مقصد قیام امام حسین (ع)
امام حسین علیہ السلام نے قیام کیوں فرمایا؟
6
مصنف:-
آیۃ اللہ ابراھیم امینی
دوسری تحریکوں کے درمیان ہدف اور مقصد کا فرق نمایاں ہےجولوگ اس تحریک کو دوسری بشری تحریکوں ہی میں سے ایک تحریک سمجھتے ہیں، اُنہوں نے دراصل اس کے اہداف و مقاصد کو نہیں سمجھاعالی مرتبہ مسلم محققین نے بھی اس کے اسرار کے کسی خاص گوشے ہی سے پردہ اٹھایا ہے، لیکن اس کی بہت سی حکمتیں تا ہنور پوشیدہ ہیںکیا اِس تحریک کی وجہ(امام حسین ؑ کی جانب سے) یزید کی مخالفت اور اُس کی بیعت سے روگردانی تھی؟ کیا تحریک کا محرک کوفیوں کی دعوت تھا؟ یا اس کاسبب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا قیام تھا؟ یا ان مذکورہ عوامل کے علاوہ کوئی اور عامل انقلابِ کربلا کا موجب تھا؟
تحریف کرنے والے سادہ لوح افراد کہتے ہیں کہ امام حسین ؑ نے اپنے نانا کی گناہگار امت کی شفاعت کے لیے یہ قیام کیایہ طرزِ فکر عیسائیوں کے اس عقیدے کی مانند ہے جو وہ حضرت عیسیٰ کے بارے میں رکھتے ہیں۔
بعض دوسرے لوگ یزیدی حکومت کی نابودی، قبائلی رنجش اور بنی امیہ سے انتقام لینے کوامام حسین ؑ کی تحریک کا بنیادی مقصد قراردیتے ہیںکچھ مقدس اور محدث حضرات بھی امام ؑ کے قیام کو ایک خاص غیبی دستورِ عمل(program) کی پیروی قرار دیتے ہیںجبکہ اگر ایسا ہو تو یہ قیام دوسروں کے لیے درسِ عمل اور قابلِ پیروی نہیں رہتا۔
ایک اہلِ سنت عالم ” عبداﷲ علائلی“ لکھتے ہیں:
” مجھے اِن تاریخ نگاروں پر تعجب ہے جو بے انصافی کرتے ہوئے امام حسین ؑ پر بغاوت کی تہمت لگاتے ہیں اور تلخ لہجے میں ان کا ذکر کرتے ہیںمیں ان جوانمردوں کو داد دیتا ہوں جوبد عنوان حکومتوں کے خلاف جہاد کرتے ہیں، تاکہ ان حالات کو بدل کر مناسب اور مطلوب حالات وجود میں لائے جاسکیں اور ان لوگوں کے اخلاص، شرافت اور عزمِ صمیم سے معمور قلوب کو آفرین کہتا ہوںان جوانمردوں کے سالار حسین ابن علی ؑ ہیں، حسین ؑ جو حق کے مدافع اور نگہبان تھے، آپ ؑ نے اس مقصد کے لیے اپنے آپ
کو آگ میں جھونک دیا وہ بخوبی جانتے تھے کہ دشمن نے یہ آگ آپ ؑ کی دعوت اور تحریک کو ختم کرنے کے لیے بھڑکائی ہے لیکن امام ؑ کی آوازِ حق نے اس آگ کو اور شعلہ ور کر دیا، وہ مزید بھڑک اٹھی اور اس کے شعلوں نے ان لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر نابود کر دیا جنہوں نے ناحق اس آگ کو بھڑکایا تھا۔“ (1)
مشہور مصری مصنف ” عباس محمود عقاد“ لکھتا ہے:
” حسین ؑ الٰہی اور روحانی شخصیت کے مالک تھےان کا بپاکردہ انقلاب ان کی بلند مرتبہ، باصفا اور گہری الٰہی روح کا عکاس ہےاس کے برعکس یزید صرف اِس دنیا کی مستی، عیش وعشرت اور لذتوں پر یقین رکھتا تھا اور اس کے تمام اعمال پستی میں لے جانے والے تھے۔“ (2)
امام حسین ؑ کا قیام اسلام کی مانند وسیع اور جامع پہلوؤں کا حامل تھاایک طرف تو یہ تمام انبیا ؑ کے مقاصد کی تکمیل اور بقائے دین کا موجب تھا، تو دوسری طرف انسانی اقدار اور فضیلتوں کے احیااوربیدار ضمیروں اور سالم فطرتوں کو ابھارنے کاباعث بنااسی بنا پر یہ دینی تحریکوں کے رہنماؤں کے لیے آئیڈیل اورآزادی کی تمام تحریکوں کے لیے نمونہ عمل بن گیاغیر مسلم رہنما بھی اپنی قوموں کی نجات اور آزادی کے لیے، امام حسین ؑ کے انقلاب سے رہنمائی لیتے تھے۔
