پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

پیام کربلا

میں موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی کو اذیت سمجھتا ہوں (سید الشھداء)

بایگانی

۳۵ مطلب در سپتامبر ۲۰۱۷ ثبت شده است


مقام حضرت امام حسین (ع) اور اہل سنت والجماعت

 

محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔

 

سید محمد رضوی
محرم وہ مہینہ ہے جس میں حق وباطل کی وہ تاریخی جنگ لڑی گئی جو رہتی دنیا تک آزادی وحریت کے متوالوں کے لئے ظلم وجبر سے مقابلے کی راہ دکھاتی رہے گی۔

حقیت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی

حق وباطل کے اس معرکے میں ایک طرف فرزند رسول جگر گوشہ بتول (ع)حضرت امام حسین (ع)تھے ،تو دوسری طرف ظالم وجابر اور فاسق وفاجر حکمراں یزید پلیدتھا ۔حضرت امام حسین (ع) نے یزید کے خلاف علم جہاد اس لئے بلند کیا کہ اس نے بیت اللہ الحرام اور روضۂ نبوی کی حرمت کو پامال کرنے کے علاوہ اسلام کی زریں تعلیمات کا تمسخر اڑاتے ہوئے ہر قسم کی براوئیوں کوفروغ دیا ،اورایک بار پر دور جاہلیت کے باطل اقدارکو زندہ کر کے اس دین مبین اسلام کو مسخ کرنے کی کوشش کی ،جس کی خاطر پیغمبر اکرم نے 23برس تک اذیت وتکلیف برداشت کی تھی ۔ حضرت امام حسین دین اسلام کے وہ محافظ ہیں جنہوں نے اپنے خون مطہر ہ سے اسلام کے درخت کی آبیاری کی ،اسی لئے ایک معاصر عربی ادیب نے کہا ہے:اسلام قیام کے لحاظ سے محمدی ہے اور بقا کے اعتبار سے حسینی مذہب ہے۔ آج ہم اپنے اس پروگرام میں احادیث رسول وسنت نبوی کی روشنی میں اہل سنت کے معتبر ماخذ سے حضرت امام حسین کے اعلی مقام ومنزلت پرروشنی ڈالیں گے۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں ایک حدیث نقل کی ہے جس کو ان کے علاوہ دیگر اکابرین اہل سنت من جملہ ، ابن ماجہ ، ابو بکر سیوطی ۔ترمزی ، ابن حجر ، حاکم ، ابن عساکر ، ابن اثیر ، حموینی ، نسائی وغیرہ نے بھی مستند حوالوں کے ساتھ حضور اکرم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :الحسن ولحسین سیدا شبا ب اہل الجنۃ’’ حسن وحسین جوانان جنت کے سردار ہیں۔

اس حدیث کے راویوں میں حضرت علی کے علاوہ اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں ،جن میں حضرت عمر وابو بکر ، ابن مسعود ، حذیفہ ، جابر بن عبداللہ ، عبد اللہ بن عمر ، قرہ ، مالک بن الحویرث بریدہ ، ابو سعید خذری ، ابوہریرہ ، انس ، اسامہ اور براء قابل ذکر ہیں۔
حضرت امام حسین کے بارے میں پیغمبر اکرم کی ایک اور مشہور حدیث ہے:

’’حسین منی وانا من حسین ‘‘(حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں)

اس حدیث میں آپ کے ساتھ امام حسین کے خونی رشتے کے علاوہ دونوں بستیوں کے روحانی اور معنوی روابط کی صراحت ملتی ہے، جس کی تعبیر یہ ہے کہ دین اسلام جس کی بنیا د رسول خدا د نے رکھی تھی ، اس کا تحفظ حضرت امام حسین نے کیا۔ اس حدیث کو شیعہ مآخذ کے علاوہ تواتر کے ساتھ سنی مآخذ میں بیان کیاگیا ہے ،اور بعض مآخذ میں اس جملے کے ساتھ دیگر جملے بھی نقل کئے گئے ہیں ،جن میں حضرت امام حسین کے ساتھ حضور اکرم ﷺکی شدید محبت کا اظہار ہوتا ہے ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ ’’جس نے حسین سے محبت کی ،اس نے اللہ سے محبت کی ‘‘نیز فرمایا ہے:خدایا جس نے ان دونوں حسنین سے دشمنی کی میں بھی اس کا دشمن ہوں، بعض سنی مآخذ میں ایسے الفاظ بھی اس حدیث کے ساتھ نقل کئے گئے ہیں۔ جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور ان لوگوں سے صلح وآشتی چاہتے ہیں جو حضرات حسنین کریمین کے ساتھ امن وسلامتی سے رہیں ،اور ان کے ساتھ آپ نے جنگ کا اعلان کیا ہے ،جو حسنین کے ساتھ جنگ وجدال کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔‘‘حسین مجھ سے ہے ،اور میں حسین سے ہوں‘‘والی حدیث کو نقل کرنے والے سنی اکابرین میں ابن ماجہ ، ترمزی ، ابوہریرہ ، نسائی ، ابن اثیر ، سیوطی ، امام احمد بن حنبل اور طبر ی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ حضرت امام حسین کی عظمت اور پیغمبر اکرم کی ان سے فرط محبت کا اندازہ ابو ہریرہ کی اس روایت سے بھی کر سکتے ہیں۔ ابن عبد البر قرطبی نے ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:’’میںنے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور اپنے کانوں سے سنا ہے ،کہ پیغمبر اکرم امام حسین کے دونوں ہاتھوں کو تھامے ہوئے تھے۔ اور امام حسین کے دونوں پاؤں پیغمبر اکرم کے پاؤںپرتھے ، آپ نے فرمایا :اوپر آمیر ا بیٹا، امام حسین اوپر چلے گئے ،اور آپ نے سینہ پیغمبر پر پاؤں رکھا ، اس وقت آپ نے فرمایا :حسین منہ کھولو ، اس کے بعد حضور نے امام نے حسین کو چوما اورفرمایا :پروردگار اس سے محبت کر ، اس لئے کہ میں اس کو چاہتا ہوں، اہل سنت کے مآخذ اور مشہور سنی محدثین ومؤ رخین کی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حسنین سے دوستی مومنین پر فرض ہے اوران سے محبت کے بغیر کسی سخص کا ایمان کامل نہیں ہوتا، اور ان سے مقابلہ کرنے والا یا بغض رکھنے والا ان مآخذ کی روشنی میں خدا اور رسول خدا کا دشمن قرار پاتا ہے۔ ترمزی ، ابن ماجہ ، ابن حضر ، امام احمد بن حنبل ، حاکم ، ابوبکر سیوطی ، ابو سعید خدری ، سبط ان الجوزی ، عباس خلیفہ ہارون الرشید ، مؤ رخ طبری حضرات وغیرہ نے عبداللہ بن عمر ،یعلی بن مرہ ، سلمان فارسی وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حوالے سے ایسی احادیث نقل کی ہیں ،جن کا مفہوم یہ ہے کہ حضور نے ان لوگوں سے محبت ودوستی کا اظہار فرمایا ہے جو حسنین کریمین سے محبت ودوستی رکھتے ہیں ،اور ان لوگوںکے ساتھ نفرت وعناد کا اعلان فرمایا ہے ،جو امام حسن وامام حسین سے دشمنی رکھتے اور بغض کا اظہار کرتے ہیں۔ نیز ان احادیث میںان لوگوں کے لئے جنت نعیم کی بشارت دی گئی ہے جو حسنین سے محبت کرتے ہیں ،اور ان لوگوں کے جہنم واصل ہونے کی خبر دی گئی ہے جو ان دونوں سے بغض وعناد رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سے بعض حوالوں میں حضرت حسین کے ماں باپ کا بھی ذکر ہے اور یہ ارشاد نبوی نقل کیا گیاہے کہ ’’جس نے مجھ سے محبت کی اور ان دونوں (حسنین )اور ان کے ماں باپ سے محبت کی ، وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے برابر مقام پائے گا۔ ‘‘ان مفاہیم کی حامل احادیث میں ایک وہ حدیث بھی شامل ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عمر ہیں اور اس کوابن عبد البر ، ابو حاتم اور محب طبری نے روایت کی ہے ۔ حدیث میںکہا گیا ہے کہ حضور نے امام حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:

من احبنی فلیحب ہذین(جس نے مجھ سے محبت کی، اسکو چاہئے کہ ان دونوں سے بھی محبت کرے)

مذکورہ احادیث نبوی کی روشنی میںیہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اہل بیت رسول کے ساتھ دشمنی رسول خدا کے ساتھ دشمنی کے متردف ہے ،اور ان سے محبت کا مطلب خدا ورسو ل سے چاہت کا اظہار ہے۔ ان احادیث کے مفاہیم کوایمان کے اصول وشرائط کے تحت پرکھنا چاہئے ،کیوںکہ تکمیل ایمان کی شرط عشق رسول ہے، جس کے بغیر مسلمان اخروی فلاح نہیں پا سکتا چنانچہ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 11:14

رسول خدا (ص) کا امام حسین (ع) کے غم میں گریہ کرنا۔ اہلِ سنت روایات

 

حاکم نیشاپوری اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں لکھتا ہے کہ

( أخبرنا) أبو عبد الله محمد بن علی الجوهری ببغداد ثنا أبو الأحوص محمد بن الهیثم القاضی ثنا محمد بن مصعب ثنا الأوزاعی عن أبی عمار شداد بن عبد الله عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ أَنَّهَا دَخَلَتْ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّهِ رَأَیْتُ اللَّیْلَةَ حُلْماً مُنْکَراً قَالَ وَ مَا هُوَ قَالَتْ إِنَّهُ شَدِیدٌ قَالَ مَا هُوَ قَالَتْ رَأَیْتُ کَأَنَّ قِطْعَةً مِنْ جَسَدِکَ قُطِعَتْ وَ وُضِعَتْ فِی حَجْرِی فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) خَیْراً رَأَیْتِ تَلِدُ فَاطِمَةُ غُلَاماً فَیَکُونُ فِی حَجْرِکِ فَوَلَدَتْ فَاطِمَةُ الْحُسَیْنَ(علیه السلام) فَقَالَتْ وَ کَانَ فِی حَجْرِی کَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) فَدَخَلْتُ بِهِ یَوْماً عَلَی النَّبِیِّ ص فَوَضَعْتُهُ فِی حَجْرِهِ ثُمَّ حَانَتْ مِنِّی الْتِفَاتَةٌ فَإِذَا عَیْنَا رَسُولِ اللَّهِ(صلی الله علیه وآله وسلم) تُهْرَاقَانِ بِالدُّمُوعِ فَقُلْتُ بِأَبِی أَنْتَ وَ أُمِّی یَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَکَ قَالَ أَتَانِی جَبْرَئِیلُ(علیه السلام) فَأَخْبَرَنِی أَنَّ أُمَّتِی سَتَقْتُلُ ابْنِی هَذَا وَ أَتَانِی بِتُرْبَةٍ مِنْ تُرْبَتِهِ حَمْرَاء.

المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 3، ص 176 – 177 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 196 – 197 و البدایة والنهایة، ابن کثیر، ج 6، ص 258 و.

ام الفضل حارث کی بیٹی ایک دن حضور رسول خدا(صلی الله علیه و آله و سلم) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہا کہ کل رات میں نے ایک خطر ناک خواب دیکھا ہے ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ کیا خواب دیکھا ہے ؟ کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا آپ کے بدن سے الگ ہو کر میری گود میں آ گرا ہے۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ تم نے بہت اچھا خواب دیکھا ہے ۔

بہت جلد فاطمه(علیها السلام) کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا اور وہ بچہ تمہاری گود میں آئے گا۔ کہتی ہے کہ جب حسین(ع) دنیا میں آئے تو میں نے انکو اپنی گود میں اٹھایا۔

ایک دن میں حسین|(ع) کو گود میں اٹھائے رسول خدا(ص) کے پاس گئی ۔ وہ حسین(ع) کو دیکھتے ہی اشک بہانے لگے۔ میں نے کہا  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہو جائیں، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ابھی جبرائیل مجھ پر نازل ہوا ہے اور اس نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے اس بیٹے کو میرے بعد جلدی شھید کر دے گی پھر اس نے مجھے شھادت والی جگہ کی خاک بھی دکھائی اور دی ہے۔

حاکم نیشابوری اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

هذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.

اور ایک دوسری جگہ پر لکھتا ہے کہ:

أخبرناه أبو الحسین علی بن عبد الرحمن الشیبانی بالکوفة ثنا أحمد بن حازم الغفاری ثنا خالد بن مخلد القطوانی قال حدثنی موسی بن یعقوب الزمعی أخبرنی هاشم بن هاشم بن عتبة بن أبی وقاص عن عبد الله بن وهب بن زمعة قال أخبرتنی أم سلمة رضی الله عنها ان رسول الله صلی الله علیه وآله اضطجع ذات لیلة للنوم فاستیقظ وهو حائر ثم اضطجع فرقد ثم استیقظ وهو حائر دون ما رأیت به المرة الأولی ثم اضطجع فاستیقظ وفی یده تربة حمراء یقبلها فقلت ما هذه التربة یا رسول الله قال أخبرنی جبریل(علیه الصلاة والسلام) ان هذا یقتل بأرض العراق للحسین فقلت لجبریل أرنی تربة الأرض التی یقتل بها فهذه تربتها هذ حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاه.

المستدرک، الحاکم النیسابوری، ج 4، ص 398.

عبد الله بن زمعه کہتا ہے کہ: ام سلمہ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک دن رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سو رہے تھے کہ اچانک پریشانی کی حالت میں بیدار ہو ئے، پھر دوبارہ سو گئے اور دوبارہ بیدار ہوئے تو ان کے ہاتھ میں سرخ رنگ کی خاک تھی جس کو وہ سونگھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ یہ کونسی خاک ہے ؟ فرمایا کہ جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ حسین(ع) کو عراق میں شھید کر دیا جائے گا اور یہ اسی سر زمین کی خاک ہے جہاں پر حسین(ع) کو شھید کیا جائے گا۔ اس پر میں نے جبرائیل سے چاہا کہ اس سر زمین کی خاک مجھے دکھائے ۔ یہ خاک وہی خاک ہے جو اب میرے ہاتھ میں ہے۔

حاکم نیشابوری کہتا ہے:یہ حدیث بخاری و مسلم کے مطابق بھی صحیح ہے، لیکن انھوں نے اپنی اپنی کتاب میں اس حدیث کو نقل نہیں کیا۔

طبرانی نے معجم کبیر، هیثمی نے مجمع الزوائد اور متقی هندی نے کنز العمال میں بھی اس روایت کو ذکر کیا ہے:

وعن أم سلمة قالت کان رسول الله صلی الله علیه وسلم جالسا ذات یوم فی بیتی قال لا یدخل علی أحد فانتظرت فدخل الحسین فسمعت نشیج رسول الله صلی الله علیه وسلم یبکی فأطلت فإذا حسین فی حجره والنبی صلی الله علیه وسلم یمسح جبینه وهو یبکی فقلت والله ما علمت حین دخل فقال إن جبریل علیه السلام کان معنا فی البیت قال أفتحبه قلت أما فی الدنیا فنعم قال إن أمتک ستقتل هذا بأرض یقال لها کربلاء فتناول جبریل من تربتها فأراها النبی صلی الله علیه وسلم فلما أحیط بحسین حین قتل قال ما اسم هذه الأرض قالوا کربلاء فقال صدق الله ورسوله کرب وبلاء، وفی روایة صدق رسول الله صلی الله علیه وسلم أرض کرب وبلاء.

المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 23، ص 289 – 290 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 188 – 189 و کنز العمال، المتقی الهندی، ج 13، ص 656 – 657 و….

ام سلمه کہتی ہے کہ رسول خدا(ص) نے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے پاس آنے کی اجازت نہ دینا۔ تھوڑی دیر بعد حیسن(ع) آئے اور اصرار کر کے رسول خدا(ص) کے کمرے میں چلے گئے اور ان کی کمر مبارک پر بیٹھ گئے ۔ رسول خدا(ص) نے حسین(ع) کے بوسے لینا شروع کر دیا۔ اس پر فرشتے نے رسول خدا(ص) سے کہا کہ کیا آپ اس سے محبت کرتے ہیں ؟ حضرت نے فرمایا: ہاں ۔ فرشتے نے کہا کہ آپ کے بعد آپکی امت اس کو شھید کرے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں آپکو شھادت کی جگہ بھی دکھا سکتا ہوں ۔ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ ہاں دکھا‍‍‌‌ؤ ۔ پھر فرشتہ رسول خدا(ص) کو ایک سرخ رنگ کی خاک کی ڈھیری کے پاس لایا ۔

ام سلمه کہتی ہے کہ: پھر فرشتے نے تھوڑی سی خاک رسول خدا(ص) کو دکھائی۔

جب دشمن کے لشکر نے امام حسین(ع) کو محاصرے میں لیا ہوا تھا اور وہ امام حسین(ع) کو شھید کرنا چاہتے تھے تو امام نے ان سے پوچھا کہ اس سر زمین کا کیا نام ہے ؟ انھوں نے کہا کہ اس کا نام کربلاء ہے۔ امام حسین علیه السلام نے فرمایا کہ رسول اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے سچ فرمایا تھا کہ یہ زمین کرب و بلا ہے۔

هیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے کہ:

رواه الطبرانی بأسانید ورجال أحدها ثقات.

اسی طرح، هیثمی مجمع الزوائد میں ، ابن عساکر تاریخ مدینه دمشق میں، مزّی تهذیب الکمال میں  اور ابن حجر عسقلانی  تهذیب التهذیب میں لکھتے ہیں کہ:

عن أم سلمة قالت کان الحسن والحسین یلعبان بین یدی رسول الله صلی الله علیه وسلم فی بیتی فنزل جبریل فقال یا محمد إن أمتک تقتل ابنک هذا من بعدک وأومأ بیده إلی الحسین فبکی رسول الله صلی الله علیه وسلم وضمه إلی صدره ثم قال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة ودیعة عندک هذه التربة فشمها رسول الله صلی الله علیه وسلم وقال ویح وکرب وبلاء قالت وقال رسول الله صلی الله علیه وسلم یا أم سلمة إذا تحولت هذه التربة دما فاعلمی أن ابنی قد قتل قال فجعلتها أم سلمة فی قارورة ثم جعلت تنظر إلیها کل یوم وتقول إن یوما تحولین دما لیوم عظیم.

تهذیب التهذیب، ابن حجر، ج 2، ص 300 – 301 و تهذیب الکمال، المزی، ج 6، ص 408 – 409 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 192 – 193 و ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 252 – 253 و مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و

ام سلمه سے روایت ہوئی ہے کہ:

امام حسن و حسین علیهما السّلام میرے گھر میں اور رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کے سامنے کھیل رہے تھے کہ اسی وقت جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد(ص) آپ کی رحلت کے بعد آپ کی امت آپکے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی۔  رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے  گریہ کیا اور حسین علیه السلام کو سینے سے لگا لیا۔

پھر رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے وہ خاک جو جبرائیل نے رسول خدا(ص) کو دی تھی، اپنے ہاتھ میں لیا سونگھا اور فرمایا کہ اس خاک سے کرب و بلا کی بو آ رہی  ہے۔ پھر اس خاک کو ام سلمہ کو دیا اور فرمایا کہ اے ام سلمہ اس کا خیال رکھنا اور جب یہ خاک خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین(ع) شھید ہو گیا ہے۔

ام سلمه نے خاک کو ایک شیشی میں رکھ دیا اور ہر روز اس کو دیکھا کرتی تھی اور خاک سے کہتی تھی کہ اے خاک جس دن تو خون میں تبدیل ہو جائے گی وہ دن بہت غم و عزا والا ہو گا۔

ابن حجر عسقلانی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے:

و فی الباب عن عائشة و زینب بنت جحش و أم الفضل بنت الحارث و أبی أمامة و أنس بن الحارث و غیرهم.

