پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

بایگانی

۱ مطلب با موضوع «امام حسین علیہ السلام کا غم منانے اور عزاداری کرنے کا کیا فلسفہ و حکمت ہے؟» ثبت شده است

امام حسین علیہ السلام کا غم منانے اور عزاداری کرنے کا کیا فلسفہ و حکمت ہے؟


 

 

سوال:

امام حسین علیہ السلام کا غم منانے اور عزاداری کرنے کا کیا فلسفہ و حکمت ہے؟

جواب:

علوم انسانی و اسلامی میں مہم ترین بحث، تربیت انسان ہے ۔ حتی انبیاء کی رسالت کا اصلی ترین ہدف بھی تربیت و ہدایت انسان تھا۔ انسان کیونکہ مخلوق خداوند ہے لہذا تربیت انسان بھی اصل میں خداوند کا ہی کام ہے ۔ اسی لیے خداوند نے اپنی سب سے قیمتی مخلوق کی تربیت و ہدایت کے لیے، نمونے بھی سب سے اعلی و قیمتی بیھجے ہیں ۔ ان عملی نمونوں میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدس و نورانی ہے۔

جس طرح خود امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدس و نورانی کے اسلامی معاشرے میں آثار و برکات ہیں۔ اسی طرح ان کی عزداری کرنے کے بھی بہت سے اخلاقی اور تربیتی آثار ہیں۔ جیسے:

 

1 - حفظ مکتب و شریعت اسلام:

امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو اور واقعہ کربلا کو زندہ رکھنا یہ  ہر غیرت مند انسان کو ہر ظالم و ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا درس دیتا ہے اور انسان میں انقلاب دینی و جذبہ فدا کاری لاتا ہے۔

یعنی اہل بیت علیہم السلام کے لیے عزاداری کرنا یہ باعث بنتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا نام اسلام کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور ہر زمانے کا یزید اسلام پر حملے کرنے کی جرات نہیں کرتا۔

عزداری باعث بنتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور اسلام کا نام کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتا اور اسلام حقیقی تحریف اور تاثیرات منفی سے کاملا محفوظ رہتا ہے یا ان تاثیرات منفی کا برا اثر بہت ہی کم اسلام پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام کی اسلام کو نابود یا کم اثر کرنے کے لیے کوشش رہی ہے کربلاء، مسلمانوں اور اسلام کے درمیان جدائی ڈالی جائے۔ یہ عزداری کا اثر و برکت ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اسلام اپنی اصلی حالت میں باقی ہے۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ:

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اسلام کی حفاظت کرتی ہے۔ امام (ع) کا پیغام تمام زندہ و جاوید ہے جو رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کے لیے ہے۔ امام حسین علیہ السلام،کربلاء اور انکے سرخ پیغام کو اس گریے اور عزاداری نے حفظ کیا ہے۔

 صحیفه نور ج 8 ص 69.

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:

شاید دوسری دنیا کے لوگ ہمیں رونے والی قوم و ملت کہیں اور اپنے روشن فکر لوگ شاید اس بات کو نہ سمجھ سکیں کہ اشک کے ایک  قطرے کا اتنا ثواب کیسے مل جاتا ہے؟ یہ گریہ ملتوں کو بیدار و متحد کرتا ہے۔ عزداری کا اثر و فائدہ ہے نہ فقط یہ کہ مجلس عزا برپا کر کے مجلس سن لی اور گریہ کر لیا۔ بلکہ عزداری کا وہ سیاسی پہلو مہم ہے کہ جس کے لیے ہمارے آئمہ(ع) نے اتنی تاکید کی ہے۔

صحیفه نور ج 13 ص 156.

 

2 – امت اور عملی نمونے کے درمیان عمیق جذباتی رابطہ:

عزداری اک قسم کا امام حسین علیہ السلام سے احساساتی و جذباتی رابطہ ہے اور ہر ظالم و ستم گر کے خلاف اعلان احتجاج ہے۔

بقول استاد شہید مطہری: شہید پر گریہ کرنا، اس کے انقلاب میں اسکے ساتھ شریک ہونا ہے۔

یعنی ان مجالس میں جو روحانی و باطنی تبدیلی آتی ہے وہ معاشرے میں بھی تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور یہی تبدیلی اس امام مظلوم کے انقلاب و پیغام کو حفظ کرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔

جیسے امام خمینی(رح) فرماتے ہیں کہ:

آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ سب محرم و عاشورا کی وجہ سے ہے۔ انقلاب اسلامی ایران و 8 سال اس انقلاب کا دفاع سب کا مستقیم عزداری اور مجالس سے رابطہ ہے۔ چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ شیعوں نے اسی عزداری و مجالس سے ہی ظالموں کے مقابلے پر اپنی شناخت و وجود کو حفظ کیا ہے۔  

 