عاشورا کی تحریک میں چند مسائل کوبنیادی کردار حاصل ہے اوراِنہیں انقلابِ کربلا کے اصولوں میں شمار کرناچاہیےجبکہ دوسرے مسائل کو اِن کی فرع سمجھنا چاہیےیہ بنیادی مسائل درجِ ذیل ہیں:
(۱) حکومت اور خلافتِ اسلامیہ کا تحفظ
حکومت کا موضوع ہمارے مکتب میں بنیادی ترین مسائل میں شمار ہوتا ہےامام محمد باقر ؑ کا ارشاد ہے:
بُنِی الْاِسْلامُ عَلیٰ خَمْسٍ:عَلَی الصَّلوٰ ةِ وَ الزَّکوٰ ةِ وَالصَّوْمِ وَ الْحَجِّ وَالْوِ لا یَةِ وَلَمْ یُنادَ بِشَیْ ءٍ کَمانودِیَ بَالْوِلایَهِ
--------------
1:- سمو الذات فی سمو المعنیص ۶
2:- حیات الحسین ؑ ج ۱ص ۵۶
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے:نمازپر، زکات پر، روزے پر، حج پر اور ولایت پر، لیکن جتنی (اہمیت کے ساتھ)ولایت کی طرف دعوت دی گئی ہے اتنی کسی اور چیز کی جانب دعوت نہیں دی گئی۔ (1)
گویا نماز، روزہ، حج اور زکات صامت احکام میں سے ہیں اور لوگوں کو عام انداز میں اُن کی طرف دعوت دی گئی ہے لیکن خداوندِ عالم نے ولایت پر خاص توجہ دی ہےکیونکہ حکومت دین کی حیات و روح اور احکام کے اجرا ونفاذکا ذریعہ ہےجس طرح باطل حکومت تمام فضیلتوں کے خاتمے اور ہر قسم کی برائیوں کی نشو و نما کا سبب ہوتی ہے، اسی طرح حکومتِ حق برائیوں کی نابودی اور معنوی اقدار اور فضائل کے رواج کا باعث ہوتی ہے۔
اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِوَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَوْلِیٰؤُهُمُ الطَّاغُوْتُ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ
اﷲ صاحبانِ ایمان کاولی ہے اور وہ انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آتا ہے، اورکفار کے ولی طاغوت ہیں جوانہیں روشنی سے نکال کر اندھیروں میں لے جاتے ہیں(سورہ بقرہ ۲آیت ۲۵۷)حکومتِ اسلامی میں حکمراں کی صلاحیت علم، تقویٰ، عدالت اور زہد و پارسائی پر بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہےپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حکومت کے اپنے اصل راستے سے ہٹ جانے اور اہلِ بیت علیہم السلام کو ایک طرف کر دینے کے نتیجے میں طاقت اور مکروفریب کی حکمرانی کے لیے میدان ہموار ہو گیایہاں تک کہ حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں تمام حساس عہدوں پر بنی امیہ کے افراد بیٹھ گئےحضرت علی ؑ کے بقول:وَقَامَ مَعَهُ بَنُوأَبِیهِ یَخْضَمُونَ مَالَ اﷲِ خِضْمَةَ الْاِ بِل نِبْتَةَ الرَّبِیعِ
اور ان کے ساتھ ان کے خاندان والے بھی کھڑے ہو گئے جو مالِ خدا کواس طرح ہضم کر رہے تھے جس طرح اونٹ بہار کی گھاس کوچر لیتا ہے۔ (2)
--------------
1:- وسائل الشیعہ۔ ج۱۔ ص۴
2:- نہج البلاغہ خطبہ ۳