اس بارے میں  روایات عایشه، زینب بنت جحش، ام فضل دختر حارث، ابو امامه، انس بن حارث اور دوسروں سے بھی نقل ہوئی ہیں۔

اسی طرح هیثمی ایک دوسری روایت نقل کرتا ہے کہ:

عن أبی أمامة قال قال رسول الله صلی الله علیه وسلم لنسائه لا تبکوا هذا الصبی یعنی حسینا قال وکان یوم أم سلمة فنزل جبریل فدخل رسول الله صلی الله علیه وسلم الداخل وقال لام سلمة لا تدعی أحدا أن یدخل علی فجاء الحسین فلما نظر إلی النبی صلی الله علیه وسلم فی البیت أراد أن یدخل فأخذته أم سلمة فاحتضنته وجعلت تناغیه وتسکنه فلما اشتد فی البکاء خلت عنه فدخل حتی جلس فی حجر النبی صلی الله علیه وسلم فقال جبریل للنبی صلی الله علیه وسلم إن أمتک ستقتل ابنک هذا فقال النبی صلی الله علیه وسلم یقتلونه وهم مؤمنون بی قال نعم یقتلونه فتناول جبریل تربة فقال بمکان کذا وکذا فخرج رسول الله صلی الله علیه وسلم قد احتضن حسینا کاسف البال مغموما فظنت أم سلمة أنه غضب من دخول الصبی علیه فقالت یا نبی الله جعلت لک الفداء انک قلت لنا لا تبکوا هذا الصبی وأمرتنی ان لا أدع أحدا یدخل علیک فجاء فخلیت عنه فلم یرد علیها فخرج إلی أصحابه وهم جلوس فقال إن أمتی یقتلون هذا.

مجمع الزوائد، الهیثمی، ج 9، ص 189 و المعجم الکبیر، الطبرانی، ج 8، ص 285 – 286 و تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ج 14، ص 190 – 191 و ترجمة الإمام الحسین(ع)، ابن عساکر، ص 245 – 246 و….

ابو امامه سے روایت نقل ہوئی ہے کہ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے اپنی بیویوں سے کہا کہ اس بچے(حسین ع) کو نہ رلایا کرو ۔ اس دن کے رسول خدا(ص) ام سلمہ کے گھر تھے کہ جبرائیل نازل ہوا ۔ حضرت رسول صلّی اللّه علیه و آلهنے کہا کہ اے ام سلمہ کسی کو میرے کمرے میں  آنے کی اجازت نہ دینا۔ حسین علیه السلام آئے جونہی اپنے نانا کو دیکھا تو چاھا کہ کمرے میں داخل ہوں۔ ام سلمہ نے حسین(ع) کو اپنے سینے سے لگایا تو حسین(ع) نے رونا شروع کر دیا اس نے بہت کوشش کی لیکن حسین(ع) کا گریہ بڑھتا گیا اور اسی گرئیے کی حالت میں رسول خدا کے کمرے میں چلے گئے اور جا کر اپنے نانا کی گود میں بیٹھ گئے۔

جبرئیل نے رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو خبر دی کہ آپ کے بعد آپکی امت آپکے بیٹے کو شھید کرے گی۔ رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله نے جبرائیل کی اس بات پر تعجب کیا اور کہا کہ کیا میری امت ایمان کی حالت میں میرے بیٹے کو شھید کرے گی۔ جبرائیل نے کہا ہاں وہ ایمان کا دعوی کرنے والی امت ہو گی لیکن پھر بھی اپنے رسول کے بیٹے کو  بھوکا پیاسا شھید کر دے گی۔

جبرئیل نے زمین کربلاء کی خاک رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله کو دی اور کہا کہ یہ خاک اسی زمین کی ہے کہ جس پر آپکے بیٹے کو شھید کیا جائے گا۔

رسول خدا صلّی اللّه علیه و آله غم کی حالت میں حسین علیه السلام کو اٹھائے ہوئے گھر سے باہر چلے گئے۔

ام سلمہ کہتی ہے کہ میں نے گمان کیا کہ شاید حسین(ع) کو رسول خدا(ص) کے کمرے میں جانے دیا ہے اس لیے وہ ناراض ہو گئے ہیں۔ اسی لیے میں نے کہا اے اللہ کے رسول(ص) میری جان آپ پر قربان ہو آپ نے خود ہی کہا تھا کہ حسین(ع) کو رونے نہ دینا اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ کسی کو کمرے میں میں نہ آنے دینا میں بھی مجبور تھی کیا کرتی حسین(ع) بھی خود ہی کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ پیغمبر اکرم صلّی اللّه علیه و آله نے ام سلمہ کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اصحاب کے پاس چلے گئے۔ اصحاب ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ رسول خدا(ص) نے ان سے کہا کہ میری امت میرے اس بیٹے حسین(ع) کو شھید کرے گی اور زور زور سے رونا شروع کر دیا۔


ترمذی شریف کی عبارت ملاحظہ ہو

عن سلمیٰ قالت دخلت علی ام سلمة وھی تبکی فقلت ما تبکیک قالت رأیت رسول اللہ تعنی فی المنام وعلی راسہ ولحیتہ التراب فقلت مالک یا رسول اللہ قال شھدت قتل الحسین انفاً.(١)

ترجمہ۔؛ سلمیٰ کہتی ہیں کہ میں حضرت ام سلمہ کے پاس گئی تو ان کو روتے ہوئے دیکھا میں نے پوچھاآپ کیوں رو رہی ہیں فرمایا میں نے سرور کائنات کو خواب میں دیکھا ہے کہ آپ کے سراور ریش مبارک پر خاک پڑی ہے تو پوچھا یا حضرتۖ آپ خاک آلود کیوں ہیں تو فرمایا: میں ابھی حسین کی شہادت کا منظر دیکھ رہا تھا ۔(۱) 

ملاحظہ ہوں اہل اسنت کی معتبر کتابیں:

(۱)سنن ترمذی جلد٢ ص٢٤١

(۲)مشکوٰة شریف باب مناقب اہل بیت علیہم السلام ج٣،ص٢٧٦

(۳)صواعق محرقہ ص١٩٣ طبع مصر

(۴)ینابیع المودة ص٣٢٠ باب ٦٠

(۵)تاریخ دمشق ابن عساکر ص٢٦٣ حصہ ذکر امام حسین

(۶)تذکر ة الخواص ص٢٦٨

(۷)تاریخ الخلفاء سیوطی ص ٢٠٨

(۸)کفایة الطالب علامہ گنجی ص٤٣٣            

مشکوة شریف مترجم با عناوین ج٣ ص٢٧٦ پر مذکور ہ روایت پر مترجم نے ایک عجیب حاشیہ لگایا ہے کہ یہ روایت قطعا غلط ہے اس لیے کہ تمام محدثین اورمؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت ام سلمہ، شھادت حسین (ع) سے دو سال قبل وفات پاچکی تھیں۔

اما الجواب : اہل سنت کی معتبر کتاب سیرت حلبیة (١) میں صریحا موجود ہے کہ ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات جبکہ وہ چوراسی سال کی تھیں یزیدبن معاویہ کی حکومت میں ہوئی تھی اور وہ جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔

(ج٣ ص٤١١ طبع دارالمعرفة بیروت)

اہل سنت کے معتبر مؤرخ علامہ ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء (ج٢ ص٢١٠ ) میں لکھتے ہیں کہ بعض نے گمان کیا ہے کہ حضرت ام سلمہ (رض) کی وفات   ٥٩ (انسٹھ) میں ہوئی ہے یہ بھی (انکا) وہم ہے ظاہریہ ہے کہ ان کی وفات ٦١ (اکسٹھ) میں ہوئی ہے والظاہروفاتھا فی سنة احدی و ستین رضی اللہ عنہا

نیز علامہ ذھبی نے اپنی کتاب تاریخ الاسلام میں ٦١ (اکسٹھ) کے حوادث میں ام المؤمنین حضرت ام سلمة (رض) کی وفات کا ذکر کیا ہے۔

نیز علامہ ذھبی اپنی کتاب سیر أعلام النبلاء (ج٢ ص٢٠٢) میں لکھتے ہیں کہ امہات المؤمنین میں سے سب سے آخر میں حضرت ام سلمہ (رض) نے وفات پائی حتی کہ جب حسین شہید کی شہادت کی خبر سنی تو وہ بے ہوش ہوگئیں اور ان پر بہت محزون ہوئیں ان کی شہادت کے بعد تھوڑا عرصہ زندہ رہیں اورپھر انتقال کر گئیں۔

وکانت آخر من مات من امھات المؤمنین عمّرت حتی بلغھا فقتل الحسین (ع) الشھید فو جمت لذلک و غش علیھا و حزنت علیہ کثیرا لم تلبث بعدہ الّا یسیراً۔

نیز اہل سنت کی معتبر کتاب مجمع الزوائد ج٩ ص٢٤٦ پر تصریح موجود ہے کہ جناب أم سلمہ (رض) نےیزید ابن معاویہ کے زمانہ میں   ٦٢ باسٹھ میں انتقال کیا ہے۔ اور اس کو محدث طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال ثقہ ہیں۔

مزیدتائید: حضرت ام سلمہ(رض) سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ میں نے حسین بن علی کی شہادت پر جنوں کا نوحہ سنا ہے اس کو طبرانی نےروایت کیا ہےاور اس روایت کے رجال صحیح ہیں ( مجمع الزوائد ج٩ ١٩٩)

اگر وہ شہادت امام حسین علیہ السلام سے پہلے فوت ہوگئی تھیں تو پھر انہوں نے امام مظلوم کی شہادت پرجنّات کا نوحہ کیسے سن لیا؟ حالانکہ جنّات کا نوحہ سننے والی روایت بھی صحیح ہے۔

خلاصہ: یہ کہ حضرت ام سلمہ کی وفات بقول ذھبی حکومت یزیدمیں ٦١ ہجری میں یا صحیح قول کے مطابق ٦٢ باسٹھ ہجری میں ہوئی ہے کما فی مجمع الزوائد بہر حال ان کی وفات امام حسین علیہ السلام کی شھادت کے بعد ہوئی ہے۔

پس مترجم مشکوة کا یہ دعوی کرنا کہ ان کی وفات شھادت حسین علیہ السلام سے دو سال قبل ہونے پر سب مورخین کا اتفاق ہے، یہ دعوی جہالت پر مبنی ، اورغلط ہے۔

نوٹ :نمبر١

ابن عباس سے بھی اسی مضمون کی روایت کتب میں پائی جاتی ہے (٢) تاریخ الخلفاء ص ٢٣٦ طبع مصر (٣) کفایة الطالب مناقب علی ابن ابی طالب ص ٤٣٨ ؛ الصواعق المحرقہ ص١٩٣.

جس گھر میں ترمذی شریف ہو گویا اس گھر میں نبی موجود ہیں .

ملاحظہ ہو اہل سنت کی معتبر کتاب اسماء الرجال مشکوٰة شریف ص١٨٤ :جس گھر میں یہ کتاب (ترمذی) موجود ہو پس یہ سمجھنا چاہئے کہ اس کے یہاں خود نبی موجود ہیں جو گفتگو فرمارہے ہیں ۔

نوٹ:نمبر٢

مذکورہ روایت سے ام سلمہ زوجہ رسول خدا ۖ کا مصیبت امام حسین کویاد کر کےرونا ثابت کرتاہے کہ مصیبت امام حسین میں رسول ۖ خدانے اپنے سر مبارک اورریش اقدس میں مٹی ڈالی ہے تو پھر مصیبت امام حسین میں رونا اورسر پر خاک ڈالنا بدعت نہیں ہے بلکہ عین سنت رسولۖ ہے۔


 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 11:04


 

حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ایسی عبادت ہے جسے انجام دینے میں بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور اس سے رضائے الہٰی حاصل ہوتی ہے ۔

 

معصومینؑ کے حضور سیدالشہداء کی عزاداری

خلاصہ

بلاشبہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری ایسی عبادت ہے جسے انجام دینے میں بہت زیادہ ثواب ملتا ہے اور اس سے رضائے الہٰی حاصل ہوتی ہے ۔ یہ وہ عبادت ہے جسے حضرات معصومین علیہم السلام بڑے اہتمام سے بجا لاتے تھے اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دشمنان اسلام نے اسے مٹانے،روکنے اور اس کے حقیقی چہرے کو مسخ کرنے میں اپنی پوری طاقت اور توانائی سے استفادہ کیا ہے اور اسی سبب سے عزاداری سید الشہداء کچھ حد تک تحولات کا شکار بھی رہی ہے۔تحریفات سے پاک و منزہ خالص عزاداری تک دسترسی کے لیے خود حضرات معصومین علیہم السلام کی اقتدا ہی بہترین راستہ ہوسکتا ہے۔ اس مقالہ میں کوشش کی گئی ہے کہ حدالمقدور حضرات معصومین علیہم السلام کے محضر میں سید الشہداء حضرت ابا عبداللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری سے متعلق منعقد ہونے والی مجالس اور ان مجالس کے انعقاد کے وہ ممکنہ اہداف بیان کیے جائیں جنہیں خود حضرات معصومین علیہم السلام نے بیان فرمایا ہے۔

مقدمہ

رونا اور ہسنان انسان کے وجودی عوارض میں سے ہیں یعنی انسان اپنے بہت سے روحی واندرونی حالات کا اظہار رونے اور ہنسنے سے ہی کرتا ہے اور یہ ایک فطری عمل ہے جوانسان میں فطرتاً موجود ہے انسان اپنے غم کا اظہار آنسو بہا کر اور خوشی کا اظہار مسکرا کر ہی کرتا ہے ۔خداوندمتعال نے بھی دین مبین اسلام کو بشری فطری تقاضوں کے مطابق ڈھالا ہے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب بھی اس قانون سے مستثنی نہیں تھے وہ بھی اپنے غموں کا اظہار آنسو بہا کر اور خوشی کا اظہار مسکرا کرہی کیا کرتے تھے جس کے متعدد شواہد تاریخی کتب میں ملتے ہیں ۔ہم بھی اسی بشری فطری عمل کے مطابق حضرات معصومین علیہم السلام کی محبت میں ان کی مظلومیت پر عزاداری کرتے ہیں جو ایک فطری عمل کا تقاضے کے عین مطابق ہے ۔لہٰذااس فطری عمل کے لیے کسی بھی دلیل کی ضرورت نہیں لیکن اس کےباوجود ہماری یہ عزاداری رسالتمآب کی ادائگی ِرسالت کاوہ حق ہے جسے ہم قرآن مجید کی آیت’’قُلْ لا أَسْئَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبى‘‘(۱) کے مطابق ادا کرتے ہیں چونکہ حقیقی محب اسے ہی کہا جاتا ہے جو اپنے محبوب کی خوشی میں خوش اور اس کے غم میں غمگین رہے۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بشر کی سرنوشت کے ساتھ وابستہ ہے۔ یعنی جب سے اولین بشر حضرت آدم علیہ السلام نے اس دنیا میں قدم رکھاہے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور عزاداری کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے اور یہ تذکرہ اسی طرح حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورتک جاری رہا۔انبیاء علیہم السلام کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی ہی خبر نہیں ملی بلکہ انہوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری بھی کی۔
ہم تین شعبان کے اعمال میں پڑھتے ہیں :’’اللهم إنی أسألک بحق هذا المولود فی هذا الیوم الموعود بشهادته قبل استهلاله و ولادته بکته ملائکة السماء و من فیها و الأرض و من علیها و لما یطأ لابتیها‘‘(
۲)اے میرے پروردگار آپ کو آج کے اس مولود کا واسطہ دے کر پکارتے ہیں جس کی شہادت کی خبر ان کی ولادت سے پہلے دی گئی تھی اور آسمان و زمین نے اپنے تمام مکینوں کے ساتھ ان پر عزاداری کی جبکہ ابھی اس نے اس زمین پر قدم بھی نہیں رکھا تھا۔
جی ہاں تمام انبیاء حضرت امام حسین علیہم السلام پر روئے اور ان کے قاتلوں پر لعنت کی؛اوربلاشبہ
۶۱ ہجری کو اپنے اصحاب و اقارب کے ساتھ دلخراش حالت میں شہادت پانے والےپیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تیسرے جانشین حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری شیعیان حیدر کرار کے ہاں اہم سنت ہے۔حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام نے اپنے پیروکاروں میں ایسی دائمی حرکت ایجاد کی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے:اِنّ الاسلامَ عَلوی، والتّشیّع حسینی(۳) اسلام علوی جبکہ شیعت حسینی ہے۔
جی ہاں!جب حضرت سیدالشہداء علیہ ‏السلام خون میں لت پت ذوالجناح سے نیچے تشریف لائےتو اس حالت میں اپنے ربّ سے اس طرح مناجات فرماتے ہیں:’’صبرا علی قضائک یا رب، لا إله سواک یا غیاث المستغیثین، ما لی رب سواک و لا معبود غیرک، صبرا علی حُلمک، یا غیاث من لا غیاث له، یا دائما لا نفاد له، یا محیی الموتی، یا قائما علی کل نفس بما کسبت، احکم بینی و بینهم و انت خیرالحاکمین‘‘(
۴)پروردگارا! تیری قضا کے سامنے صبر کرتا ہوں،تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اے بے پناہوں کی پناہگاہ!تیرے علاوہ میرا کوئی مالک نہیں اور تیرے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں ہے۔میں تیرے حکم اور فیصلہ پر صابر ہوں ؛اے بے کسوں کی فریاد سننے والے،اے خداجو دائمی و ابدی ہے اور مردوں کو زندہ کرتا ہے،اے سب جاننے والے شاہد اورمخلوقات کے تمام اعمال پر نظارت کرنے والے! تو خود میرے اور اس قوم کے درمیان قضاوت فرما بیشک توہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔
یہ فیصلہ الہٰی ہی ہے کہ جس حسین مظلوم نے اپنا سب کچھ حق متعال کی توحید کے احیاء کے لیے قربان کر دیا تھا اب’’هَلْ جَزاءُ الْإِحْسانِ إِلاَّ الْإِحْسان‘‘(
۵)کا تقاضا اسی میں ہے کہ جب تک توحید باقی ہے نام حسینؑ ابن علیؑ بھی باقی رہے۔ہماری اس تحقیق میں یہی کوشش رہے گی کہ اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ دیکھیں کہ خداوندمتعال نے اس احسان کی جزاء کس طرح دی۔لہٰذا ہم اس تحقیق کو درج ذیل پانچ فصلوں میں پیش کریں گے ۔
۔
۱۔ پہلی فصل:حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف
۔
۲۔ دوسری فصل:حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت سےپہلے آپ پر انبیاء کی عزاداری
۔
۳۔ تیسری فصل: حضرت امام حسین علیہ السلام ولادت کے بعد آپ پر عزاداری
۔
۴۔ چوتھی فصل: حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کے بعد آپ کی عزاداری
۔
۵۔ پانچویں فصل :حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اس قدر اہتمام سے منانے کی وجوہات

 پہلی فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف

حضرت امام حسین علیہ السلام کا مختصر تعارف

حضرت امام حسین علیہ السلام۳شعبان المعظم۴ہجری کو مدینہ منورہ میں متولد ہوئے،آپ کے والد بزرگوار سید الاوصیاء امیرالمؤمنین حضرت علی ابن ابیطالب علیہما السلام اور والدہ گرامی خاتون جنت،صدیقہ طاہرہ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور پیغمبر گرامی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے نانا تھے۔
آپ کی ولادت کے بعد جبرائیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں تشریف لائے اور حق متعال کا درودو سلام پہنچانے کے بعد عرض کی:اس مولود مبارک کا نام ہارون کے چھوٹے بیٹے’’شبیر‘‘کے نام گرامی پر رکھیں جو عربی میں ’’حسین‘‘کا معنی دیتا ہے اور اس اسم گزاری کی وجہ اس طرح سے بیان فرمائی کہ :علی ابن ابیطالب آپ کے لیے ہارون کی طرح سے ہیں یعنی جس طرح ہارون موسیٰ علیہ السلام کے جانشین تھے اسی طرح علی ابن ابیطالب آپ کے جانشین ہیں لہٰذا ہارون کے بیٹوں کے جو نام تھے آپ انہی ناموں کو اپنے فرزندوں کے لیے انتخاب فرمائیں۔
آپ چھ سال اور چند مہینے اپنے نانا کے ساتھ رہے اور تیس سال اپنے والد بزرگوار کے ہمرار رہے۔آپ کی شان و منزلت کے لیے آیت مباہلہ ہی کافی ہے جس میں آپ کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرزندجانا گیا ہے اور آیت تطہیر آپ کی عصمت کی گواہ ہے اس کے علاوہ بہت سی آیات آپ کی شان و منزلت کو بیان کرتی ہیں۔
آپ کی ولادت کی مبارک باد عرض کرنے کے لیے ملائکہ الہٰی عرش معلیٰ سے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میں تشریف لائے اور آپ کی خدمت میں کربلا کی مٹی پیش کرنے کے ساتھ تعزیت پیش کی۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا مفہوم

حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر رونا،رولانایا پھرعزاداری کا روپ دھار لینا سب عزاداری کے مفہوم میں شامل ہیں۔ان مفاہیم میں رونا اور رولانا دونوں واضح مفاہیم ہیں لیکن’’تباکی‘‘ کا مفہوم سے متعلق کچھ بحث جسے متعدد روایات میں بھی ذکر کیا گیا ہے اس کلمہ کے مصادیق میں سے؛ رونے والی شکل بنالینا،اپنے قیافہ کو سوگوار اور غمزدہ لوگوں کی طرح ڈھال لینا،رونے والا انداز اختیار کرلینا،غمزدہ افراد کی دلجوئی کے لیے غمزدہ شکل بنا لینا،ہر وہ فعل جس سے غمزدہ افراد اپنے غم کا اظہار کرتے ہوں اُن کے ساتھ اظہار ہمدری کے لیے وہ افعال انجام دیناخواہ سیاہ لباس کی شکل میں ہو،سبیل لگانے کی صورت میں ہو،نیاز تقسیم کرنے کی صورت میں ہویا پھر انتظامی اموروغیرہ سب اس مفہوم میں شامل ہیں۔ہم فقط دو احادیث کو تبرکا ذکر کرتے ہیں:
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ اَنْشَدَ فِی الحُسَینِ شِعرا فَتَباکی فَلَهُ الجَنة‘‘(
۶) جو بھی حسین علیہ السلام کے بارے میں شعر کہے اور غمزدہ روپ دھار لے وہ جنت کا مستحق ہے۔
حدیث قدسی کو نقل کرتے ہیں:’’ یَا مُوسَى!مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِیدِی فِی ذَلِکَ الزَّمَانِ بَکَى أَوْ تَبَاکَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ کَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِیهَا‘‘(
۷)اے موسیٰ!میرے بندوں میں سے جو بھی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزند کی شہادت کے زمانے میں اُن کی مظلومیت پر روئے یا رونے والی حالت اپناتے ہوئے محمد مصطفیٰ کو ان کے نواسے کا پرسہ دے وہ ہمیشہ جنت میں رہے گا۔ تباکی سے متعلق متعدد روایات دعاؤں،استغفار سے متعلق بھی ہیں جنہیں ہم اختصار کی مطلوبیت کی خاطر ذکر نہیں کرتے۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت

روایات میں ہر خوشی و غمی کی مناسبت پر حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت ،مجالس ،محافل اور ان کی عزاداری کی رغبت دلائی گئی ہے چونکہ اگر ذکر حسینؑ زندہ ہے تو اسلام اور توحید زندہ ہے اس طرح قیامت تک کے لیے امام حسین علیہ السلام کے طفیل اسلام کی حفاظت ہوتی رہے گی۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ اتَّخَذَ کَرْبَلَاءَ حَرَماً آمِناً مُبَارَکاً قَبْلَ أَنْ یَتَّخِذَ مَکَّةَ حَرَماً‘‘(
۸) خداوندمتعال نے کربلا کو امن و برکت کا حرم مکہ معظمہ سے پہلے قرار دیا تھا۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ حَجَّ أَلْفَ حَجَّةٍ ثُمَّ لَمْ یَأْتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِیٍّ(ع) لَکَانَ قَدْ تَرَکَ حَقّاً مِنْ حُقُوقِ رَسُولِ اللَّهِ (ص) وَ سُئِلَ عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ حَقُّ الْحُسَیْنِ ع مَفْرُوضٌ عَلَى کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘(
۹)اگر تم میں سے کوئی ہزار مرتبہ حج انجام دے لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے نہ جائے تو اس نے یقینی طور پر حقوق الہٰی میں سے حق کو ترک کردیا ہے جس کے متعلق قیامت کے دن اسے مؤاخذہ کیا جائے گا۔پھر حضرت نے ارشاد فرمایا:امام حسین علیہ السلام کا حق ہر مسلمان پر واجب ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ لَمْ یَأْتِ قَبْرَ الْحُسَیْنِ(ع) وَ هُوَ یَزْعُمُ أَنَّهُ لَنَا شِیعَةٌ حَتَّى یَمُوتَ فَلَیْسَ هُوَ لَنَا بِشِیعَةٍ وَ إِنْ کَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَهُوَ مِنْ ضِیفَانِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘(
۱۰)جو بھی امام حسین علیہ السلام کے نورانی مرقد کی زیارت کے لیے نہ جائے اور یہ تصور کرتا ہو کہ وہ ہمارا شیعہ ہے اور اسی حالت میں اس دنیا سے چلا جائے تو وہ ہمارا شیعہ ہی نہیں اور اگر جنت میں بھی چلا جائے تو بہشتیوں کا مہمان ہوگا۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى عَوَّضَ الْحُسَیْنَ(ع)مِنْ قَتْلِهِ أَنْ جَعَلَ الْإِمَامَةَ فِی ذُرِّیَّتِهِ وَ الشِّفَاءَ فِی تُرْبَتِهِ وَ إِجَابَةَ الدُّعَاءِ عِنْدَ قَبْرِهِ وَ لَا تُعَدَّ أَیَّامُ زَائِرِیهِ جَائِیاً وَ رَاجِعاً مِنْ عُمُرِهِ‘‘(
۱۱)خداوندمتعال نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے عوض امامت کو اُن کی نسل میں سے قرار دیا،اُن کے مقتل کی مٹی میں شفاء قرار دی ،اُن کے مرقد منور کو مستجاب الدعا قرار دیا اور اُن کے زائرکے آمد و رفت کے ایام کو اس کی زندگی میں سے شمار نہیں کیا۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں:’’مَنْ زَارَ قَبْرَ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ (ع) بِشَطِّ الْفُرَاتِ کَمَنْ زَارَ اللَّهَ فَوْقَ عَرْشِهِ‘‘(
۱۲) جو بھی شط فرات کے نزدیک امام حسین کی زیارت کرے وہ اس طرح ہے جس طرح اس نے عرش پر خداوندمتعال کی زیارت کی ہو۔
حضرت امام جعفرصادق اور حضرت امام موسیٰ کاظم علیمت‏السلام سے ایک ہی مضمون پر مبنی روایت نقل ہوئی ہے جس میں یہ دو بزرگوار امام ارشاد فرماتے ہیں:’’من زار الحسین(ع)عارفا بحقه غفر الله له ما تقدم من ذنبه و ما تأخر‘‘(
۱۳)جو بھی امام حسین علیہ السلام کی معرفت کے ساتھ ان کی قبر مطہر کی زیارت کرے خداوندمتعال اس کے تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف کردے گا۔

 دوسری فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت سےپہلے آپ پر انبیاء کی عزاداری

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت آدم اور جبرائیل علیہم السلام کی عزاداری

کتاب ’’دُرّالثمین‘‘کے مصنف ’’فَتَلَقّی آدَمَ مِنْ رَبِّهِ کَلَماتٍ فَتابَ عَلَیْهِ إنَّهُ هُوَ التَّوابُ الرَّحیمُ‘‘(۱۴) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:سب پہلے پیغمبر جن کے سامنے جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب کا تذکرہ کیا وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ پھر جب حضرت آدم نے پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی کوعرش پروردگار پر مشاہدہ کیا تو جبرائیل نے حضرت آدم سے کہا انھیں پڑھو:’’یٰا حَمیدُ بِحَقِّ مُحَمَّد یٰا عٰالی بِحَقِّ عَلی یٰا فٰاطِرُ بِحَقِّ فاطِمة یٰا مُحْسِنُ بِحَقِّ الْحَسَنْ وَ الْحُسَیْن وَ مِنْکَ الْإحْسان‘‘جب امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی حضرت آدم کی زبان مبارک پر جاری ہوا تو اُن کی آنکھوں سےبے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ان کا دل غمگین ہو گیا جبرائیل سے کہنے لگے:کیوں اس نام کو زبان پر جاری کرنے سے میرا دل غمگین ہو گیا ہے اور میرے آنسو بھی جاری ہو گئے ہیں؟ جبرائیل نے کہا: آپ کے اس فرزند پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے؛ جو سب کے سب اس کے آگے حقیر ہوں گے۔حضرت آدم نے سوال کیا:وہ میبتں کیا ہوگی؟جبرائیل نے کہا:آپ کا یہ فرزند پیاسا،غربت کے عالم میں حامی و ناصر کے بغیر شہید کردیا جائے گا۔ اے آدم!کاش آپ اسےاس وقت دیکھیں کہ وہ کیسے’’وا عَطشاه واقلة ناصِراه‘‘کی فریاد کرے گا اور پیاس اس کے اور آسمان کے درمیان دھوئیں کی طرح حائل ہو جائے گی ۔کوئی بھی تلوار کےسوا اس کا جواب دینے والا نہ ہوگااور پھر دنبے کی طرح ان کا سر پشت گردن سے جدا کردیا جائے گا ان کے دشمن ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کےسروں کو ان کے غمزدہ اہل وعیال کے ساتھ شہر شہر پھرائیں گے یہ سب کچھ حق متعال کے علم میں ہے۔ان مصائب کے ذکر سے حضرت آدم اور جبرائیل علیہماالسلام اسی طرح روئے جس طرح باپ جوان بیٹے کے مرنے پر روتا ہےاور جب حضرت آدم علیہ السلام کربلا کی زمین پر پہنچے توحضرت امام حسین علیہ السلام کے مقتل میں آپ کا پاؤں پھسلا اور گرنے سے آپ کی پیشانی سے خون جاری ہو گیاتو بارگاہ رب العزت میں عرض کی: بارالہٰا! کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہے جو اس طرح مجھ ے سزا دے جارہی ہے؟ جواب ملا نہیں کوئی خطا نہیں ہوئی بلکہ اس سرزمین پر آپ کا مظلوم بیٹا حسین شہید ہوگا ۔ ان کا خون اس سرزمین میں جاری ہوگا ان کے درد میں شریک ہونے کے لیے یہاں پر آپ کا خون جاری ہوا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا! ان کا قاتل کون ہوگا؟جواب ملا یزید ملعون۔اس پر لعت بھیجو۔اس طرح حضرت آدم نے یزید لعین پر لعنت بھیجی۔(۱۵)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت نوح علیہ السلام کی عزاداری

انس بن مالک نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جب خداوندمتعال نے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت نوح کو دستور دیا کہ جبرائیل کی نظارت میں کشتی بنائیں اور اس کشتی میں استعمال ہونے والی ایک ہزار کیلیں جبرائیل نے حضرت نوح کو دیں اور حضرت نوح نے ان تمام کیلوں کو کشتی بنانے میں استعمال کیا جب آخری پانچ کیلیں باقی بچیں تو جب حضرت نوح نے انھیں لگانے کا ارادہ کیا اور اُن میں سے ایک کیل کو اس مقصد سے ہاتھ میں لیاتو اُچانک اس سے درخشندہ ستاروں کی مانندنور نکلنے لگا حضرت نوح یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہو گئے تو اس کیل سے آواز آئی اے نوح میں بہترین پیغمبر یعنی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔حضرت نوح نے کہا: اے جبرائیل اس کیل کا کیا ماجرا ہے میں نے آج تک ایسی کیل نہیں دیکھی۔جبرائیل نے جواب دیا یہ کیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام نامی سے منسوب ہے اسے کشتی کی دائیں جانب نبے کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااور پھر دوسرےکیل کو نصب کرنے کے لیے اٹھایا تواس کیل سے بھی ایک نور بلند ہوا،حضرت نوح نے پوچھا یہ کیا ہے؟جواب ملا:یہ کیل سید الانبیاء کے چچازاد بھائی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے کشتی کی بائیں جانب نصب کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اورپھر تیسری کیل نصب کرنے کے لیےاٹھائی اس سےبھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل آخری پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام نامی سے منسوب ہے اسے انکے والد سے منسوب کیل کےساتھ نصب کردیں حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااورپھر چوتھی کیل اٹھائی تو اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب کیل کے ساتھ نصب کریں لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے پانچویں کیل اٹھائی تو پہلے تو اس سے نور اٹھا لیکن جب حضرت نوح نے اسے کشتی میں نصب کیا تو اس سے خون جاری ہو گیا ۔حضرت جبرائیل نے کہا: یہ کیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہے اور پھر جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ماجرا بیان کیا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا پیغمبر کے نواسے سے سلوک بیان کیا۔(۱۶)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزاداری

روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سرزمین کربلا سے عبور کرنا چاہا توحضرت گھوڑے پر سوار تھے اچانک گھوڑے کا پاؤں پھسلا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گھوڑے سے زمین پر گرےان کا سر مبارک زمین پر لگنے سے خون جاری ہو گیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار کرنا شروع کر دیا اور کہا:’’الھی،أیُّ شیءٍ حدث منّی؟ فنزل الیہ جبرئیل وقال: ھنا یُقتَلُ سبط خاتم الانبیاء وابن خاتم الاوصیاء‘‘پروردگارا! مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اس سرزمین پر خاتم الانبیاء اور سید الاوصیاء کا فرزند شہید کردیا جائے گا۔اسی لیے آپ کا خون اُن کے غم میں شریک ہونے کے لیے جاری ہوا ہے۔(۱۷)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عزاداری

روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نہر فرات کے کنارے اپنے حیوانوں کو چرانے میں مشغول تھے ایک دن ان کے چرواہے نے اُن سے کہا :کہ چند دن سے جانور نہر فرات کا پانی نہیں پی رہے اس کی کیا وجہ ہے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خداوندمتعال سے اس کی علت دریافت کی تو جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اے اسماعیل آپ خود ہی اِن حیوانوں سے اس کی علت دریافت کریں وہ خود ہی آپ کو ماجرا سے آگاہ کریں گے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حیوانوں سے پوچھا کہ پانی کیوں نہیں پی رہے؟ ’’فقالت بلسانٍ فصیحٍ: قد بلغنا انّ ولدک الحسین(ع) سبط محمد یقتل هنا عطشاناً فنحن لانشرب من هذه المشرعة حزناً علیه‘‘حیوانات نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس مقام پر آپ کے فرزند حسین جومحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں اس مقام پر پیاسے شہید کردیے جائیں گے لہٰذا ہم بھی اُن کے حزن میں پانی نہیں پی رہے۔حضرت اسماعیل نے اُن کے قاتلوں کے بارے میں سوال کیا؟ تو جواب ملا اُن کےقاتل پر تمام آسمان و زمین اور اس کی تمام مخلوقات اس پر لعنت کرتیں ہیں۔’’فقال اسماعیل:اللّهم العن قاتل الحسین‘‘حضرت اسماعیل کہا:خداوندا! اس کے قاتلوں پر لعنت بھیج۔(۱۸)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی عزاداری

مرحوم علامہ مجلسی ؒ نقل فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا میں اپنی سواری پر سوار ہو کر زمین کی گردش کرتے ہوئے سرزمین کربلا سے گذرے تو ہوا نے انکی سواری کو تین مرتبہ گردباد میں پھنسا دیا اور قریب تھا کہ وہ کو گر جاتے۔جب ہوا ٹھہری تو حضرت سلیمان کی سواری کربلا کی سرزمین پر نیچے اتری۔حضرت نے سواری سے پوچھا کہ کیوں اس سرزمین پر رکی ہو؟’’فقالت انّ هنا یقتل الحسین فقال و من یکون الحسین فقالت سبط محمّدٍ المختار و ابن علیّ الکرّار‘‘ہوا نے کہا:اس سرزمین پر حسین شہید کیے جائیں گے۔حضرت سلیمان نے پوچھا:حسین کون ہیں؟ جواب ملا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اورعلی مرتضیٰ کے فرزند ہیں۔ پوچھا؟ کون اُن سے جنگ کرے گا؟جواب ملا آسمان و زمین کا موعلن ترین شخص یزید۔حضرت سلمان نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے اس پر لعنت بھیجی اور تمام جن و انس نے آمین کہی پھر حضرت سلیمان کی سواری نے حرکت کی۔(۱۹)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزاداری

حضرت موسیٰ علیہ السلام یوشع بن نون کے ہمراہ بیابان میں سفر کر رہے تھے کہ جب وہ کربلا کی سرزمین پر پہنچے تو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے جوتے کا تسمہ کھل گیا اور ایک تین پہلوؤں والا کانٹا حضرت موسی ٰ حضرت کے پاؤں میں پیوست ہوگیا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیر سے خون جاری ہونے لگا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :بارالہٰا !مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے؟خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی:اس جگہ پر حسین شہید ہوں گے اور ان کا خون بہایا جائے گا تمہارا خون بھی ان کے ساتھ وابستگی کی خاطر جاری ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : بارالہٰا !حسین کون ہیں؟ ارشاد ہوا:وہ محمد مصطفیٰ کے نواسے اور علی مرتضی کے لخت جگر ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں عرض کی:’’یَا رَبِّ لِمَ فَضَّلْتَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ(ص)عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَضَّلْتُهُمْ لِعَشْرِ خِصَالٍ قَالَ مُوسَى وَ مَا تِلْکَ الْخِصَالُ الَّتِی یَعْمَلُونَهَا حَتَّى آمُرَ بَنِی إِسْرَائِیلَ یَعْمَلُونَهَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلَاةُ وَ الزَّکَاةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِهَادُ وَ الْجُمُعَةُ وَ الْجَمَاعَةُ وَ الْقُرْآنُ وَ الْعِلْمُ وَ الْعَاشُورَاءُ قَالَ مُوسَى(ع)یَا رَبِّ وَ مَا الْعَاشُورَاءُ قَالَ الْبُکَاءُ وَ التَّبَاکِی عَلَى سِبْطِ مُحَمَّدٍ(ص)وَ الْمَرْثِیَةُ وَ الْعَزَاءُ عَلَى مُصِیبَةِ وُلْدِ الْمُصْطَفَى یَا مُوسَى مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِیدِی فِی ذَلِکَ الزَّمَانِ بَکَى أَوْ تَبَاکَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ کَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِیهَا وَ مَا مِنْ عَبْدٍ أَنْفَقَ مِنْ مَالِهِ فِی مَحَبَّةِ ابْنِ بِنْتِ نَبِیِّهِ طَعَاماً وَ غَیْرَ ذَلِکَ دِرْهَماً إِلَّا وَ بَارَکْتُ لَهُ فِی الدَّارِ الدُّنْیَا الدِّرْهَمَ بِسَبْعِینَ دِرْهَماً وَ کَانَ مُعَافاً فِی الْجَنَّةِ وَ غَفَرْتُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی مَا مِنْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ سَالَ دَمْعُ عَیْنَیْهِ فِی یَوْمِ عَاشُورَاءَ وَ غَیْرِهِ قَطْرَةً وَاحِدَةً إِلَّا وَ کُتِبَ لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِیدٍ‘‘(
۲۰)اے میرے پروردگار! آخری نبی کی امت کو باقی نبیوں کی امتوں پر کیوں برتری دی؟جواب ملا:ان میں دس خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انھیں فضیلت دی گئی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :وہ دس خصوصیات کیا ہیں مجھے بھی بتائیں تو میں بنی اسرائیل کو کہوں کہ وہ بھی ان پر عمل کریں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:’’نماز،زکات، روزہ،حج،جامد،جمعہ،جماعت،قرآن،علم اور عاشوراء‘‘حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا یہ عاشورا کیا ہے؟ارشاد ہوا:محمد مصطفیٰ کے فرزند کی مصیبت میں عزاداری کرتے ہوئے رونا اورمرثیہ خوانی کرنا۔ اے موسیٰ! جو بھی اس زمانے محمد مصطفیٰ کے اس فرزند پر روئے اور عزاداری کرے اس کے لیے جنت یقینی ہےاور اے موسیٰ !جو بھی محمد مصطفیٰ کے اس فرزند کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے (نیازمیں یاپھر کسی بھی چیز میں)میں اس میں برکت ڈال دوں گا یہاں تک کہ اس کا ایک درہم ستر درہموں کے برابر ہوجائے گا اور اسے گناہوں سے پاک صاف جنت میں داخل کروں گااور مجھے میری عزت و جلال کی قسم جو بھی عاشورا یا عاشورا کے علاوہ اس کی محبت میں ایک قطرہ آنسو بہائے میں سو شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دوں گا۔
منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں بنی اسرائیل کی بخشش کی درخواست کی تو حق متعال نے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ !حسین کے قاتل کے علاوہ جو بھی اپنے گناہوں کی مجھ سے معافی مانگے گا میں اسے معاف کردوں گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اس کا قاتل کون ہے؟خداوندمتعال نے فرمایا:اس کا قاتل وہ ہے جس پر مچھلیاں دریاؤں میں، درندے بیابانوں میں،پرندے ہواؤں میں لعنت بھیجتے ہیں۔اس کے جدحضرت محمدمصطفٰی کی امت کے کچھ ظالم اسے کربلا کی سرزمین پر شہید کردیں گے اور ان کا گھوڑا فریاد کرے گا۔’’اَلظَّلیْمَةُ اَلظَّلیْمَةُ مِنْ اُمّة قتلَت إبْن بِنْت نبیِّهٰا‘‘پھر ان کے بدن کو غسل و کفن کے بغیر صحرا میں پتھروں پر چھوڑ دیں گے اور ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کے اہل و عیال کو قیدی بنالیں گے ان کے ساتھیوں کو بھی قتل کردیں گے اور ان کے سروں کو نیزوں پر سوار کرکے بازاروں اور گلیوں میں پھرائیں گے ۔اے موسیٰ ! ان کے بعض بچے پیاس کی شدت سے مرجائیں گے ان کے بڑوں کے جسم کی کھال پیاس کی شدت سے سکڑ جائے گی وہ جس قدر بھی فریاد کریں گے،مدد طلب کریں گے،امان مانگیں گے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں بڑے گا اورانھیں امان نہیں دی جائے گی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے یزید پر لعنت کی اورحضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے دعا کی اور یوشع بن نون نے آمین کہا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے پروردگار!حسین کے قاتلوں کے لیے کیا عذاب ہوگا؟ خداوندمتعال نے وحی کی:ایسا عذاب کہ جہنمی بھی اس عذاب کی شدت کی وجہ سے پناہ مانگیں گے ،میری رحمت اور ان کے جد کی شفاعت ان لوگوں کے شامل حال نہ ہوگی اور اگر حسین کی عظمت نہ ہوتی تو میں ان کے قاتلوں کوزندہ درگور کر دیتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:پروردگار میں ان سے اور جو بھی ان کے کاموں پر راضی تھے ان سب سے بیزار ہوں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:میں نے ان کے پیروکاروں کے لیے بخشش کو انتخاب کیا ہے۔’’وَ اعْلَمْ اَنَّهُ مَنْ بَکٰا عَلَیْهِ اَوْ اَبْکٰا اَوْ تَبٰاکٰا حُرِّمَتْ جَسَدَهُ عَلَی النّٰارْ‘‘اور جان لو! جو بھی حسین پر روئے یا رولائے یا رونے کی شکل بنالے اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہے۔(
۲۱)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت زکریا علیہ السلام کی عزاداری

سعد بن عبداللہ قمی ؒکہتے ہیں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہواحضرت نے ارشاد فرمایا:اس ملاقات سے تمہارا کیا مقصد تھا؟میں نے عرض کیا:مجھے احمد بن اسحاق نے اشتیاق دلایا کہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہو کر آپ کے محضر سے فیض حاصل کروں اور اگر آپ اجازت فرمائیں تو آپ سے کچھ سوال بھی کرلوں۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو کچھ بھی پوچھنا چاہتے ہو میرے اس فرزند سے پوچھ لو یہ اہل تشیع کا بارھواں امام ہے ۔سعد کہتاہے میں نے اس گوہر تابناک کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!مجھے سورہ مریم کے اول میں’’کھیعص‘‘کی تأویل سے آگاہ فرمائیں؟امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:یہ حروف مقطعات غیب کی خبروں میں سے ہیں اور خداوندمتعال ان حروف کے ذریعہ سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت زکریا کے واقعات سے آگاہ فرمارہے ہیں پھر حضرت نے اس قصہ کو بیان فرمایا: کہ حضرت زکریا نے خداوندمتعال سے تقاضا کیا کے مجھے خمسہ طیبہ کے اسمائے گرامی کی تعلیم دیں،جبرائیل نازل ہوئے اور اُن اسماء کی تعلیم حضرت زکریا کو دی۔ایک دن حضرت زکریا نے مناجات کے وقت عرض کی:پروردگارا! میں جب بھی محمد،علی، فاطمہ اورحسن صلوات الله علیمی اجمعین کے اسماء کو ذہن میں لاتا ہوں تواپنے غموں کو بھول کر خوشحال ہوجاتا ہوں لیکن جب بھی حسین علیہ السلام کے نام گرامی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دنیا کے تمام غم میری طرف ہجوم آور ہوجاتے ہیں اور بے اختیار میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں؟خداوندمتعال نے انہیں حضرت سید الشہداء کے واقعہ سے آگاہ کیا ۔پھرحضرت نےفرمایا:’’کاف‘‘کربلا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقام ہے اور’’ھا‘‘عترت طاہرہ کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے اور’’یا‘‘یزید ملعون کی طرف اشارہ ہے اور’’عین‘‘عطش اور پیاس کی طرف اشارہ ہے’’صاد‘‘صبر سید الشہداء کی طرف اشارہ ہے۔
جب حضرت زکریا نے کربلا کے اس جانسوز واقعہ کو سنا تو اس قدر متأثر ہوئے کہ تین دن تک اپنے گھر سے باہر تشریف نہیں لائے اور لوگوں کو ملنے سے منع کردیا اس مدت میں عزاداری سید الشہداء میں مشغول رہے اور ان جملوں کا تکرار کرتے تھے: ’’إلهی اتفجع خیر جمیع خلقک بولده ؟ إلهی اتنزل بلوی هذه الرزیة بفنائة ؟ إلهی اتلبس علی و فاطمه ثیاب هذه المصیبة ؟ إلهی اتحل کربة هذه المصیبة بساحتهما ؟‘‘اور ان جملوں کے بعد خداوندمتعال سے التجا کرتے تھے کہ بارالہٰا !مجھے ایک فرزند عنایت فرما جس کی محبت سے میرے دل کو نورانی کردے اور پھر مجھے اس کی مصیبت میں اسی طرح مبتلا فرما جس طرح اپنے حبیب محمد مصطفیٰ کو ان کے فرزند حسین کی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا ۔ خداوندمتعال نے حضرت زکریا کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں حضرت یحیی ٰعنایت کیے اور پھر حضرت یحییٰ شہید ہو گئے اور زکریا ان کے غم میں سوگوار ہوگئے۔حضرت یحیی ٰاور حضرت امام حسین علیہما السلام میں ایک اور شباہت یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگوار چھ ماہ کے حمل کے بعد متولد ہوئے تھے۔(
۲۲) اس کے علاوہ ان دونوں بزرگواروں میں ایک اور شباہہت یہ بھی پائی جاتی ہے جسے حضرت امام جواد علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:’’ما بکت السماء الاّ علی یحیی بن ذکریا والحسین بن علی علیہما السلام‘‘یعنی آسمان حضرت یحییٰ اور حضرت سید الشہداء کی مظلومیت کے سوا کسی اور کی مظلومیت پر نہیں رویا۔(۲۳)۔

 حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزاداری

منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ اُن کا گذر سرزمین کربلا سے ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شیر آمادہ ان کا راستہ روکے بیٹھا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر کے پاس گئے اور اس سے علت دریافت کی؟شیر نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:میں اس راستے سے گذرنے نہیں دوں گا مگر یہ کہ’’تلعنوا یزید قاتل الحسین علیہ السلام فقال عیسی: و من یکون الحسین؟ قال: هو سبط محمّدٍ النّبیّ الامّی و ابن علیٍ الولیٍ‘‘۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت بھیجیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ حسین علیہ السلام کون ہیں؟کہا:محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کے فرزندہیں۔پوچھا ان کا قاتل کون ہے؟جواب ملا وحشی حیوانات اور درندگان کا نفرین شدہ یزید۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ بلند کر کے یزید پر لعنت بھیجی اور حواریوں نے آمین کہی تو شیر نے اُن کے لیے راستہ کھول دیا۔(۲۴)۔

 تیسری فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے بعدآپ کی عزاداری

ہم اس فصل میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام کی حضرت سید الشہداء علیہ السلام پر عزاداری سے متعلق مختصر سی وضاحت کریں گے ۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مناسبتوں سے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شایدت کی کیفیت کو بیان کیا اور عزاداری فرمائی ہے۔جن میں سے چند موارد کو بطور مثال ذکر کرتے ہیں۔

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے وقت پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزاداری

بیقیض حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اسماء بنت عمیس کے نقل کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ آپ فرماتی ہیں :میں حضرات امام حسن اور حسین علیہم السلام کی ولادت با سعادت کے مواقع پر آپ کی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے پاس موجود تھی۔جب حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت ہوئی تو حضرت خاتم الانبیاء میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا:اے اسماء ! میرے فرزند کو میرے پاس لے آؤ۔میں نے مولود کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر رسول خدا کے سپرد کردیا۔حضرت نے دائیں کان میں آذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور پھر بچے کو اپنی گود میں رکھ کر رونے لگے۔میں نے عرض کیا میں آپ پر قربان جاؤں کیوں گریہ فرما رہے ہیں؟ارشاد فرمایا: اپنے اس فرزند پر رو رہا ہوں۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا:یہ تو ابھی متولد ہوا ہے! فرمایا:اے اسماء ! میرے اس فرزند کو ستمگروں کا ایک گروہ شہید کردے گا خداوندمتعال انھیں میری شفاعت سے محروم رکھے۔پھر فرمایا:اے اسماء!یہ بات ابھی فاطمہ سے ذکر نہ کرنا کیونکہ یہ فرزند ابھی تازہ متولد ہوا ہے۔(۲۵)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام فضل کے خواب کی تعبیر

ام فضل کہتی ہیں میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی اور عرض کی میں نے کل رات بہت پریشان کن خواب دیکھا ہے۔حضرت نے فرمایا :اپنا خواب میرے لیے نقل کرو! عرض کی،میں نے دیکھا ہے کہ گویا آپ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ کر میرے دامن میں رکھ دیا گیا ہے۔حضرت نے فرمایا:بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔عنقریب فاطمہ سے ایک فرزند متولد ہوگا جو تمہارے دامن میں پروان چڑہے گا۔کچھ ہی مدت بعد امام حسینؑ متولد ہوئے اور میری آغوش میں دے دیے گئے۔ایک دن میں حسین کو لے کر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوئی تو حضرت نے حسین کو اپنی گود میں لیا ’’فاذاً عینا رسول اللّه تهرقان من الدّموع فقلت یا نبیّ اللّه بابی انت و امّی مالک؟ قال:اتانی جبرئیل علیه السّلام فاخبرنی انّ امّتی ستقتل ابنی۔ فقلت:هذا؟ فقال:نعم و أتانی تربةً من تربةٍ حمراء‘‘اچانک حضرت کی چشم مبارک سے آنسو جاری ہونے لگے۔میں نے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یا رسول اللہ کیا ہوا ہے؟ارشاد فرمایا: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت میرے فرزند حسین کو قتل کر دے گی۔میں نے عرض کی اسی فرزند حسین کو؟فرمایا:ہاں!اور پھر جبرائیل نے مجھے سرخ مٹی عنایت فرمائی اور فرمایا :یہ وہی مٹی ہے جس پر حسین کو شہید کیا جائے گا۔(۲۶)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ام سلمہ کے گھر میں عزاداری

ام سلمہ کہتی ہیں کہ حسنین شریفین علیہم السلام میرے گھر میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھیل میں مشغول تھے کہ جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:’’یا محمّد انّ امّتک تقتل ابنک هذا من بعدک فأومأ بیده الی الحسین فبکی رسول اللّه و وضعه الی صدره‘‘اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی امت آپ کے فرزند حسین کو آپ کے بعد شہید کردے گی۔تب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کو اپنی آغوش میں لے کر اپنے سینے سے لگا لیا اور رونے لگے۔اور مجھ سے فرمایا:یہ مٹی تمہارے پاس امانت ہے یہ کہہ کر آپ نے مٹی کو سونگھا اور فرمایا:اے ام سلمہ! جب بھی یہ مٹی خون آلود ہو جائے تو جان لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید ہو گیا ہے۔(۲۷)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زینب کے گھر میں عزاداری

زینب بنت جحش نقل کرتی ہیں:ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر تھے۔اس وقت امام حسین علیہ السلام نے تازہ چلنا شروع کیا تھا۔جب وہ رسول خدا کے کمرے میں داخل ہونے لگے تومیں نے انھیں پکڑ لیا۔رسول خدا نے فرمایا:چھوڑ دو!میں نے چھوڑ دیا۔آپ نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے جبکہ امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں لیا ہوا تھا۔ جب بھی آپ رکوع میں جاتے تو امام حسین علیہ السلام کو زمین پر بٹھا دیتے۔نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے رونا شروع کردیا۔میں نے عرض کی :یا رسول اللہ ! میں نے آج یہ جو منظر دیکھا اس سے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا تھا۔فرمایا:جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میری امت اس فرزند کو شہید کر دے گی۔پھر حضرت نے حسین علیہ السلام کی تربت مجھے دیکھائی جو جبرائیل حضرت کے لیے لائے تھے۔(۲۸)۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور عائشہ کے گھر میں عزاداری

عائشہ کہتی ہیں:ایک دن جبرائیل پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تشریف لائے( جبکہ امام حسین علیہ السلام آپ کے شانوں پر سوار ہو رہے تھے اور آپ سے کھیل رہے تھے)اور آپ سے کہا:’’یا محمّد انّ امّتک ستقتل بعدک و یقتل ابنک هذا من بعدک و مدّ یده فأتاه بتربةٍ بیضاء و قال فی هذه الارض یقتل ابنک اسمها الطّف‘‘اے محمد! جلد ہی آپ کی امت اس فرزند کو آپ کے بعد شہید کر ڈالے گی۔پھر جبرائیل نے ہاتھ بڑھا کر آپ کی خدمت میں ایک سفید رنگ کی مٹی دی اور کہا : آپ کا فرزند اس زمین پر قتل کر دیا جائے گاجسے طف کہتے ہیں۔جب جبرائیل حضرت کے پاس سے رخصت ہوئے تو حضرت مٹی کو ہاتھ میں لئے رو رہے تھے کہ اسی دوران اصحاب کی ایک جماعت جن میں علیؑ،حذیفہ،عمار،ابوذروغیرہ شامل تھے آپ کے پاس تشریف لائے تو آپ نے فرمایا ؛کہ: جبرائیل نے مجھے خبر دی ہے کہ میرا یہ فرزند طف نامی سرزمین میں شہید کردیا جائے گااور پھر یہ مٹی مجھے دی ہے جس میں میرا یہ فرزند شہید ہو گا اور اس کی اسی میں قبر بنے گی۔(۲۹)۔

حضرت امام حسین علہی السلام پر حضرت سید الاوصیاء علیہ السلام کی عزاداری

ابن عباس کہتے ہیں:جنگ صفین کے دوران ہم حضرت علی علیہ السلام کے ہمراہ سرزمین نینوا سے گذرے،حضرت نے مجھ سے فرمایا:’’یا ابن عبّاس اتعرف هذا الموضع قلت له: ما اعرفه یا امیرالمؤمنین فقال علیہ السلام: لو عرفته کمعرفتی لم تکن تجوزه حتّی تبکی کبکائی قال فبکی طویلاً حتی اخضلّت لحیته و سالت الدّموع علی صدره و بکینا معاً‘‘اے ابن عباس!کیا اس سرزمین کو پہچانتے ہو؟میں نے عرض کیا:نہیں۔حضرت نے فرمایا:اگر میری طرح اس سرزمین کو پہچانتے تو یہاں سے اتنی آسانی سے نہ گذرتے اور میری طرح ہی روتے۔ یہ کہتے ہوئےحضرت نے رونا شروع کردیا یہاں تک کہ آنسو آپ کی داڑھی مبارک سے سینہ مبارک پر جاری ہو گئے۔ہم نے بھی حضرت کے ساتھ گریہ کیا۔’’و هو یقول اوّه اوّه مالی و لآل ابی سفیان مابی و لآل حربٍ حزب الشّیطان و اولیاء الکفر صبراً یا ابا عبداللّه…ثمّ بکی بکاءً طویلاً و بکینا معه حتّی سقط لوجهه و غشی علیه طویلا ثمّ افاق‘‘پھر علی علیہ السلام نے فرمایا:وای وای وای میں نے آل سفیان،آل حرب،اور شیطانی ٹولے کا کیا بگاڑا تھا!!یا ابا عبداللہ ! صبر اور استقامت کا دامن تھامے رکھو!اس کے بعد پھر حضرت نے اس قدر شدید گریہ فرمایا کہ منہ کے بل زمین پر گر کر بیہوش ہو گئے۔(۳۰)۔