3 – وسیع سطح پر مجالس کا برپا کرنا اور عام لوگوں کا دین حقیقی سے آشنا ہونا۔

یہ بات سب پر واضح ہے کہ ہر سال اسی مجالس عزاداری کی وجہ سے نہ فقط شیعہ بلکہ دوسرے مذاہب کے افراد بھی اسلام، کربلا اور امام حسین علیہ السلام سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی آشنائی باعث بنتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور کربلا چودہ سو سال گزرنے کے با وجود آج بھی زندہ ہیں۔ بس اس بات کی ضرورت ہے کہ مجالس عزداری کی کثرت کے ساتھ ان کی علمی و معرفتی حالت کو بھی مزید بہتر بنایا جائے۔

 

4 – تجلی روح و تزکیہ نفس

امام حسین علیہ السلام اور انکے با وفا اصحاب کے مصائب پر گریہ کرنے سے انسان کی روح میں اک نور و اس کے نفس میں اک خاص قسم کا آرام و سکون پیدا ہوتا ہے کہ یہی نور و آرام اس انسان کی روحانی و باطنی اصلاح و ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اس اصلاح روحانی سے انسان زیادہ سے زیادہ خداوند کے قریب ہوتا ہے۔ گویا یہ گریہ و عزاداری ہے کہ انسان کو خداوند کے قریب کرتے ہیں۔

شیعہ کی تاریخ ان عملی تبدیلوں سے بھری پڑی ہے اور اس بات پر ہر با ضمیر شہادت و گواہی دیتا ہے۔

 

5 - اعلان وفاداری نسبت به مظلوم و مخالفت با ظالم:

امام حسین علیہ السلام کے روز عاشورا کے فرمان کی روشنی میں کہ:

فإنّی لا أری الموت إلا سعادة ولا الحیاة مع الظالمین إلا برماً۔

تحف العقول ص 245،

شرح الأخبار للقاضی النعمان المغربی ج 3 ص 150،

مناقب ابن شهر آشوب ج 3 ص 224،

بحار الأنوار ج 44 ص 192.

ہر با ضمیر انسان اس شعار کی روشنی میں اک طرف امام مظلوم سے اعلان وفا داری کرتا ہے کہ کسی بھی ظالم  کے سامنے سر تسلیم نہیں کرے گا اور ہمیشہ امام(ع) و حق کے ساتھ رہے گا۔ یہی اعلان وفا داری قوم و ملت کو دشمنان اسلام و تشیع کے سامنے قوت اور طاقت دیتا ہے۔ تو دوسری طرف اپنی نفرت اور بیزاری کا خود بنی امیہ اور پیروان بنی امیہ، اظھار کرتا ہے۔ وہ بنی امیہ کہ جہنوں نے رسول خدا (ص) سے جعلی احادیث نقل کیں ہیں کہ ہر طرح کے حاکم کے  خلاف قیام حرام ہے ۔ بنی امیہ اس طرح کی احادیث خود بنا کر لوگوں کے درمیان منتشر کرتے تھے۔ 

جیسے عمر ابن خطّاب سے روایت کرتے ہیں کہ:

فأطع الإمام وإن کان عبداً حبشیّاً، إن ضربک فاصبر، وإن أمرک بأمر فاصبر، وإن حرَمَک فاصبر، وإن ظلمک فاصبر، وإن أمرک بأمر ینقص دینک فقل: سمع وطاعة، دمی دون دینی.

سنن البیهقی: 159/8، المصنف لابن أبی شیبة: 737/7، کنزالعمال: 778/5، الدر المنثور: 177/2.

خلیفہ و حاکم کی پیروی کرو اگرچہ وہ سیاہ پوست حبشی ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ حاکم تم پر ستم ہی کیوں نہ  کرے، اگر غلط قسم کے حکم ہی کوں نہ دے، اگر تم کو تمہارے حق سے محروم ہی کیوں نہ کرے، اگر غیر شرعی حکم کہ جو دین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، بے چون و چرا تمہیں وہ حکم ماننا ہو گا اور دین کو قربان کرنا ہو گا نہ جان کو۔

اس روایت سے بھی ایک جھوٹی روایت کہ جسکی نسبت رسول خدا(ص) سے دیتے ہیں کہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ:

یکون بعدی أئمة لا یهتدون بهدای ولا یستنون بسنتی، وسیقوم فیهم رجال قلوبهم قلوب الشیاطین فی جُثمان أنس. قلت: کیف أصنع یا رسول الله ! إن أدرکت ذلک؟ قال: تسمع وتطیع للأمیر وإن ضرب ظهرک وأخذ مالک فاسمع وأطع.

صحیح مسلم: 20/6، کتاب الأمارة باب الأمر بلزوم الجماعة ح 51.