اِس طرح بنی امیہ کی قوت میں اضافہ ہوا اور بیت المال میں اُن کاخوردبرد اوراُن کا عیش وعشرت روز بروز بڑھنے لگااِس صورتحال پر علمی شخصیات، بزرگ اصحابِ رسول، عام افراد اورحد یہ ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ کی تنبیہ بھی کارگر نہ ہوئیبلکہ لوگوں کے حقوق پر تجاوز، قانون شکنی، امت کی خواہشات اور مطالبات سے بے اعتنائی، اپنے اعزہ و اقربا کو معاملات میں شامل کرنے اور اصحابِ پیغمبر کوعلیحدہ کرنے جیسے امور بڑھنے ہی لگےممتاز افراد نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی اور مثبت و منفی، علانیہ اورخفیہ حکومت کے خلاف تحریک زور پکڑنے لگینیک سیرت افراد، علما اور گرامی قدر محدثین کلیدی ذمے داریوں اورحکومتی مناصب سے کنارہ کش ہوگئےلہٰذا حکام نے اِس خلا کو پُرکرنے کے لیے کعب الاحبار اور ابوہریرہ جیسے لوگوں کا سہارا لیااِن لوگوں نے اس حکومت کے جواز اور استحکام کے لیے احادیثِ نبوی وضع کیںحضرت عثمان کے بعد بے انصافیوں سے تنگ آئے ہوئے عوام کے پُرزور مطالبے پر حضرت علی ؑ بارِ خلافت اٹھانے پر تیار ہو ئےاپنے دورِ اقتدار میں آپ ؑ کو مسلسل جنگوں کا سامنا رہا، جس کے نتیجے میں معاویہ کی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔
امام حسن ؑ کو بحالتِ مجبوری معاویہ سے جنگ ترک کرنا پڑیامام حسین ؑ ظلم وستم، بدعتوں کے رواج اور قتل و غارت گری کا بازار گرم دیکھ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کافریضہ انجام دیتے رہے اور لوگوں کوبیدار کرتے رہے معاویہ کا سب سے بڑا مکروہ عمل یزیدکو بطورِ ولی عہد مسلط کرنا اور خلافت کو اُس کے اصل راستے سے ہٹانا ہے۔
معاویہ کی موت کے بعداپنی نفسانی خواہشات کا غلام، کتوں سے کھیلنے والا یزید مسلمانوں کا حاکم بناوہ مکالمے اور نصیحت سے ناآشنا تھااسلام کو نابود کر دینے کے سوا اس کا کوئی اورمقصدنہ تھا یہ وقت ایک ایسی تحریک کا تقاضا کر رہا تھا جو اسلام کو نابودی سے محفوظ رکھ سکےیزید خود کو امیر المو منین اورخلیفہ رسول کہتا تھااس کے اس دعوے کے فریب میں صرف جاہل عوام اور لاعلم شامی ہی آ سکتے تھےالبتہ یزید کے علانیہ کفر آمیز اشعار، شراب نوشی، اور اس کے سابقہ قبیح کردار نیز بعض اصحابِ رسول کی جانب سے اس کی مخالفت نے بنی امیہ کی ” یزید کو خلیفہ مسلمین کہنے کی“ خواہش پوری نہ ہونے دیلیکن یزید کی حکومت کو جائز قرار دلوانے کے لیے انہوں نے ” شریح قاضی“ جیسے لوگوں کو تلاش کرہی لیا۔
دوسری طرف امام حسین ؑ اعلیٰ اسلامی اقدار کے احیا کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار تھےجب آپ ؑ نے کربلا کی سمت سفر کا آغاز کیا، تو آپ ؑ کے بھائی محمد بن حنفیہ نے آپ ؑ سے کہا: اگر آپ ؑ سفر پر روانہ ہو ہی رہے ہیں، تو کم از کم ان عورتوں اور بچوں کو اپنے ہمراہ نہ لے جایئےامام ؑ نے اُنہیں جواب دیا:
وَقَدْ شٰاءَ اﷲ اَنْ یَراهُنَّ سَبٰایٰا
اﷲ کی مرضی ہے کہ یہ بھی قید کیے جائیں۔ (1)
امام ؑ کے اس قول سے پتا چلتا ہے کہ عاشورا کی تحریک کو ان پہلوؤں اور اس کے بعد کے حوادث کے اعتبار سے دوسری تمام تحریکوں سے ممتاز ہونا چاہیے، تاکہ وہ دوسروں کے لیے نمونہ عمل اور آئیڈیل قرار پائےایک ایسی تحریک ہو جس میں شیر خواربچے سے لے کر اسّی سالہ بوڑھا تک جانثاری اور فداکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے حق کا پرچم بلند رکھے، اپنا خون نچھاور کرے اور اِس کارواں کی خواتین کے اسیر ہوجانے کے ذریعے بنی امیہ کی استبدادی حکومت کے زوال کے لیے زمین ہموار ہو۔