چوتھی فصل
عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام شہادت کے بعد 

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری حضرت کی شہادت کے لحظہ ہی سے اس دلخراش واقعہ کے عینی شاہد ین حضرت امام علی ابن الحسین علیہ السلام اور ان کی پھوپھی حضرت سیدہ زینب سلام اللہ علیہا اور باقی ماندگان کی جانب سے برپا ہوئی۔
بنی امیہ نے بلا جواز شرعی خود کو مسلمانوں کا حاکم مطلق قرار دیا اور اسی حاکمیت مطلق ہونے کے ناطے قصاوت و بے رحمی جو کربلا میں دکھائی اسے مدنظر رکھتے ہوئے حضرت امام سجاد علیہ السلام نے سیاسی اعتبار سے خاموشی اختیار کی اور سیاسی جھگڑوں سے دوری اختیار کرتے ہوئے عبداللہ بن زبیر اور امویان کے درمیان سیاسی نزاع میں دخالت نہیں فرمائی حتی کہ جب مدینہ والوں نے یزید کی حکومت کے خلاف قیام کیا جس کے نتیجے میں’’واقعہ حرہ‘‘رونما ہوا حضرت نے سکوت اختیار فرمایا۔
البتہ مروان بن حکم جو اس وقت مدینہ کا حاکم تھا اسکی خواہش پر حضرت اس کے بیوی بچوں کو اپنی پناہ میں لیتے ہوئے انہیں اپنے اہل وعیال کے ہمراہ مدینہ سے باہر’’کوہ رضوی‘‘کی دائیں جانب مقام’’ینبع‘‘(یعنی چشمہ کی جگہ) لے گئے۔مروان نے حضرت امام سجاد علیہ السلام سے پہلے عبداللہ بن عمر سے یہ تقاضا کیا تھا جسے اس نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔(
۳۱)۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام کے قیام کی شرائط مہیا نہ ہونے کے علاوہ دوسری اہم دلیل کربلا کے واقعے کی عظمت اور عاشورا کا پیغام تھا جیسے محو ہونے سے بچانا اور لوگوں تک پہنچانااور بنی امیہ کے ظلم کو آشکار کرنا حضرت ہی کی ذمہ داری تھی۔
حضرت امام سجاد علیہ السلام نے عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے ہر فرصت کو غنیمت قرار دیا ۔نقل ہوا ہے کہ آپ علیہ السلام پانی پیتے وقت شدید گریہ فرماتے تھےاور جب آپ کے اصحاب اور محبان اسکی علت دریافت کرتے توحضرت فرماتے:کیسے گریہ نہ کروں! پرندےاور وحشی جانور پانی پینے کے لیے آزاد تھے جبکہ میرے بابا کو اس سے روک دیا گیا۔(
۳۲)۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ حضرت علی بن الحسین علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے والد کی مظلومیت پر گریہ کرتے رہے جب بھی کھانے کی طرف یا پانی پینے کے لیے ہاتھ بڑھاتے تو گریہ فرماتے یہاں تک کہ آپ کے ایک غلام نے آپ سے عرض کی:اے فرزند رسول صلی اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم اب کتنا گریہ کریں گے؟مجھے خوف ہے کہ اس طرح گریہ کرنےسے اپنے آپ کو نقصان(جانی نقصان) پہنچا لیں گے!!آپ نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’قال اِنّما اَشکو بَثّی و حَزنی الی اللّه و اَعلمُ مِنَ اللّه مَا لاتَعلمون‘‘میں اپنے غم واندوہ سے حق متعال کی بارگاہ میں شکوہ کرتا ہوں اور وہ جانتا ہوں جسے تم لوگ نہیں جانتے۔(
۳۳)۔
ایک اور شخص کے جواب میں جس نے آپ کے رونے پر اعتراض کیا فرمایا:وائےہو تم پر!یعقوب نبی کے بارہ بیٹے تھے خدا نے اُن میں سے ایک کو باپ کی نظروں سے دور کیا تویعقوب اس کے فراق میں اس قدر روئے کہ دونوں آنکھوں سے نابینا ہو گئے اور انکی کمر یوسف کے فراق میں جھک گئی (وہ جانتے تھے)کہ اُن کا بیٹا زندہ و سلامت ہے جبکہ میں نے اپنی دونوں آنکھوں کے سامنے اپنے والد،چچا اور اپنے اہلبیت کے سترہ عزیز ترین عزیزوں کو شہید ہوتے دیکھا ہےمیں کیسے رونا چھوڑ سکتا ہوں۔(
۳۴)۔
عزاداری سے متعلق قرآن مجید میں عملی مثال حضرت یعقوب علیہ السلام کا حضرت یوسف کی جدائی میں رونا ہے۔ زمخشری کے نقل کے مطابق ستر سال حضرت یعقوب روتے رہے البتہ یہ فقط ایک باپ کا اپنے فرزند کے فراق میں رونا نہیں تھا بلکہ حضرت یوسف نبی تھے اور یہ ایک نبی کے فراق میں رونا تھا۔
بعض روایات میں نقل ہوا ہے کہ جب یزیدلعین کی بیوی نے عبرت ناک خواب دیکھا اور یزید کے لیے نقل کیا تو یزید نے اہلبیت علیہم السلام کے اسیروں کی دلجوئی کے لیے انھیں بلایا اور اُن کی خواہشات پورا کرنے کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کیا تو اہلبیت علیہم السلام نے فرمایا:ہمیں امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پر عزاداری کی اجازت دی جائے۔تب یزید نے ان کے لیے عزاداری کے مقدمات فراہم کیے اس طرح اہلبیت علیہم السلام سات دن تک سید الشہداء پر عزاداری کرتے رہے۔(
۳۵)۔
کتاب’’سیاہ پوشی در سوگ ائمہ نور علیہم السلام‘‘کے مصنف اس بارے میں یوں لکھتے ہیں:یزید کی بیوی ہند ہ کہتی ہے میں نے عالم خواب میں دیکھا کہ آسمان کے دروازے کھل گئے اور فرشتے جوق در جوق امام حسین علیہ السلام کے سر مبارک کی جانب نازل ہو رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں:’’السلام علیک یابن رسول اللہ‘‘اسی خواب میں وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کو چومتےاور گریہ کرتے ہوئے دیکھتی ہے۔ہند ہ کہتی ہے میں پریشان حال نیند سے بیدار ہوئی تو اچانک میری آنکھیں ایسے نور پر پڑیں جو امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک سے بلند ہو رہا تھا اس ماجرا کو دیکھتے ہی میں یزید کو تلاش کرنے لگی تو اسے ایک تاریک کمرے میں غمزدہ حالت میں دیکھا جو خود سے کہہ رہا تھا’’مجھے حسین سے کیا لینا تھا؟‘‘میں نے اپنا خواب اسے سنایاتو اس نے اپنا سر نیچے کی طرف جھکا دیا۔
اس کتاب کا مصنف اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد یزید کو کربلا میں اپنے کیے پر پشیمان و نادم گردانتا ہے اور اسی کو یزید کی اہلبیت علیہم السلام سے ملائمت سے پیش آنے کی وجہ بیان کرتا ہے۔(
۳۶)جبکہ یزید اپنے کیے پر نادم نہیں تھا وہ لوگوں میں اپنی حکومت کے خلاف احتمالی قیام سے خائف تھا اور اسی خوف کی وجہ سے اہلبیت علیہم السلام کے اسیروں سے اس طرح پیش آرہا تھا اور ان کی رضایت حاصل کرنا چاہتا تھا۔کربلا کے واقعہ کے دو سال بعد حرہ کا واقعہ اور مدینہ منورہ میں یزیدی لشکر کی بے حرمتیاں اس حقیقت کی منہ بولتی دلیل ہیں۔
اس بارے میں ڈاکٹر شہیدی لکھتے ہیں:
یزید نے مدینہ منورہ کی طرف جو لشکر بھیجاتھااس کے سردار مسلم بن عقبہ نے تین دن کے لیے مدینہ شہر کو اپنی فوج کے لیے مباح قرار دے دیا اور ان سے کہا جو چاہیں کریں جس کے نتیجہ میں کتنے ہی تہجد گزار مارے گئے،حرمتیں پائمال ہوئیں کتنی عورتوں کی عصمت دری ہوئی!خدا جانتا ہے کہ اس فاجعہ سے فقط ایک ہی حقیقت آشکار ہوتی ہے اور وہ یہ کہ اس لشکر کشی میں سپاہی سے لے کر امیر لشکر تک کسی کو بھی فقہ اسلامی کا علم نہ تھا اور اگر تھا بھی تو اسےاسکی پرواہ نہ تھی۔(
۳۷)۔
حضرات معصومین علیہم السلام نے عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام کو زندہ رکھنے اور ہمیشہ اسکی یاد تازہ رکھنے کے لیے جن طریقوں کو اپنایا اُن میں سے ایک اچھے خطباء،شعرا اور اچھی آواز رکھنے والے افراد کی تونائیوں سے استفادہ کرنا تھا۔اَن افراد کو ‘‘منشید’’ کہتے تھے جسے ہم اپنی زبان میں ’’ذاکر‘‘کہتے ہیں۔البتہ مسلم ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام کے حضور قصیدہ خوانی،مرثیہ سرائی کرنے والے یہ ذاکرین ہر قسم کے غلو،توہین آمیز اورنادرست مطالب سے مبرا ہوا کرتے تھے۔واقعہ کربلا اس قدر دلخراش ہے کہ اس میں غلط بیانی سےاحساسات کو ابھارنے کی ضرورت نہیں جو متأسفانہ بعض ذاکر و خطیب حضرات انجام دیتے ہیں۔
اہلبیت علیہم السلام کا کاروان شام سے مدینہ کی طرف واپسی کے وقت کچھ مدت کے لیے مدینہ سے باہر رکا تو بعض اہل مدینہ نے کاروان والوں سے ملاقات کی جن میں سے ایک شخص’’بشیر بن جذلم‘‘تھا۔حضرت امام سجاد علیہ السلام نے اسے پہچان لیا اور فرمایا:اے بشیر تمہارا باپ شاعر تھا کیا تم بھی شاعری کاذوق رکھتے ہو؟بشیر نے کہا:جی ہاں میں بھی شاعر ہوں۔حضرت نے فرمایا:کچھ اشعار کہتے ہوئے ہم سے پہلے مدینہ میں جاکرہماری مظلومانہ آمد اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی شہادت کی خبر مدینہ والوں تک پہنچاؤ۔بشیر نے ان اشعار کو انشاء کیااور غمزدہ آواز میں انہیں اہل مدینہ کے درمیان پڑھ کر کاروان اہلبیت علیہم السلا م کی واپسی کی اطلاع دی:

یا اهلَ یثرب لا مُقامَ لکم بِها قُتِلَ الحسینُ و ادمعی مِدرارٌ
الجسمُ منه بکربلاءِ مفّرجٌ والرأسُ منه علیَ القناةِ یُدارُ

اے اہل مدینہ!اب مدینہ رہنے کی جگہ نہیں ،حسین علیہ السلام شہید ہو گئے اسی وجہ سے میری آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری ہے ان کا مطہر بدن میدان کربلا میں خون میں لت پت پڑا ہے اور ان کا مقدس سر نیزہ پر سوار شہروں میں پھرایا گیا۔
ابی مخنف کے قول کے مطابق کوئی عورت بھی مدینہ میں باقی نہ بچی سب کی سب گھروں سے باہر نکل گئیں اور مردوں نےسیاہ لباس پہن لیا اور فریاد و فغاں کرنے لگے۔(
۳۸)۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اورامام حسین علیہ السلام کی عزاداری

شیعیان حیدر کرار کے روائی منابع میں موجود اکثر احادیث و روایات فقہی مسائل سے متعلق ہوں یا اسلامی آداب و سنن سے متعلق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہی سے نقل ہوئی ہیں اسی بنا پر شیعہ مذہب آپ علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہو کر’’جعفری‘‘کہلاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بنی امیہ کی حکومت کا سلسلہ اپنے زوال کے قریب تھا اور بنی عباس ابھی اپنی حکومت کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مصروف تھے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے
۱۱۴ھ۔ق سے ۱۴۸ ھ۔ق میں مجموعاً ۳۴ سال میں سے ۱۸ سال بنی امیہ کی آخری سانس لیتی ظالم حکومت اور ۱۶ سال بنی عباس کی حکومت کے ابتدائی مراحل میں گذارے ۔حضرت صادق علیہ السلام نے موجودہ شرائط سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے فرصت کو غنیمت شمار کیا اور اسلامی شیعی تمدن کو پھیلانے میں ہرممکنہ کوشش فرمائی اور فقہ شیعہ کی بنیادکو مضبوط اور عمیق مبانی سے آراستہ کرتے ہوئے بہت سے شاگردان کی تربیت فرمائی۔
کربلا کے واقعات اور امام حسین علیہ السلام اور اُن کے باوفا اصحاب کی مظلومانہ شہادت سے متعلق بہت سی روایات حضرت ہی سے نقل ہوئی ہیں جن میں سے چند کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں:
شیخ جلیل کامل جعفر بن قولویہ اپنی کتاب ’’کامل‘‘میں ابن خارجہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتا ہے کہ ایک دن میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں موجود تھا کہ حضرت امام حسین کا ذکر ہوا حضرت بہت روئے اور ہم نےبھی حضرت کے ساتھ رونا شروع کر دیا ۔کچھ دیر کے بعد حضرت نے اپنا سر اٹھایا اور ارشاد فرمایاکہ حضرت امام حسین علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: ’’انا قتیل العبرۃ لا یذکرنی مؤمن الا بکی‘‘(
۳۹)میں ایسا شہید ہوں کہ جو مؤمن بھی میرے شہادت سے متعلق سنے گا تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گےاور اسی طرح ایک اورروایت میں بیان ہوا ہے کہ کوئی دن ایسا نہ تھا جب حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر میں حضرت سید الشہدا کا نام لیا جاتا اور حضرت اس دن تبسم فرماتے اور اس دن محزون حالت میں رہتے تھے اور ارشاد فرماتے تھے کہ امام حسین ہر مؤمن کےلئے رونے کا سبب ہیں۔
عبداللہ بن سنان سے روایت نقل ہوئی ہے کہ روز عاشور میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر مبارک میں شرفیاب ہوا اس وقت حضرت کے اطراف میں اصحاب بھی موجود تھے ۔حضرت کا چہرہ مبارک غمگین تھا اور گریہ بھی فرما رہے تھے۔میں نے عرض کیا:اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کیوں گریاں ہیں؟حضرت نے فرمایا:کن سوچوں میں ہو کیا نہیں جانتے آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے تھے؟(ابن سنان کہتا ہے حضرت کی اُس حالت نے حضرت کو مزید کچھ کہتے کی مجال نہ دی)حضرت کے یہ جملات سنتے ہی سب اصحاب بھی رونے لگے۔(
۴۰)۔
زید الشحّام نقل کرتا ہے ایک دن حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت اقدس میں بیٹھا تھا کہ جعفر بن عثمان آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور امام علیہ السلام کے قریب بیٹھ گئے۔حضرت نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم امام حسین علیہ السلام سے متعلق شعر کہتے ہو۔جعفر نے کہا جی ہاں۔پھر جعفر نے امام کے حکم پر امام حسین علیہ السلام کی مصیبت میں اشعار پڑھے جنہیں حاضرین نے سنا اور گریہ کیا۔امام علیہ السلام کے چہرۂ مبارک پر بھی آنسو جاری ہو گئے اور فرمایا:اے جعفر خداوند متعال کے مقرب فرشتوں نے بھی تمہارے اشعار سن کر اسی طرح گریہ کیاہے جس طرح ہم نے گریہ کیا۔پھر فرمایا:‘‘جو بھی امام حسین علیہ السلام کے لیے شعر کہے،خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رولائے خداوندمتعال جنت کو اس پر واجب کر دیتا ہے اور اس کے گناہوں کو معاف کردیتا ہے۔(
۴۱)۔
محمد بن سہل کہتا ہےہم ایام تشریق(
۴۲)میں شاعر‘‘کمیت’’کے ہمراہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے حضور شرفیاب ہوئے۔’’کمیت‘‘نے حضرت سے عرض کیا اجازت ہے میں کچھ شعر پڑھوں؟حضرت نے اجازت مرحمت فرماتے ہوئےفرمایا:یہ ایام بہت بزرگ ہیں کہواور حضرت نے اپنے اہلبیت سے بھی فرمایا کہ آپ سب بھی نزدیک آجائیں اور کمیت کے اشعار سنیں۔کمیت نے امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت و مصیبت میں کچھ اشعار کہے۔امام علیہ السلام نے اشعار سننے کے بعدکمیت کی بخشش اور اس کے حق میں دعا فرمائی۔(۴۳)۔
شیخ فخر الدین طریحی نے اپنی کتاب‘‘منتخب’’میں روایت نقل کی ہے کہ جب بھی عاشورا کا چاند نمودار ہوتا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام غمگین ہوجایا کرتے تھے اور اپنے جد بزگوار سید الشہداء علیہ السلام پر گریہ فرمایا کرتے تھے لوگ بھی اطراف و اکناف سے حضرت کے محضر میں شرفیاب ہوتے اور حضرت کے ساتھ مل کر عزاداری کرتے اور حضرت کو اس غم میں تسلیت پیش کیا کرتے اور جب عزاداری سے فارغ ہوجاتے تو حضرت فرمایا کرتے تھے:اے لوگو!جان لو کہ امام حسین علیہ السلام اپنے پروردگار کے پاس زندہ اور مرزوق ہیں اور ہمیشہ اپنے عزاداروں کی طرف خاص توجہ فرماتے ہیں ان کے نام اور ان کے اجداد کے ناموں اور اُن کے لیے جنت میں جو مقامات آمادہ کیے گئے ہیں سب کو جانتے ہیں۔(
۴۴)۔
اسی طرح حضرت امام صادق علیہ السلام اپنے جد امجد حضرت امام حسین علیہالسلام کی زبانی نقل فرماتے ہیں:اگرمیرے زائر اور عزادار جان لیں کہ خداوند متعال انہیں کیا اجر دے گا تو اُن کی خوشحالی ان کی عزاداری سے کہیں زیادہ ہوگی اور امام حسین علیہ السلام کا زائر اپنے اہل وعیال کے ساتھ ہمیشہ مسرور حالت میں لوٹتا ہے ۔ حضرت کا عزادار اپنے مقام سے ابھی اٹھتا ہی نہیں کہ حق متعال اس کے تمام گناہ معاف کردیتا ہے اوروہ اس طرح ہوجاتا ہے جیسے ابھی ماں سے متولد ہوا تھا۔(
۴۵)۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا امام حسین علیہ السلام کے زندہ شاہد و ناظر ہونے پر تاکید کرنا در واقع قرآن کریم کی ان آیات کی طرف اشارہ ہے جن میں شہید کی خصوصیات بیان ہوئیں ہیں ۔بطور مثال آیت مبارکہ’’ولا تحسبنَّ الذین قُتلوا فی سبیلِ اللّهِ امواتا بَل احیاء عندَ ربِّهم یُرزقون‘‘(
۴۶)یہ بات اس امر کی طرف متوجہ کرا رہی ہیں کہ امام صادق علیہ السلام کی یہ کوشش تھی کہ بنی امیہ کی اس سازش کو ناکام بنایا جائے جو انھوں نے آئمہ شیعہ کے بارے میں مشہور کررکھی تھی۔ بنی امیہ اِن بزرگوار ہستیوں کو اسلامی حکومت کے خلاف باغی متعارف کرواتے تھے جنہوں نے نام نہاد امیرالمؤمنین پر خروج کیا ہوجبکہ امام صادق علیہ السلام اِن محافل و مجالس کے ذریعہ امام حسین کی شخصیت کے ابعاد اور اُن حقائق مخفی کو آشکار فرماتے تھے اور اس بارے میں قرآن مجید جو تمام مسلمین کا متفق علیہ مأخذ ہے اس سے متوسل ہوتے تھے۔

