھا کہ آپ ؑ کو اپنی شہادت کایقین ہو، البتہ آپ ؑ کو اِس کا احساس اور گمان تھا۔ بعض لوگ (امام خمینیؒ کے فرزند )حاج آقا احمد خمینی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ یہ میری زندگی کاآخری برس ہے۔ کیا وہ (احمد خمینی)علمِ غیب رکھتے تھے؟

خود میں نے بہت سے بزرگ افراد سے سنا ہے کہ وہ بعض حادثات کو قبل از وقت محسوس کرلیتے تھے۔ مومن انسان اپنی موت کاوقت نزدیک آنے پر اُسے محسوس کرلیتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ امام حسین ؑ نے جو خواب دیکھا اور جن کلمات میں حضرت ؑ نے اپنی موت اور شہادت کا ذکر کیا، اُن سے مجموعی طور پر یہ پتا چلتا ہے کہ آپ ؑ موت اور شہادت قبول کرنے پر تیار تھے اِس سے یہ نتیجہ نکالنا درست نہیں کہ حضرت ؑ نے طے کرلیا تھا کہ وہ شہید ہوں گے اورآپ ؑ ؑ گئے ہی حصولِ شہادت کے لیے تھے، لہٰذا امام حسین ؑ کا ہدف ہی شہادت تھاامام حسین ؑ شہادت کے لیے نہیں گئے تھے، بلکہ سنتِ پیغمبرؐ کے احیا اور بدعتوں کے خاتمے کے لیے آپ ؑ نے قیام فرمایاتھا، اب چاہے اِس اقدام کے نتیجے میں آپ ؑ کو شہادت قبول کرنا پڑے اس صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ ؑ کا مقصد ہی حصولِ شہادت تھابلکہ مقصدایک ایسا امر تھا جسے انجام دینا لازم تھا، خواہ اِس کی قیمت شہادت کی صورت میں ادا کرنی پڑے۔


 

امام ؑ کی تحریک کے اصلاحی پہلو

سوال: جنابِ عالی! آپ کی نظر میں امام حسین ؑ کی تحریک اسلام کی حقیقی سیرت کے احیا کے لیے ایک اصلاحی قیام تھاکیا اس اصلاحی تحریک کے متعلق یہ تصور درست ہے کہ امام ؑ کی اصلاحی تحریک کے دو پہلو تھے ایک اُس زمانے کے اسلامی سماج میں پائی جانے والی دینی فکر اور دینداری کی اصلاح اور دوسرا اُس دور کے سماجی اور حکومتی نظام کی اصلاح۔

جو کچھ ہم اسلام کے بارے میں جانتے ہیں، اجمالی طور پر وہ یہ ہے کہ اسلام میں دو گانگی نہیں ہےاسلام ایک ایسی حقیقت ہے جو سیاسی امور میں بھی دخل رکھتا ہے، ثقافتی، سماجی، اخلاقی، اقتصادی اور رفاہی امور میں بھیدرحقیقت اسلام ایک مجموعہ ہے کہ اگر اس کے تمام اجزا پر عمل ہو، تو یہ دنیا اورآخرت دونوں میں انسانوں کی سعادت کا ضامن ہے۔

اِس امر (اسلامی نظام کے مکمل نفاذ) کو جامہ عمل پہنانے کی ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہےحکومت کا اس کے سوا کوئی کام نہیں۔ حکومت ہی کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کے اقتصادی امور کی بھی اصلاح کرے، معاشرے کی سیاست کو بھی صحیح خطوط پر چلائے، لوگوں کے عبادی امور کی انجام دہی کے لیے بھی راہ ہموار کرے، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں سے بھی جنگ کرے، اچھے اخلاق کی ترویج بھی کرے، وغیرہ وغیرہحکومتِ اسلامی مجموعاً اِن تمام باتوں کی ذمے دارہے۔

وہ چیز جو امام حسین ؑ کی نظر میں باعثِ تشویش تھی اور جس کی خاطرآپ ؑ نے قیام کیا، تحریک چلائی، وہ یہ تھی کہ آپ دیکھ رہے تھے کہ سیرتِ پیغمبر ختم ہوچکی ہے اور اس کی جگہ دوسرے طریقے اختیار کرلیے گئے ہیں، ایسے طریقے جو اسلامی نہیںاگر پہلے حکومت دینی حدود میں ہوتی تھی، تو اب حکومت دین اور احکامِ شریعت کی پابندیوں سے آزاد ہوگئی ہے، ایک شہنشاہیت میں بدل گئی ہے۔ پہلے پیغمبر اسلامؐ معاشرتی امور اسلامی قوانین کی اساس پر چلاتے تھے، اب حاکم اپنی دلی خواہش کے مطابق عمل کرتا ہے۔ پہلے پیغمبرؐبیت المال کو فقرا اور مساکین کے امور کی اصلاح کے لیے صرف کرتے تھے، اب اُسے حکومت بچانے کے لیے لٹایا جارہا ہےپہلے پیغمبراسلام ؐ نے بعض کاموں کی ممانعت کی تھی، اب حکمراں خودانہی کاموں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔


 

اِس بات کی وضاحت کی ضرورت نہیں کہ جب کوئی عمل معاشرے کا حکمراں انجام دینے لگتا ہے، تو عام لوگوں میں بھی وہ عمل رائج ہوجاتا ہےعبادت میں بھی اسلام پر عمل نہیں ہورہا تھاامام حسین ؑ دیکھ رہے تھے کہ حق کی پروا نہیں کی جاتی اور اِس پر عمل نہیں ہوتاآپ ؑ کو بخوبی علم تھا کہ نہی عن المنکر کرنے کے لیے اِس حکومت کے خلاف مختلف پہلوؤں میں جدوجہد کرنا ہوگی اور اِسی مقصد کے لیے آپ ؑ نے اپنی تحریک کاآغاز کیا، حکومت کو نابود کرنے اور اگر ممکن ہو تو حکومتِ حق کے قیام کے لیے اقدام کیا۔

امامؑ کی تحریک میں فریضے کی انجام دہی اور مقصد و غایت کو کیسے یکجا کیا جائے؟

سوال: بعض محققین کہتے ہیں کہ فریضے کی ادائیگی میں ہدف و غایت کو نہیں دیکھا جاتایعنی انسان پر لاز م ہے کہ ہر صورت میں اپنا فرض ادا کرے، خواہ مقصد حاصل ہو یا نہ ہولیکن آپ نے اِن دونوں باتوں کو یکجا قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ آپ اِن دونوں کو یکجا کرنے کی وضاحت کس طرح کریں گے؟

اِن دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں، درحقیقت یہ ایک ہی چیز ہےامام حسین ؑ کا مقصد تمام شعبوں میں حق کا احیا اور باطل کی نابودی تھااس ہدف کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ امام ؑ ایک راستہ اپنائیںامام ؑ نے وہ راستہ تلاش کیا اور اس کاآغاز حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس سے ناراضگی کے اظہار سے کیا۔

اوّلین مرحلے ہی میں جب امام ؑ نے یزید کی بیعت قبول نہ کی، تواُن کے مقصد کا ایک حصہ مکمل ہوااس مرحلے میں مقصد کے حصول کا راستہ حکومت کے خلاف ردِعمل اور اس کی مخالفت تھا۔

میں پیغمبرؐ کا نواسہ اِس حکومت سے راضی نہیں، اِس کے افعال کو پسند نہیں کرتابس یہ حکومت ایک اسلامی حکومت نہیں ہے۔


 

اِس عمل سے امام ؑ نے امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا فریضہ بھی ادا کیا اور اپنے مقصد کو بھی حاصل کیااگر بالفرض اِس کے بعد امام حسین ؑ کوئی قدم نہ اٹھاپاتے، تب بھی اپنے مقصد تک پہنچ چکے تھےآپ ؑ کے مکہ جانے سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوااگر اِس کے بعدکے مراحل بھی واقع نہ ہوتے، تب بھی امام ؑ نے اپنا فریضہ انجام دے دیا تھا اور کامیابی حاصل کرلی تھیاِس کے بعد بھی اگرامام ؑ جاتے اور حکومت کی تشکیل میں کامیاب ہوجاتے، تو اپنا مقصد پالیتے اور اگرحکومت حاصل نہ کرپاتے اور اِس راہ میں جامِ شہادت نوش کرلیتے، تب بھی اپنے مقصدکو حاصل کرلیتے کیونکہ آپ ؑ کامقصد امربالمعروف اور سیرتِ پیغمبر ؐ کا احیا تھا۔

 

موافقین ۰ مخالفین ۰ 17/09/21

نظرات  (۰)

هیچ نظری هنوز ثبت نشده است

ارسال نظر

ارسال نظر آزاد است، اما اگر قبلا در بیان ثبت نام کرده اید می توانید ابتدا وارد شوید.
شما میتوانید از این تگهای html استفاده کنید:
<b> یا <strong>، <em> یا <i>، <u>، <strike> یا <s>، <sup>، <sub>، <blockquote>، <code>، <pre>، <hr>، <br>، <p>، <a href="" title="">، <span style="">، <div align="">
تجدید کد امنیتی