میرے بعد ایسے خلفاء آئیں گے کہ میرے والی ھدایت انکے پاس نہیں ہو گی، نہ میری سنت پر عمل کرنے والے ہوں گئے۔ انکے دل شیطان کے دل کی طرح ہوں گے لیکن جسم و بدن انسانوں کی طرح ہوں گے۔

راوی نے اس موقع پر سوال کیا کہ اگر ہم اس زمانے میں زندہ ہوئے تو ہمیں کیا کرنا ہو گا؟

آپ(ص) نے فرمایا کہ: تمہارا کام بس ان کی پیروی کرنا ہے اگر وہ تم پر ظلم و ستم ہی کیوں نہ کریں اور تمہارے اموال کو غارت ہی کیوں نہ کریں۔ تمہارا کام بس بے چون و چرا انکی اتباع و اطاعت کرنا ہے۔

اس طرح کی جعلی روایات کی روشنی میں اہل سنت کے علماء اور فقھاء نے ہر طرح کے حاکم کے خلاف قیام کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔

نووی عالم بزرگ اہل سنت کہتا ہے کہ:

 وأمّا الخروج علیهم وقتالهم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین، وقد تظاهرت الأحادیث بمعنی ما ذکرته، وأجمع أهل السنة أنه لا ینعزل السلطان بالفسق.

شرح مسلم للنووی: 229/12.

حاکم کے خلاف قیام و جنگ کرنا اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ کام حرام ہے اگرچہ وہ حاکم ظالم و فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ اسلامی معاشرے کا حاکم فسق و فجور کرنے کے با وجود بھی اپنے عھدے و مقام سے منعزل نہیں ہو گا۔

وهکذا عن التفتازانی فی شرح المقاصد والقاضی الإیجی فی المواقف.

شرح المقاصد ج 2، ص71؛ المواقف: 349/8.

بالکل اسی طرح کا قول کتاب شرح المقاصد میں تفتازانی اور کتاب المواقف میں ایجی کا ذکر ہوا ہے۔

کتنا فرق ہے اک ملت کے علماء اس طرح کہتے ہیں:

فأطع الإمام... إن ضربک فاصبر، وإن أمرک بأمر فاصبر، وإن حرَمَک فاصبر، وإن ظلمک فاصبر، وإن أمرک بأمر ینقص دینک فقل: سمع وطاعة، دمی دون دینی.

اور دوسری ملت کے امام و پیشوا اس طرح کہتے ہیں:

من رأی سلطانا جائرا... یعمل فی عباد الله بالاثم والعدوان ثمّ لم یغیّر بقول ولا فعل، کان حقیقاً علی الله أن یدخله مدخله.

تاریخ الطبری ج4، ص 304، باب: ذکر اسماء من قتل من بنی هاشم مع الحسین علیه السلام و عدد من قتل من کل قبیلة من القبائل التی قاتلته

الکامل فی التاریخ - ابن أثیر جزری - ج 4، ص 48، باب: مقتل الحسین رضی الله عنه،

بحار الأنوار ج 44، ص 382، باب: ما جری علیه بعد بیعة الناس لیزید إلی شهادته.

 جو بھی ظالم حکمران کو دیکھے کہ مسلمانوں کے درمیان گناہ، حق کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کر رہا ہے تو یہ انسان اپنے قول و فعل کے ساتھ اس پر اعتراض و احتجاج نہ کرے تو خداوند کے لیے مناسب ہے کہ ایسے انسان کو اس ظالم حکمران کے ایک ہی جگہ پر محشور کرے 

 

6 - امت اسلامی کے درمیان وحدت اور اتفاق:

عزاداری و گریہ بر سید الشھداء کی برکت سے امت اسلامی کے مختلف فرقوں کے درمیان ایک وحدت و اتحاد کی فضا معاشرے میں ایجاد ہوتی ہے کہ یہ فضا مجالس میں کہ جو امام بار گاہوں اور مساجد میں برپا ہوتی ہیں، حاضر ہونے سے ایجاد ہوتی ہے کیونکہ ان مجالس میں معارف نورانی اسلام بیان ہوتے ہیں ۔ جنکی وجہ سے دلوں سے نفرتیں و کدورتیں ختم ہوتی ہیں اور دل آپس میں نزدیک ہوتے ہیں ۔ یہ عزداداری کا سب سے بڑا اور مہم فائدہ و اثر ہے۔

امام خمینی(رح) فرماتے ہیں کہ:

ہم سیاسی گریہ کرنے والی قوم ہیں کہ ہم اپنے انہی اشکوں سے ایک سیلاب لے کر آیئں گئے اور اسلام کے راستے میں آنے والی ہر قسم کی رکاوٹ کو اپنے اشکوں سے بہا لے جایئں گئے ۔ یہی اشک و عزاداری ہیں کہ انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں۔

صحیفه نور ج 13 ص 156، 157

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:

سارے امام حسین علیہ السلام کے مصائب کا ذکر اور ان مصائب پر گریہ  کریں ۔ کیا امت اسلامی میں اس سے بڑھ کر بھی کوئی چیز مشترک ہو سکتی ہے؟ یہ اتحاد فقط و فقط امام حسین علیہ السلام کے وجود کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے ۔ بس اے مسلمانو اس اتحاد کی فضا اور اس عزاداری کو ہاتھوں سے جانے نہ دو۔

 صحیفه نور ج 10 ص 217.

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 10:27