حضرت امام رضا علیہ السلام کے محضر میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اہتمام فرمانے سے متعلق بھی روایات میں موجود ہے لیکن ہم انہی جملات پر اکتفا کرتے ہیں۔جیسے امام علیہ السلام نے فرزند ارجمند نے ذکر کیا ہے۔’’کان أبی إذا دخل شهر المحرم لا یری ضاحکا و کانت الکآبة تغلب علیه حتی یمضی منه عشرة أیام فإذا کان یوم العاشر کان ذلک الیوم یوم مصیبته وحزنه وبکائه ویقول: هو الیوم الذی قتل فیه الحسین صلی الله علیه‘‘(۴۷)جونہی محرم الحرام کا مہینہ شروع ہوتا حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے لب مبارک سے مسکراہٹ ختم ہو جاتی کبھی بھی کسی نے آپ کہ اس ماہ ہنستے نہیں دیکھا آپ اسی طرح روز عاشور تک غمگین رہتے اور روز عاشور جو نہایت غم و اندوہ کا دن ہے حضرت فرماتے یہ وہی دن ہے جس دن میرے جد امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا(۴۸)۔
حضرت امام علی ابن موسی رضا علیہ السلام سے ایک طویل روایت میں نقل ہوا ہے کہ ریّان بن شبیب نقل کرتا ہے میں پہلی محرم کے دن امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت اقدس میں شرفیاب ہوا، آپ ارشاد فرماتے ہیں :حضرت نے مجھ سے فرمایا:شبیب کے فرزند امام حسین علیہ السلام پر اگر گریہ کرو تو جونہی تمہارے آنسو تہارے رخسار پر جاری ہوں حق متعال تمہارے وہ تمام گناہ جنہیں انجام دیتے آئے ہو معاف فرمادے گا۔پھر فرمایا اگر چاہتے ہو کہ جنت میں ہمارے درجات کی طرح ہمارے ساتھ رہو تو ہمارے غموں میں غمگین اور ہماری خوشحالی میں خوشحال رہا کرو۔
اے شبیب کے بیٹے اگر تم کسی بات پر رونا چاہتے ہو تو حسین بن علی علیہ السلام پر رویا کرو کیونکہ انھیں گوسفند کی طرح ذبح کردیا گیا اور انھیں ان کے اٹھارہ اہلبیت کے ساتھ شہید کردیا گیا جن میں سے کسی کی بھی روی زمین پر مثل و شبیہ نہیں تھی۔ان کی شہادت پر ساتوں آسمانوں اور زمینوں نے گریہ کیا،چار ہزار ملائکہ آپ کی نصرت کے لیے آسمان سے نازل ہوئے لیکن اس وقت آپ کی شھادت ہوچکی تھی پھر وہ اپنے بالوں کو پریشان کر کے اس میں مٹی ڈال کر ہمیشہ حضرت کی قبر مطہر کے پاس رہیں گے جب حضرت قائم آل محمد(عج)ظہور فرمائیں گے تو ان کے اصحاب میں سے ہوں گے اور حضرت سے لشکر میں جنگ کرتے ہوئے ان کا نعرہ یہ جملہ ہوگا:’’یا لَثاراتِ الْحُسِیْن عَلَیْهِ السَّلام‘‘اے شبیب مجھے میرے والد بزرگوار نے اپنے اجداد سے خبر دی کہ جب میرے جد امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے آسمان نے خون برسایا اور زمین سرخ ہوگئی اے شبیب کے بیٹے اگر تم حسین علیہ السلام پر گریہ کرو تو اس سے پہلے کہ آنسوؤں کا پانی تمہارے چہرے پر جاری ہو حق متعال تمہارے تمام کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرمادے گا خواہ وہ کم یا زیادہ ۔اے شبیب کے بیٹے اگر خداوندمتعال سے اس حالت میں ملاقات کرنا چاہو کہ تمہاری گردن پر کسی بھی گناہ کو بوجھ نہ ہو تو حسین علیہ السلام کی زیارت کرو۔
اے شیب کے بیٹے اگر تم جنت کے عالی مکانات اور غرفوں میں رسول خدا اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو حسین علیہ السلام کے قاتلوں پر لعنت کرو۔اے شبیب کے بیٹے اگر شہداء کربلا کی طرح کا ثواب لینا چچاہتے ہو تو جب بھی حضرت کی مظلومیت کو یاد کرو تو اس طرح سے کہو: ’’یا لَیْتَنی کُنْتُ مَعَهُمْ فَاَفُوزَ فَوْزاً عَظیماَ‘‘اے کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا اور اس عظیم فلاحی مقام پر فائز ہوجاتا۔
اے شبیب کے بیٹے اگر جنت کے عالی درجات میں ہمارے ساتھ ہونا چاہتے ہو تو ہمارے غم میں غمگین اور ہماری خوش میں خوشحال رہا کرو اور ہماری ولایت کے موالی رہو کیونکہ اگر کوئی شخص کسی پتھر کو پسند کرتا ہو اور اس سے محبت کرتاھوتوخداوندمتعال قیامت کے دن اسے اسی پتھر کے ساتھ محشور فرمائے گا۔ (
۴۹)۔
اہلبیت علیہم السلام کا معروف مداح خوان دِعبل خُزاعی روایت کرتا ہے:عاشورا کے دن حضرت علی ابن موسیٰ رضا کی خدمت میں شرفیاب ہوا تو میں نے دیکھا حضرت اپنے اصحاب کے ہمراہ غمگین بیھٹے ہیں مجھے دیکھتے ہی حضرت نے فرمایا:مرحبا ہو تم پر اے دِعبل جو اپنے ہاتھ و زبان سے ہماری نصرت کرتے ہو۔حضرت نے مجھے نزدیک بلا کر اپنے پاس بھٹایا اور فرمایا:اے دِعبل اس دن ’’جو ہمارے لیے غم و اندوہ کا دن اور ہمارے دشمنان یعنی بنی امیہ کے لیے جشن و سرور کا دن ہے‘‘کی مناسبت سے میرے لیے کوئی شعر پڑھو۔
اے دِعبل جو بھی ہماری مصیبت اور مظالم پر
’’جسے ہمارے دشمنوں نے ہم پر ڈاھایا’’روئے اور دوسروں کو بھی رولائے تو حق متعال اسے ہمارے ساتھ ہمارے زمرہ میں محشور فرمائے گا۔پھر فرمایا : اے دعبل جو میرے جد امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر روئے خداوند متعال اس کے گناہ معاف فرمادے گا۔پھر امام اٹھے اور اپنے اہلبیت کے لیے ایک پردہ نصب کیا اور انہیں پردے کے اس طرف بھٹایا تاکہ وہ بھی امام حسین علیہ السلام پر گریہ کریں پھر مجھ سے کہا :اے دعبل امام حسین علیہ السلام پر مرثیہ پڑھو تم جب تک زندہ ہو ہمارے مداح و ناصر ہو اور اسی طرح ہماری نصرت کرتے رہو اور اس میں کوتاہی نہ کرو‘‘دِعبل کہتا ہے میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں امام حسین علیہ السلام کا مرثیہ پڑھنا شروع کیا۔(
۵۰)
شیخ صدوق رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:محرم ایسا مہینہ ہے کہ زمان جاہلیت میں لوگ اس مہینہ جنگ کو حرام جانتے تھے لیکن اس جفاکار امت نے اس ماہ کی حرمت کا پاس نہ رکھا اور ہمارے خون کو حلال ،ہمارے احترام کو ضایع اور ہمارے اہلبیت کو اسیر کیا۔ اہلبیت کے خیام کو آگ لگادی اور اُن کے اموال کو غارت کیا۔ہماری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت کا پاس نہ رکھا۔امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے روز ہماری آنکھوں کو مجروح آنسوں کو جاری اور ہمارے عزیزوں کی بے احترامی کی گئی۔پس امام حسین علیہ السلام پر رونے والے روئیں چونکہ ان پر رونا بڑے بڑے گناہوں کو محو کردیتا ہے۔(
۵۱)

حضرت امام زمان عجل اللہ فرجہ اور امام حسین علیہ السلام کی عزاداری

حضرت ولی عصرامام زمان عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزداری ان کے مصائب پر رونے کی نہایت اہمیت کے قائل ہیں اور اس بات کا اندازہ حضرت کی جانب سے نقل ہونے والی دو زیارتیں یعنی حضرت امام حسین علیہ کی زیارت اور شہداء کربلا کی زیارت ہیں جن میں حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے درد ناک مصائب ذکر فرماتے ہیں۔
حضرت امام زمان عجل الله تعالی فرجہ الشریف سے نقل ہونے والی حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں: ’’ فَلاَندُبَنَّک صَباحاًوَمسآءًوَلَأَبکِیَنَّ بَدَلَ الدُّموعِ دَماً‘‘(
۵۲)اے میرے آقا !خدا کی قسم؛میں دن رات آپ کی مظلومیت و مصیبت پر عزاداری کرتا اور آنسوؤں کے بدلے خون روتا ہوں۔حضرت پہلے فقرے میں اپنی عزاداری اور دوسرے فقرے میں آنسوؤں کی جگہ خون رونے کا ذکر فرماتے ہیں۔

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کا خون کے آنسورونا

محققین معتقد ہیں کہ انسان کی آنکھوں کے پیچھے خون کے تھیلے ہوتے ہیں جب انسان کے غم و حزن سے متأثر ہوتا ہے تو ان تھیلیوں کا خون پانی میں تبدیل ہو کر آنکھوں سے آنسوؤں کی شکل میں جاری ہوجاتا ہے اور اگر رونے کا یہ عمل غم کی شدت کی وجہ سےطویل اور شدید ہو جائے تو خون کو پانی میں تبدیل کرنے کا عمل مختل ہوجاتا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جگہ خون بہنے لگتا ہے۔(۵۳)حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی اسی نکتہ کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ میں آپ کی مظلومیت اور مصیبت میں اس قدر عزاداری کرتا ہوں کہ میری آنکھوں سے آنسو جاری نہیں ہوتے بلکہ خون جاری ہوتا ہے اور کسی خاص وقت یہ عزاداری نہیں کرتا بلکہ پورا سال دن رات اپنے جد کی مظلومیت پر خون کے آنسو بہاتا ہوں۔
روایات میں ہے کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے دنیا والوں کو مخاطب قرار دے کر جو فریاد بلند کریں گے ان میں سے تین جملے حضرت سید الشہداء علیہ السلام سے متعلق ہیں:’’أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الامامُ القائمُ الثانی عَشَرَ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَا الصّمْضامُ المُنْتَقِم ،أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن قَتَلوهُ عَطْشاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْنطَرَحوهُ عُریاناً ، أَلا یا أهْلَ الْعالَمِ اَنَّ جَدّیَ الْحُسَیْن سَحَقوهُ عُدواناً ‘‘(
۵۴)اے دنیا والوں! میں آپ کا وہ امام ہوں جس کے قیام کا آپ سے وعدہ کیا گیا ہے، میں ظالموں کے خلاف انتقام لینے والی تیز دھاری والی تلوار ہوں،اے دنیا والو!میرے جد امجد حسین کو پیاسا شہید کردیا گیا ، اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کو مطہر جسم کو عریاں خاک کربلا پر چھوڑ دیا گیا! اے دنیا والو ! میرے جد امجد حسین کے پاک و مطہر بدن کو دشمنی کی خاطر گھوڑوں کے سموں تلے پائمال کردیا گیا۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ جب حضرت ظہور فرمائیں گے تو سب سے پہلے مجلس منعقد کریں گے اور اپنے مظلوم جد امجد کی عزداری کریں گے اور اپنے قیام کی ابتداء کو کربلا کے قیام سے متصل کرتے ہوئے دنیا والوں کے سامنے یہ ثابت کردیں گے کہ

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

پانچویں فصل
حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو اس قدر اہتمام سے منانے کی وجوہات

کیا وجہ ہے کہ ہر مناسبت پر حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی زیارت مستحب ہے اور حضرت کی عزاداری کی اس قدر تاکید کی جاتی ہے؟ اس کی حقیقت یہی ہے کہ شیعتہ ایک مذہب نہیں بلکہ ایک مکتب فکر،مکتب تعلیم،مکتب تربیت کا نام ہے اور حضرت سید الشہداء علیہ السلام اس مکتب کے مربی ہیں۔ ہر مناسبت سے حضرت سید الشہدا کی یاد کو زندہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ مکتب زندہ رہے، شہادت طلبی کی روح زندہ رہے اور اگر یہ زندہ ہیں تو اسلام زندہ ہے یعنی اسلام کی حیات تا روز قیامت،تا روز حشر ذکر حسین کے مرہون منت ہے ۔اگر ذکر حسین زندہ ہے تو اسلام زندہ ہے۔ حضرات معصومین علیہم السلام ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نجات کی کشتیاں ہیں لیکن ہم سب میں حسین کی کشتی سریع اور تیز تر ہے۔

عزاداری امام حسین علیہ السلام پر تاکید کی وجہ

ممکن ہے بعض اذہان میں یہ سوال ابھرے کہ کیا وجہ ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام نے ہر خوشی اور غم کی مناسبت پر امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی ہی کیوں اس قدر تاکید فرمائی ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا الہٰی اقدار کی طرف رغبت دلانے والا انسان ساز مکتب جب تک زندہ ہے خون کی تلوار پر فتح و کامیابی کا یہ عملی نمونہ لوگوں کے درمیان زندہ رہے گا جس سے درس لیتے ہوئے اور مشعل راہ قرار دیتے ہوئے وہ ہر یزید زمان کے مقابلے میں آسانی سے قیام کرسکیں گے اور اس طرح قیامت تک الہٰی اقدار حسینیت کی ان مجالس کی مرہون منت رہیں گی۔ اسی وجہ سے حضرات معصومین علیہم السلام نے ہزاروں شاعروں،مصنفوں،خطیبوں کی توانائیوں سے استفادہ کرتے ہوئے اس مکتب کو قیامت تک زندہ رکھنے اور اس مکتب کے چاہنے والوں کو ‘‘یا حسین’’ کے پرچم تلےوحدت و اتحاد سے جمع رکھنے کا منصوبہ بنایا ہے۔اسی لیے اسلام کے دشمنوں نے ہمیشہ اس عزاداری کے مقابلے میں آنے اور اس کا راستہ روکنے اور اس کی وحدت کو سبکتاژ کرنے کی کوشش کی ہے

حضرات معصومین علیہم السلام کی روش سے لوگوں کا متعارف ہونا

یہ مجالس حضرات معصومین علیہم السلام کی سیرت اور ان کے اہداف کو بیان کرنے کے لیے بہترین پٹیک فارم ہیں اور جو لوگ ان مجالس و محافل میں شرکت کرتے ہیں ان کے دل معارف اہلبیت علیہم السلام دریافت کرنے کے لیے مکمل آمادہ ہوتے ہیں۔لہٰذا کہ مجالس اسلام سے تعلق رکھنے والے ہر مسلمان کے لیے اسلام کے حقیقی اور نایاب معارف حاصل کرنے کی درس گاہ ہیں اور انہی سے اسلام کا دفاع ممکن ہے۔

حجج الہٰی سے دلی وابستگی ایجاد ہونا

حضرت معصومین علیہم السلام نے ان مجالس کو منعقد کرنے کی بہت تاکید کی ہے اور ان مجالس کا مطلب در حقیقت معصومین علیہم السلام کے دستورات کی مکمل اطاعت کرنا ہے ۔بدیہی ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام اپنے تابعین کی اس مخلصانہ اطاعت کا ضرور جواب دیں گے یعنی ان مجالس کے شرکاء پر حضرات کی خاص عنایات ہوں گی۔

معاشرے میں رائج انحرافات سے آشنائی

جب عاشورا کے واقعہ میں خاندان اہلبیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم اور ان کے مد مقابل نام نہاد مسلمانوں کے عقیدتی وفکری انحرافات کو بیان کیا جائے گا تو اس طرح خلافت کے کاذب اور جھوٹے مدعیوں کے حقیقی چہروں سے نقاب ہٹ جائے گا اور اس طرح فطری طور پر لوگ اس زمانے کے حالات کا اپنے فعلی اور جاری حالات سے موازنہ کریں گے ۔اسی طرح اپنے معاشرے کی بھی انہی اقدار کے مطابق اصلاح کرنے کی کوشش کریں گے اور یزید وقت سے اظہار بیزاری کرتے رہیں گے ۔انہیں یہ یقین ہوجائے گا کہ یزیدیت کا ظلم اور اس کے انحرفات کسی خاص زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر زمانے میں اور ہر معاشرے میں مؤمنین کو یزیدیت کا سامنار ہےگاباالفاظ دیگر یہ مجالس عزا لوگوں کی بصیرت اور آگاہی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں اور انسان کے اس کی وظیفہ سے آشنا کرواتی ہیں۔

سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا ثواب

علی بن حمزہ کے والد حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں:’’انّ البکاء و الجزع مکروه للعبد فی کلّ ما جوع، ما خلا البکاء علی الحسین بن علی (ع) فانّه فیه مأجور‘‘(۵۵) حضرت امام حسین علیہ السلام پر عزاداری کے علاوہ ہر مصیبت میں رونا مکروہ ہے جبکہ امام حسین علیہ السلام رونے کا ثواب ہے۔
حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ارشاد فرماتے ہیں:’’یا فاطمهْ!کلّ عین باکیهْ یوم القیامهْ، الاّ عین بکت علی مصاب الحسین(ع) فإنّها ضاحکهْ مستبشرهْ بنعیم الجنهْ‘‘(
۵۶)قیامت کے دن ہر آنکھ روئے گی مگر وہ آنکھ جو حسین (علیہ السلام) پر روتی رہی ہو وہ قیامت کے دن وہ خوشحالی سے مسکرائے جبکہ اسے جنت کی نعمتوں کی بشارت دی جائے گی۔
۔1 – پیغمبر اکرام صلی الله علیہ و آلہ و سلم اپنی بیٹی حضرت زهرا علیانالسلام سے فرماتے ہیں:’’کل عین باکیة یوم القیامة الا عین بکت علی مصاب الحسین فانها ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنة‘‘(
۵۷)قیامت کے دن ہر آنکھ روئے کی مگر وہ آنکھ جو حسین کے مصائب میں روئی ہو وہ قیامت کے دن خوشحال ہوگا اور جنتی نعمات سے بہرہ مند ہو گا۔
۔
۲۔ یہ روایت بھی اختلاف الفاظ کے ساتھ مشہور ہے کہ حضرات معصومین علیہم ‏السلام سید الشہداء علیہ السلام پر رونے کے اجر کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:’’۔۔۔ من بکی او أبکی مأة ضمنا له علی الله الجنة ۔۔۔‘‘۔’’۔۔۔ و من بکی او ابکی خمسین فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ثلاثین فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ابکی عشرة فله الجنة‘‘ و ’’من بکی او ابکی واحدا فله الجنة، و من تباکی فله الجنة‘‘(۵۸)۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ سو افراد کو بھی رولائے ہم اس کی جنت کے ضامن ہیں۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ پچاس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ تیس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ دس افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے؛
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پرروئے اور اپنے ساتھ ایک شخص افراد کو بھی رولائے وہ جنتی ہے۔
جو بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت پررونے والی حالت اختیار کر لے وہ جنتی ہے۔
۔
۳۔ داود ترقی کہتا ہے:میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے محضر میں تھاجب حضرت نے پانی مانگا اور جب پانی پی لیا تو حضرت کی آنکھوں سےآنسو جاری ہو گئے اور فرمایا: قاتلیں حسین علیہ السلام پر لعنت
پھر فرمایا جو کوئی بھی پانی پیتے وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کو یاد کرے اور ان کے قاتلوں پر لعنت بھیجے ۔خداوندمتعال اس کے نامۂ عمل میں ایک لاکھ نیکیوں کا اضافہ فرمائے گا اس کے گناہ معاف فرمادے گا اس کے درجات میں ایک لاکھ درجات کا اضافہ فرمائے گا وہ اس کی مانند ہو گا جس نے راہِ خدا میں ایک لاکھ غلام آزاد کیے ہوں اور قیامت کے دن خداوندمتعال اسے اطمینان قلب کے ساتھ محشور فرمائے گا۔(
۵۹)۔

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے گناہوں کا مٹ جانا

ایک دن مرحوم سید بحر العلوم رحمۃ اللہ علیہ تنہا پیدل سامراء کی زیارت کے لیے نکل پڑے اور راستے میں یہ سوچ رہے تھے کہ کیسےحضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری گناہوں کو مٹا دیتی ہے؟اسی وقت متوجہ ہوئے کہ ایک شخص جو گھوڑے پر سوار ہے ان کے پاس پہنچتا ہے۔ انھیں سلام کرنے کے بعد سوال کرتا ہے کہ اے سید کیاسوچ رہے ہو؟اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو بتاؤ ہم بھی سنیں؟
مرحوم سید بحر العلوم فرماتے ہیں:میں یہ سوچ رہا ہوں کہ خداوندمتعال کس طرح حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کا اتنا بڑا ثواب ان کے زائرین اور عزادری کرنے والوں کو عنایت فرماتا ہے ؟مثلاً وہ زیارت کے سفر میں جو قدم بھی اٹھائیں ہر قدم کے بدلے میں انھیں ایک حج اور ایک عمرہ کا ثواب ان کے نامۂ اعمال میں اضافہ فرمادیتا ہے۔۔۔ اور عزادری میں آنسو کا ایک قطرہ بہانے سے عزادار کے گناہ محو ہوجاتے ہیں۔؟
اس سوار نے فرمایا:تعجب نہیں کرو! میں اس مسئلہ کے حل کے لیے آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔
ایک بادشاہ اپنے درباریوں کے ہمراہ شکار کے لیے نکلتا ہے شکارگاہ میں وہ اپنے ساتھیوں سے گم ہو جاتا ہے اور نہایت مشکل میں مبتلا ہوجاتا ہے بھوک اور پیاس سے بےحال ہوجانے کے بعد ایک خیمہ کو دیکھتا ہے اور اس خیمے میں داخل ہوجاتا ہے۔ اس خیمہ میں ایک بوڑھی عورت کو اس کے بچے کے ساتھ دیکھتا ہے ان کے پاس خیمہ میں ایک دودھ دینے والی بھیڑ ہوتی ہے وہ لوگ اسی جانور کے دودھ سے اپنا گذر بسر کرتے تھے۔ جب سلطان ان کے خیمہ میں داخل ہوتا ہے تو وہ اسے نہیں پہچانتے لیکن اپنے مہمان کی خدمت کے لیے وہ اپنی تنہا جمع پونجی یعنی بھیڑکو ذبح کردیتے ہیں اور گوشت سے کباب بنا کرسلطان کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔سلطان رات ان کے پاس قیام کرتا ہے اوردوسرے دن ان سے خداحافظی کرنے کے بعد جس طرح بھی ہوا اپنے ساتھیوں سے جاملتا ہے اور انھیں تمام ماجرا سے آگاہ کرتا ہے ۔ پھر ان سے دریافت کرتا ہے کہ ان سب کی نظر میں اگر میں اس بوڑھی عورت اور اس کے بیٹے کا شکریہ ادا کرنا چاہوں تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟
ایک نے کہا:انھیں سو بھیڑیں عنایت فرمائیں۔
دوسرے نے کہا:سو بھیڑوں کے ساتھ سو اشرفی بھی عنایت فرمائیں۔
تیسرے نے کہا:انھیں ایک زرعی زمین بھی ان کے ساتھ عنایت فرمائیں۔
سلطان نے کہا :میں جو کچھ بھی دوں وہ کم ہے ۔ اگر میں انھیں اپنا تاج و تخت دے دوں تو اسی وقت ان کے ساتھ مقابلہ بالمثل ہوگا کیونکہ انھوں نے اپنا سب کچھ میرے اوپر قربان کردیا تھالہذا مجھے بھی اپنا سب کچھ انھیں دے دینا چاہئے تاکہ حساب برابر ہو جائے۔
پھر سوار نے سید بحر العلوم سے کہا:حضرت سید الشہداء علیہ السلام نے اپنا سب کچھ یعنی مال و منال، اہل و عیال،بیٹے،بھائی،بیٹی،بہن،سر،بدن سب کچھ خداوندمتعال کی راہ میں قربان کردیا۔تو پھر اگر خداوندمتعال اس مظلوم امام کے زائرین اور عزاداروں کے اس طرح کے ثواب و اجر دےتوتعجب نہیں کرنا چاہیے۔چونکہ خدا اپنی خدائی تو سید الشہداء کو نہیں دے سکتا تو پھر اپنے عالی مقام کے علاوہ جو کچھ بھی حضرت کے زائرین کو عنایت فرمائے اس کے باوجود بھی اس فداکاری کی مکمل جزا کسی کو معلوم نہیں ہوسکتی۔
سوار ان مطالب کو کہنے کے بعد سید بحر العلوم کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔(
۶۰)۔

نتیجۂ فکر

اس مقالہ کے اختتام پر حضرات معصومین علیہم السلام کا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری برگزار کرنے کے ہدف سے متعلق کچھ نکات ذکر کرتے ہیں:
۱۔حضرات معصومین علیہم السلام کا عزاداری کی محافل منعقد کرنے کا ہدف امام حسین علیہ السلام کی حقانیت اور یزیدی واموی دعوؤں کو جھٹلانا تھا۔یعنی اسلامی معاشرے کے عمومی اوضاع کچھ اس طرح تھے کہ حتی حضرات کے بعض اصحاب بھی اس موضوع سے غافل تھے۔(۶۱)اسی لیے حضرات معصومین علیہم السلام سے نقل ہونے والی دعاؤں،روایات میں معصومین نے اس نکتہ کی طرف مرتب اشارہ فرمایا ہے کہ امام حسین علیہ السلام اسلامی احکام کی احیاء نماز اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے احیاء کے لیے قیام فرمایا۔(۶۲)۔
۲۔حضرات معصومین علیہم السلام امام حسین علیہ اسلام کی عزاداری کے ذریعہ اپنے آپ کو امام حسین علیہ السلام سے منسوب فرما کر اپنی حقانیت اور اپنے زمانے کے حکمرانوں کے بطلان کو اثبات کرتے تھے۔عزاداری سید الشہداء کو مؤثر جانتے تھے ظالم حکمرانوں کے خلاف مبارزہ و جدوجہد میں امام رضا علیہ السلام جب امام حسین علیہ السلام کی مصیبت کو بیان فرماتے تو‘‘آپ’’کی جگہ’’ہم‘‘کا لفظ استعمال فرماتے تھے۔یعنی فرماتے اِس ظالم و جفاکار امت نے ہمارے خون کو حلال اور ہمارے احترام کو پائمال کیا۔ہمارے اہلبیت کو اسیر کیا، ہمارے خیام کو آگ لگائی،ہمارے اموال کو غارت کیا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہمارے حق میں احترام کا لحاظ و پاس نہ رکھا۔(۶۳)۔
مشہور ومعروف حدیث جسے حدیث ’’سلسلۃ الذہب‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،اس حدیث میں بھی حضرت امام رضا علیہ السلام نے توحید کے قلعہ میں داخل ہونے اور عذاب الہٰی سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی ولایت کی قبولی کو شرط بیان فرمایا ہے۔’’کلمة لااله الااللّه حصنی فَمن دَخلَ حصنی اَمِن مِن عذابی بشرطها و شروطها و اَنا مِن شروطها‘‘(
۴۰)اس سلسلہ میں حضرات معصومین علیہم السلام قرآن مجید کی آیات سے استدلال لاتے تھے جو تمام اسلامی فرقوں کے لیے مورد اعتماد ہے جیسے وہ آیات جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل کے امت پر حقوق کو بیان کرتی ہیں۔’’ قُل لا اسألکم علیه اجرا الاّ المودةَ فِی القُربی‘‘
(
۶۴)جیسے آخری روایت میں بیان ہوا ہے یا پھر ایک دوسری روایت میں قرآن مجید کی ان آیات سے تمسک کیا گیا ہے جس میں شہید راہِ حق کی خصوصیات کی طرف اشارہ ہوا ہے۔(۶۵)۔
حضرات معصومین علیہم السلام کے محضر میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کی کیفیت سے متعلق بھی روایات اور تاریخی شواھد میں کچھ اس طرح سے ملتا ہے کہ یہ مراسم اس ادعیٰ کے برعکس’’جس میں کہا ہے کہ یہ مجالس مخفیانہ منعقد ہوا کرتی تھیں‘‘حضرات معصومین علیہم السلام کی سعی و کوشش یہی ہوا کرتی تھی کہ اِن مراسم کو اپنے اصحاب کے اجتماع میں حتی اپنے اہلبیت کے حضور میں علنی طور پر منعقد کریں۔
ابن قولویہ ابن ہارون مکفوف(
۶۶)سے روایت کرتے ہیں میں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا حضرت نے مجھ سے فرمایا: امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر کوئی شعر پڑھو ابو ہارون نے اپنے انداز میں کتاب سے دیکھ کر کچھ اشعار پڑہے تو حضرت نے فرمایا:اسی طرح پڑھو جس طرح تم حضرت کی قبر اطہر پر جا کر مرثیہ خوانی کرتے ہو!یعنی سوز و حزن کے لہجے میں پڑھو۔اس نے کہا میں نے یہ اشعار پڑھے:

امر علی حدثِ الحسینِ         فقُل لاِعظُمهِ الزکیّه

یعنی امام حسین کے مزار اقدس سے گذروتو حضرت کی پاک و مطہر ہڈیوں سے کہو۔
حضرت نے رونا شروع کیا تو میں خاموش ہوگیا۔حضرت نے فرمایا:پڑہو میں نے مزید کچھ اشعار پڑھے۔پھر حضرت نے فرمایا:مزید پڑھو میں نے اِس شعر کو پڑھا۔

یا مریم قومی فانّه بی مولاکِ          و علی الحسینِ فاسعدیِ ببکاکِ

پس حضرت نے بکاء فرمایا اور حضرت کے اہلبیت کی فریادیں بھی بلند ہوئیں پھر جب خاموش ہوئے تو فرمایا:اے ہارون جو بھی حسین کی مصیبت میں شعر کہے اور دس افراد کو رولائے اس پر جنت واجب ہے۔پھر حضرت نے رونے والےافراد کی تعداد میں کمی کرنا شروع کردی یہاں تک کہ ایک شخص تک پہنچ گئے اور فرمایا:’’جو بھی حسین کی مصیبت میں شعر کہے اور ایک شخص کو رولائے اس پر جنت واجب ہے‘‘۔(۶۷)۔
اس روایت سے واضح معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرات معصومین علیہم السلام محزون و سوزناک آواز سے عزاداری کی تشویق و ترویج فرمایا کرتے تھے اور اس حالت میں عزاداری کے لیے زیادہ فضیلت و ثواب کے قائل تھے۔اور سعی وکوشش فرمایا کرتے تھے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو بھی اِن محافل میں شرکت کروائیں۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے شوق اور رغبت دلانے کے انداز میں فضیل بن یسار سے فرمایا:کیا ایسی مجلس کا انعقاد کرتے ہو جس میں ہمارے متعلق گفتگو ہو؟فضیل نے عرض کیا۔

جی ہاں!امام علیہ السلام نے فرمایا:میں اِن محافل و مجالس کو پسند کرتا ہوں لہٰذا ہمارے ہدف کو زندہ رکھو۔خداوند متعال رحمت فرمائے اس شخص پر جو ہمارے امر(مقصد) کو زندہ کرے۔اے فضیل جو بھی ہمیں یاد کرے یا اسکے پاس ہمرا ذکر ہو اور اس کی آنکھوں میں مکھی کے پُر کے برابر آنسو آجائیں خداوند متعال اس کے گناہوں کو معاف فرمادے گا۔(۶۸)
اس آخری روایت سے متعلق ایک ضروری وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری سے متعلق اس قسم کی احادیث و روایات جن میں گناہوں کی بخشش کا ذکر ہوا ہے گناہوں کے ارتکاب و محرمات الہیٰ کے انجام دینے اور واجبات الہٰی کو ترک کرنے کا مجوزہ سرٹفکیٹ تصور کرلیتے ہیں جبکہ خود حضرت امام حسین علیہ السلام نے حرام الہٰی یعنی ظالم و فاسق حکمران کی بیعت کو ترک کرنے اور شرعی واجبات یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے احیاء کے لیے قیام فرمایا تھا اور اسی ہدف میں شہید ہوئے تھے۔
خود روزِ عاشور نماز ظہر کو ان سخت اور دشوارحالات میں ادا کرنا،دشمن سے آخری رات قرآن مجید کی تلاوت و حق متعال سے راز و نیاز کے لیے مہلت طلب کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو قرآن مجید اور نماز سے دلی وابستگی تھی لہٰذا شاید حضرات معصومین علیہم السلام کی عملی سیرت کو شاہد بنا کر اس قسم کی روایات کی اس طرح سے تفسیر کی جاسکتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اسلامی معاشرے میں امید کی ایک کرن ایجاد کرتی ہے مخصوصاً گناہگاروں کے دلوں میں کے انھوں نے جتنے بھی گناہ کیے ہوں انھیں رحمت الہٰی سے مایوس نہیں ہونا چاہیے آئیں اور امام حسین علیہ السلام پر عزاداری کرکے اپنے گناہوں کی اس وسیلہ کے ذریعہ بخشش طلب کریں اور یہ عزاداری ان کی گذشتہ ناپاک زندگی سے نجات اور آئندہ کی شفاف زندگی کا باعث بنے گی لہٰذا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اُن کے گذشتہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ ضرور ہے لیکن آیندہ گناہ کرنے کا سرٹفکیٹ ہرگز نہیں بلکہ عزاداری حضرت سید الشہداء علیہ السلام تو گناہوں سے روکتی ہے اور اعمال صالحہ کی دعوت دیتی ہے اور بالفاظ دیگر عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام خود سازی کا آسان ذریعہ ہے۔

  حوالہ جات

۔(۱)۔قرآن مجید،سورۂ شوری، آیت نمبر۲۳۔

۔۲۔سید على بن موسى بن طاوس، إقبال الأعمال،دار الکتب الإسلامیہ تہران،۱۳۶۷ھ۔ش۔

۔۳۔ محمدحسین مظفّر، تاریخ شیعہ، ترجمہ محمدباقر حجتی، تہران، دفتر نشر فرہنگ اسلامی، ۱۳۶۸، ص ۶۹۔
۔
۴- مقرم،مقتل الحسین علیہ السلام،ص ۲۸۳۔
۔
۵۔قرآن مجید، سورۂ بقره، آیت نمبر ۳۷۔
۔
۶۔ ملا محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، بیروت، دارالاحیاء التراث العربی، ۱۴۰۳ق(۱۹۸۳م) ج۴۴ص۲۸۳
۔
۷۔ ایضاً ،ص۲۸۸۔
۔
۸۔ایضاً،ج۱۰۱،ص۱۱۰۔
۔
۹۔ایضاً،ج۱۰۱،ص۵،ح۱۸۔
۔
۱۰۔جعفربن محمد بن قولویہ، کامل الزیارات، نجف، مطبعہ المرتضویہ، ۱۳۵۶ق، ص۳۵۶، باب۷۸، ح۳۔
۔
۱۱۔ محمد بن علی بن بابویہ(شیخ صدوق)،امالی،ترجمہ محمد باقر کمرہ ای،تہران،کتابخانہ اسلامی،۱۳۶۲ش،ص۳۱۷
۔
۱۲۔شیخ صدوق،ثواب الاعمال و عقاب الاعمال،ص۸۵
۔
۱۳۔کامل الزیارات،ص۲۶۲،باب۵۴،ح۱
۔
۱۴۔سورۂ بقرہ آیت نمبر۳۷
۔
۱۵۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۵،ح۴۴۔
۔
۱۶۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،ح۳۸
۔
۱۷۔سید موسیٰ جوادی،سوگنامہ آل محمد،ص۳۴،مکتبہ امام رضاؑ
۔
۱۸۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،۲۴۴،ح۳۹
۔
۱۹۔ایضا،ص۲۴۴،ح۴۲
۔
۲۰۔مستدرک الوسائل،ج۱۰،ص۳۱۸
۔
۲۱۔ایضاً،ص۲۴۴،ح۴۱
۔
۲۲۔ایضاً،ص۳۰۸و۲۴۴و۲۷۹
۔
۲۳۔ایضاً،ص۲۲۳
۔
۲۴۔ایضاً،ح۴۳
۔
۲۵۔مقتل،حافظ ابوالمؤید خوارزمی،ج۱فصل۶ص۸۸
۔
۲۶۔مستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابہ،ج۳ص۱۷۶
۔
۲۷۔مسند احمد حنبل،ج۳،ص۲۶۵
۔
۲۸۔کنزالعمال،ج۶،ص۲۲۳
۔
۲۹۔مقتل خوازمی،ج۱ص۱۵۹
۔
۳۰۔بحارالانوار،ج۴۴،ص۲۵۲و۲۵۴
۔
۳۱۔محمد بن جریر طبری، تاریخ طبری(تاریخ الرسل والملوک)، ترجمہ ابوالقاسم پابندہ، ۱۳۶۲،ج ۷ص۳۱۰۳۔
واقعہ حرہ جو
۶۲ھ۔ق میں ہوا(البتہ بعض مؤرخین نے اسے ۶۳ھاور بعض نے ۶۴ھلکھا ہے)عبداللہ بن حنظلہ نے اہل مدینہ کی مدد سے یزید کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اموریوں کی حکومت کے مدینہ میں نمائندے مروان بن حکم پر غلبہ حاصل کرنے کے بعد حکومت اپنے ہاتھ لے لی۔
۔
۳۲۔ابوالفداء(اسماعیل)ابن کثیر الدمشقی، البدایۃ والنہایۃ، بیروت، مکتبہ المعارف، ۱۹۷۷م، ج۹، ص۱۰۷۔
۔
۳۳۔سورۂ یوسف آیت نمبر ۸۶ رجوع فرمائیں، امالی، مجلس۲۹، ص۱۴۱۔
۔
۳۴۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۵
۔
۳۵۔بحار الانوار،ج۴۵،ص۱۹۶
۔
۳۶۔علی ابوالحسنی(منذر)سیاھپوشی در سوگ آئمہ نور علیہم السلام،قم،الاقدی،۱۳۵۷،ص۱۲۶۔
۔
۳۷۔جعفر شیدلی،تاریخ تحیلیل اسلام تا پایان امویان،تہران،مرکز نشردانشگاہی،۱۳۸۰،ص۱۹۰۔
۔
۳۸۔ازدی کوفی،نصوص من تاریخ ابی مخنف،ج۱ص۵۰۳کے بعد
۔
۳۹۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۳۹
۔
۴۰۔شیخ صدوق،امالی،مجلس۲۷
۔
۴۱۔سید شرف الدین، فلسفہ شہادت و عزاداری حسین بن علی ؑ، ترجمہ علی صحت، تہران، مرتضوی، ۳۵۱ص۶۸۔
۔
۴۲۔دسویں،گیارہویں،بارہویں ذی الحجہ کو حاجی حضرات اعتکاف کی حالت میں منی میں بیتوتہ کرتے ہیں ان ایام کو ‘‘ایام تشریق’’ کہتے ہیں۔
۔
۴۳۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۲
۔
۴۴۔فخر الدین طریحی،المنتخب الطریحی،قم،منشورات الرضی،۱۳۶۲ش،ج۲،ص۴۸۲۔
۔
۴۵۔سورۂ بقرہ،آیت نمبر۱۵۵
۔
۴۶۔بحار الانوارج۴۴ص۲۸۴
۔
۴۷۔منتہی الاعمال،شیخ عباس قمی
۔
۴۸۔کامل الزیارات،باب۳۲،ص۱۱۲
۔
۴۹۔امالی،مجلس ۲۷،ص۱۲۹و۱۳۰
۔
۵۰۔زیارت ناحیہ
۔
۵۱۔شیرازی،سید محمد صادق،قطرہ ای از اقیانوس بلا،ص۱۸،انتشارات یاس زہرا،قم،۱۳۸۴ش
۔
۵۲۔بحار الانوار،ج۱۰۱،ص۳۲۰
۔
۵۳۔ایضاً،ج۴۴،ص۲۹۳
۔
۵۴۔سید ابن طاووس،لہوف،ص۱۱
۔
۵۵۔بحار الانوار،ج۴۴ص۳۰۲
۔
۵۶۔عباس موسوی مطلق،توجہات امام زمان
۵۷۔حضرت امام صادق علیہ السلام نے عبداللہ بن سنان(جو آپ کے اصحاب میں سے تھے)کے جواب میں جب اس نے آپ اور آپ کے اصحاب کے غمگین ہونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا:کیا تم نہیں جانتے آج ہی کے دن امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تھا۔رجوع فرمائیں،علی ربانی خلخلالی،عزاداری از دیدگاہ مرجعیت شیعہ،قم،مکتب الحسینی،۱۴۰۰ق،ص۳۰۔
۵۸۔مثال کے طور پر زیارت امین اللہ کی دعا جو حضرت امام سجاد علیہ السلام سے منسوب ہے اور زیارت عاشورہ جو حضرت امام باقر علیہ السلام سے منسوب ہے۔
۔
۵۹۔امالی،مجلس۲۷،ص۱۲۸
۔
۶۰۔شیخ صدوق،عیون اخبار رضا،ترجمہ محمد تقی اصفہانی،علمیہ اسلامی،ج۱ص۳۷۴
۔
۶۱۔سورۂ شوری،آیت نمبر ۲۳
۔
۶۲۔مکفوف نابینا کے معنی میں ہے اور ابو ہارون کے نابینا ہونے کی وجہ سے اسے مکفوف کہتے تھے۔
۔
۶۳۔شیخ عباس قمی،منتہی الآمال،ص۷۰۷
۔
۶۴۔سید شرف الدین،فلسفہ شہادت و عزاداری حسین بن علی،ص

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 11:00

حضرت امام حسین علیہ السلام کی ولادت سےپہلے آپ پر انبیاء کی عزاداری



حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت آدم اور جبرائیل علیہم السلام کی عزاداری

کتاب ’’دُرّالثمین‘‘کے مصنف

’’فَتَلَقّی آدَمَ مِنْ رَبِّهِ کَلَماتٍ فَتابَ عَلَیْهِ إنَّهُ هُوَ التَّوابُ الرَّحیمُ‘‘(1)

کی تفسیر میں لکھتے ہیں:سب پہلے پیغمبر جن کے سامنے جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے مصائب کا تذکرہ کیا وہ حضرت آدم علیہ السلام تھے۔ پھر جب حضرت آدم نے پیغمبر اکرم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کے اسماء گرامی کوعرش پروردگار پر مشاہدہ کیا تو جبرائیل نے حضرت آدم سے کہا انھیں پڑھو:’’یٰا حَمیدُ بِحَقِّ مُحَمَّد یٰا عٰالی بِحَقِّ عَلی یٰا فٰاطِرُ بِحَقِّ فاطِمة یٰا مُحْسِنُ بِحَقِّ الْحَسَنْ وَ الْحُسَیْن وَ مِنْکَ الْإحْسان‘‘جب امام حسین علیہ السلام کا اسم گرامی حضرت آدم کی زبان مبارک پر جاری ہوا تو اُن کی آنکھوں سےبے ساختہ آنسوؤں کا سیلاب جاری ہوگیا ان کا دل غمگین ہو گیا جبرائیل سے کہنے لگے:کیوں اس نام کو زبان پر جاری کرنے سے میرا دل غمگین ہو گیا ہے اور میرے آنسو بھی جاری ہو گئے ہیں؟ جبرائیل نے کہا: آپ کے اس فرزند پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں گے؛ جو سب کے سب اس کے آگے حقیر ہوں گے۔حضرت آدم نے سوال کیا:وہ میبتں کیا ہوگی؟جبرائیل نے کہا:آپ کا یہ فرزند پیاسا،غربت کے عالم میں حامی و ناصر کے بغیر شہید کردیا جائے گا۔ اے آدم!کاش آپ اسےاس وقت دیکھیں کہ وہ کیسے’’وا عَطشاه واقلة ناصِراه‘‘کی فریاد کرے گا اور پیاس اس کے اور آسمان کے درمیان دھوئیں کی طرح حائل ہو جائے گی ۔کوئی بھی تلوار کےسوا اس کا جواب دینے والا نہ ہوگااور پھر دنبے کی طرح ان کا سر پشت گردن سے جدا کردیا جائے گا ان کے دشمن ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کےسروں کو ان کے غمزدہ اہل وعیال کے ساتھ شہر شہر پھرائیں گے یہ سب کچھ حق متعال کے علم میں ہے۔ان مصائب کے ذکر سے حضرت آدم اور جبرائیل علیہماالسلام اسی طرح روئے جس طرح باپ جوان بیٹے کے مرنے پر روتا ہےاور جب حضرت آدم علیہ السلام کربلا کی زمین پر پہنچے توحضرت امام حسین علیہ السلام کے مقتل میں آپ کا پاؤں پھسلا اور گرنے سے آپ کی پیشانی سے خون جاری ہو گیاتو بارگاہ رب العزت میں عرض کی: بارالہٰا! کیا مجھ سے کوئی خطا سرزد ہوئی ہے جو اس طرح مجھ ے سزا دے جارہی ہے؟ جواب ملا نہیں کوئی خطا نہیں ہوئی بلکہ اس سرزمین پر آپ کا مظلوم بیٹا حسین شہید ہوگا ۔ ان کا خون اس سرزمین میں جاری ہوگا ان کے درد میں شریک ہونے کے لیے یہاں پر آپ کا خون جاری ہوا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا! ان کا قاتل کون ہوگا؟جواب ملا یزید ملعون۔اس پر لعت بھیجو۔اس طرح حضرت آدم نے یزید لعین پر لعنت بھیجی۔(2)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت نوح علیہ السلام کی عزاداری

انس بن مالک نے روایت نقل کی ہے کہ حضرت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:جب خداوندمتعال نے حضرت نوح کی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت نوح کو دستور دیا کہ جبرائیل کی نظارت میں کشتی بنائیں اور اس کشتی میں استعمال ہونے والی ایک ہزار کیلیں جبرائیل نے حضرت نوح کو دیں اور حضرت نوح نے ان تمام کیلوں کو کشتی بنانے میں استعمال کیا جب آخری پانچ کیلیں باقی بچیں تو جب حضرت نوح نے انھیں لگانے کا ارادہ کیا اور اُن میں سے ایک کیل کو اس مقصد سے ہاتھ میں لیاتو اُچانک اس سے درخشندہ ستاروں کی مانندنور نکلنے لگا حضرت نوح یہ ماجرا دیکھ کر حیران ہو گئے تو اس کیل سے آواز آئی اے نوح میں بہترین پیغمبر یعنی محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔حضرت نوح نے کہا: اے جبرائیل اس کیل کا کیا ماجرا ہے میں نے آج تک ایسی کیل نہیں دیکھی۔جبرائیل نے جواب دیا یہ کیل خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نام نامی سے منسوب ہے اسے کشتی کی دائیں جانب نبے کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااور پھر دوسرےکیل کو نصب کرنے کے لیے اٹھایا تواس کیل سے بھی ایک نور بلند ہوا،حضرت نوح نے پوچھا یہ کیا ہے؟جواب ملا:یہ کیل سید الانبیاء کے چچازاد بھائی علی ابن ابیطالب علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے کشتی کی بائیں جانب نصب کریں۔حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیا اورپھر تیسری کیل نصب کرنے کے لیےاٹھائی اس سےبھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل آخری پیغمبر کی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام نامی سے منسوب ہے اسے انکے والد سے منسوب کیل کےساتھ نصب کردیں حضرت نوح نے بھی ایسا ہی کیااورپھر چوتھی کیل اٹھائی تو اس سے بھی نور بلند ہوا تو جبرائیل نے کہا یہ کیل حضرت حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام سے منسوب ہے اسے ان کے والد گرامی کے نام سے منسوب کیل کے ساتھ نصب کریں لیکن جب حضرت نوح علیہ السلام نے پانچویں کیل اٹھائی تو پہلے تو اس سے نور اٹھا لیکن جب حضرت نوح نے اسے کشتی میں نصب کیا تو اس سے خون جاری ہو گیا ۔حضرت جبرائیل نے کہا: یہ کیل حضرت امام حسین علیہ السلام کے نام نامی سے منسوب ہے اور پھر جبرائیل نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا ماجرا بیان کیا اور آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا پیغمبر کے نواسے سے سلوک بیان کیا۔(3)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عزاداری

روایت میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سرزمین کربلا سے عبور کرنا چاہا توحضرت گھوڑے پر سوار تھے اچانک گھوڑے کا پاؤں پھسلا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام گھوڑے سے زمین پر گرےان کا سر مبارک زمین پر لگنے سے خون جاری ہو گیاحضرت ابراہیم علیہ السلام نے استغفار کرنا شروع کر دیا اور کہا:

’’الھی،أیُّ شیءٍ حدث منّی؟ فنزل الیہ جبرئیل وقال: ھنا یُقتَلُ سبط خاتم الانبیاء وابن خاتم الاوصیاء‘‘پروردگارا! مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اس سرزمین پر خاتم الانبیاء اور سید الاوصیاء کا فرزند شہید کردیا جائے گا۔اسی لیے آپ کا خون اُن کے غم میں شریک ہونے کے لیے جاری ہوا ہے۔(4)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عزاداری

روایت میں ہے کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نہر فرات کے کنارے اپنے حیوانوں کو چرانے میں مشغول تھے ایک دن ان کے چرواہے نے اُن سے کہا :کہ چند دن سے جانور نہر فرات کا پانی نہیں پی رہے اس کی کیا وجہ ہے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خداوندمتعال سے اس کی علت دریافت کی تو جبرائیل نازل ہوئے اور کہا:اے اسماعیل آپ خود ہی اِن حیوانوں سے اس کی علت دریافت کریں وہ خود ہی آپ کو ماجرا سے آگاہ کریں گے؟حضرت اسماعیل علیہ السلام نے حیوانوں سے پوچھا کہ پانی کیوں نہیں پی رہے؟

’فقالت بلسانٍ فصیحٍ: قد بلغنا انّ ولدک الحسین(ع) سبط محمد یقتل هنا عطشاناً فنحن لانشرب من هذه المشرعة حزناً علیه‘‘حیوانات نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:کہ ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس مقام پر آپ کے فرزند حسین جومحمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے ہیں اس مقام پر پیاسے شہید کردیے جائیں گے لہٰذا ہم بھی اُن کے حزن میں پانی نہیں پی رہے۔حضرت اسماعیل نے اُن کے قاتلوں کے بارے میں سوال کیا؟ تو جواب ملا اُن کےقاتل پر تمام آسمان و زمین اور اس کی تمام مخلوقات اس پر لعنت کرتیں ہیں۔’’فقال اسماعیل:اللّهم العن قاتل الحسین‘‘حضرت اسماعیل کہا:خداوندا! اس کے قاتلوں پر لعنت بھیج۔(5)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی عزاداری

مرحوم علامہ مجلسی ؒ نقل فرماتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام ہوا میں اپنی سواری پر سوار ہو کر زمین کی گردش کرتے ہوئے سرزمین کربلا سے گذرے تو ہوا نے انکی سواری کو تین مرتبہ گردباد میں پھنسا دیا اور قریب تھا کہ وہ کو گر جاتے۔جب ہوا ٹھہری تو حضرت سلیمان کی سواری کربلا کی سرزمین پر نیچے اتری۔حضرت نے سواری سے پوچھا کہ کیوں اس سرزمین پر رکی ہو؟

’’فقالت انّ هنا یقتل الحسین فقال و من یکون الحسین فقالت سبط محمّدٍ المختار و ابن علیّ الکرّار‘‘ہوا نے کہا:اس سرزمین پر حسین شہید کیے جائیں گے۔حضرت سلیمان نے پوچھا:حسین کون ہیں؟ جواب ملا آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اورعلی مرتضیٰ کے فرزند ہیں۔ پوچھا؟ کون اُن سے جنگ کرے گا؟جواب ملا آسمان و زمین کا موعلن ترین شخص یزید۔حضرت سلمان نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے اس پر لعنت بھیجی اور تمام جن و انس نے آمین کہی پھر حضرت سلیمان کی سواری نے حرکت کی۔(6)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی عزاداری

حضرت موسیٰ علیہ السلام یوشع بن نون کے ہمراہ بیابان میں سفر کر رہے تھے کہ جب وہ کربلا کی سرزمین پر پہنچے تو حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے جوتے کا تسمہ کھل گیا اور ایک تین پہلوؤں والا کانٹا حضرت موسی ٰ حضرت کے پاؤں میں پیوست ہوگیا جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیر سے خون جاری ہونے لگا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :بارالہٰا !مجھ سے کوئی گناہ ہوا ہے؟خداوندمتعال نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو وحی کی:اس جگہ پر حسین شہید ہوں گے اور ان کا خون بہایا جائے گا تمہارا خون بھی ان کے ساتھ وابستگی کی خاطر جاری ہوا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : بارالہٰا !حسین کون ہیں؟ ارشاد ہوا:وہ محمد مصطفیٰ کے نواسے اور علی مرتضی کے لخت جگر ہیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی مناجات میں عرض کی:

’’یَا رَبِّ لِمَ فَضَّلْتَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ(ص)عَلَى سَائِرِ الْأُمَمِ فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى فَضَّلْتُهُمْ لِعَشْرِ خِصَالٍ قَالَ مُوسَى وَ مَا تِلْکَ الْخِصَالُ الَّتِی یَعْمَلُونَهَا حَتَّى آمُرَ بَنِی إِسْرَائِیلَ یَعْمَلُونَهَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى الصَّلَاةُ وَ الزَّکَاةُ وَ الصَّوْمُ وَ الْحَجُّ وَ الْجِهَادُ وَ الْجُمُعَةُ وَ الْجَمَاعَةُ وَ الْقُرْآنُ وَ الْعِلْمُ وَ الْعَاشُورَاءُ قَالَ مُوسَى(ع)یَا رَبِّ وَ مَا الْعَاشُورَاءُ قَالَ الْبُکَاءُ وَ التَّبَاکِی عَلَى سِبْطِ مُحَمَّدٍ(ص)وَ الْمَرْثِیَةُ وَ الْعَزَاءُ عَلَى مُصِیبَةِ وُلْدِ الْمُصْطَفَى یَا مُوسَى مَا مِنْ عَبْدٍ مِنْ عَبِیدِی فِی ذَلِکَ الزَّمَانِ بَکَى أَوْ تَبَاکَى وَ تَعَزَّى عَلَى وُلْدِ الْمُصْطَفَى(ص)إِلَّا وَ کَانَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ثَابِتاً فِیهَا وَ مَا مِنْ عَبْدٍ أَنْفَقَ مِنْ مَالِهِ فِی مَحَبَّةِ ابْنِ بِنْتِ نَبِیِّهِ طَعَاماً وَ غَیْرَ ذَلِکَ دِرْهَماً إِلَّا وَ بَارَکْتُ لَهُ فِی الدَّارِ الدُّنْیَا الدِّرْهَمَ بِسَبْعِینَ دِرْهَماً وَ کَانَ مُعَافاً فِی الْجَنَّةِ وَ غَفَرْتُ لَهُ ذُنُوبَهُ وَ عِزَّتِی وَ جَلَالِی مَا مِنْ رَجُلٍ أَوِ امْرَأَةٍ سَالَ دَمْعُ عَیْنَیْهِ فِی یَوْمِ عَاشُورَاءَ وَ غَیْرِهِ قَطْرَةً وَاحِدَةً إِلَّا وَ کُتِبَ لَهُ أَجْرُ مِائَةِ شَهِیدٍ‘‘(7)

اے میرے پروردگار! آخری نبی کی امت کو باقی نبیوں کی امتوں پر کیوں برتری دی؟جواب ملا:ان میں دس خصوصیات پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے انھیں فضیلت دی گئی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی :وہ دس خصوصیات کیا ہیں مجھے بھی بتائیں تو میں بنی اسرائیل کو کہوں کہ وہ بھی ان پر عمل کریں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:’’نماز،زکات، روزہ،حج،جامد،جمعہ،جماعت،قرآن،علم اور عاشوراء‘‘حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی پروردگارا یہ عاشورا کیا ہے؟ارشاد ہوا:محمد مصطفیٰ کے فرزند کی مصیبت میں عزاداری کرتے ہوئے رونا اورمرثیہ خوانی کرنا۔ اے موسیٰ! جو بھی اس زمانے محمد مصطفیٰ کے اس فرزند پر روئے اور عزاداری کرے اس کے لیے جنت یقینی ہےاور اے موسیٰ !جو بھی محمد مصطفیٰ کے اس فرزند کی محبت میں اپنا مال خرچ کرے (نیازمیں یاپھر کسی بھی چیز میں)میں اس میں برکت ڈال دوں گا یہاں تک کہ اس کا ایک درہم ستر درہموں کے برابر ہوجائے گا اور اسے گناہوں سے پاک صاف جنت میں داخل کروں گااور مجھے میری عزت و جلال کی قسم جو بھی عاشورا یا عاشورا کے علاوہ اس کی محبت میں ایک قطرہ آنسو بہائے میں سو شہیدوں کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھ دوں گا۔
منقول ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں بنی اسرائیل کی بخشش کی درخواست کی تو حق متعال نے ارشاد فرمایا:اے موسیٰ !حسین کے قاتل کے علاوہ جو بھی اپنے گناہوں کی مجھ سے معافی مانگے گا میں اسے معاف کردوں گا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اس کا قاتل کون ہے؟خداوندمتعال نے فرمایا:اس کا قاتل وہ ہے جس پر مچھلیاں دریاؤں میں، درندے بیابانوں میں،پرندے ہواؤں میں لعنت بھیجتے ہیں۔اس کے جدحضرت محمدمصطفٰی کی امت کے کچھ ظالم اسے کربلا کی سرزمین پر شہید کردیں گے اور ان کا گھوڑا فریاد کرے گا۔’’اَلظَّلیْمَةُ اَلظَّلیْمَةُ مِنْ اُمّة قتلَت إبْن بِنْت نبیِّهٰا‘‘پھر ان کے بدن کو غسل و کفن کے بغیر صحرا میں پتھروں پر چھوڑ دیں گے اور ان کے اموال کو غارت کریں گے ان کے اہل و عیال کو قیدی بنالیں گے ان کے ساتھیوں کو بھی قتل کردیں گے اور ان کے سروں کو نیزوں پر سوار کرکے بازاروں اور گلیوں میں پھرائیں گے ۔اے موسیٰ ! ان کے بعض بچے پیاس کی شدت سے مرجائیں گے ان کے بڑوں کے جسم کی کھال پیاس کی شدت سے سکڑ جائے گی وہ جس قدر بھی فریاد کریں گے،مدد طلب کریں گے،امان مانگیں گے کوئی بھی ان کی مدد کو نہیں بڑے گا اورانھیں امان نہیں دی جائے گی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے روتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو بلند کرکے یزید پر لعنت کی اورحضرت امام حسین علیہ السلام کے لیے دعا کی اور یوشع بن نون نے آمین کہا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی:اے میرے پروردگار!حسین کے قاتلوں کے لیے کیا عذاب ہوگا؟ خداوندمتعال نے وحی کی:ایسا عذاب کہ جہنمی بھی اس عذاب کی شدت کی وجہ سے پناہ مانگیں گے ،میری رحمت اور ان کے جد کی شفاعت ان لوگوں کے شامل حال نہ ہوگی اور اگر حسین کی عظمت نہ ہوتی تو میں ان کے قاتلوں کوزندہ درگور کر دیتا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:پروردگار میں ان سے اور جو بھی ان کے کاموں پر راضی تھے ان سب سے بیزار ہوں۔خداوندمتعال نے ارشاد فرمایا:میں نے ان کے پیروکاروں کے لیے بخشش کو انتخاب کیا ہے۔’’وَ اعْلَمْ اَنَّهُ مَنْ بَکٰا عَلَیْهِ اَوْ اَبْکٰا اَوْ تَبٰاکٰا حُرِّمَتْ جَسَدَهُ عَلَی النّٰارْ‘‘اور جان لو! جو بھی حسین پر روئے یا رولائے یا رونے کی شکل بنالے اس کا جسم جہنم کی آگ پر حرام ہے۔(8
)۔

حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت زکریا علیہ السلام کی عزاداری

سعد بن عبداللہ قمی ؒکہتے ہیں میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہواحضرت نے ارشاد فرمایا:اس ملاقات سے تمہارا کیا مقصد تھا؟میں نے عرض کیا:مجھے احمد بن اسحاق نے اشتیاق دلایا کہ میں آپ کی خدمت میں شرفیاب ہو کر آپ کے محضر سے فیض حاصل کروں اور اگر آپ اجازت فرمائیں تو آپ سے کچھ سوال بھی کرلوں۔حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا جو کچھ بھی پوچھنا چاہتے ہو میرے اس فرزند سے پوچھ لو یہ اہل تشیع کا بارھواں امام ہے ۔سعد کہتاہے میں نے اس گوہر تابناک کی طرف توجہ کرتے ہوئے ان سے پوچھا اے فرزند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!مجھے سورہ مریم کے اول میں’’کھیعص‘‘کی تأویل سے آگاہ فرمائیں؟امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:یہ حروف مقطعات غیب کی خبروں میں سے ہیں اور خداوندمتعال ان حروف کے ذریعہ سے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت زکریا کے واقعات سے آگاہ فرمارہے ہیں پھر حضرت نے اس قصہ کو بیان فرمایا: کہ حضرت زکریا نے خداوندمتعال سے تقاضا کیا کے مجھے خمسہ طیبہ کے اسمائے گرامی کی تعلیم دیں،جبرائیل نازل ہوئے اور اُن اسماء کی تعلیم حضرت زکریا کو دی۔ایک دن حضرت زکریا نے مناجات کے وقت عرض کی:پروردگارا! میں جب بھی محمد،علی، فاطمہ اورحسن صلوات الله علیمی اجمعین کے اسماء کو ذہن میں لاتا ہوں تواپنے غموں کو بھول کر خوشحال ہوجاتا ہوں لیکن جب بھی حسین علیہ السلام کے نام گرامی کے بارے میں سوچتا ہوں تو دنیا کے تمام غم میری طرف ہجوم آور ہوجاتے ہیں اور بے اختیار میرے آنسو جاری ہو جاتے ہیں؟خداوندمتعال نے انہیں حضرت سید الشہداء کے واقعہ سے آگاہ کیا ۔پھرحضرت نےفرمایا:’’کاف‘‘کربلا کی طرف اشارہ ہے جو حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقام ہے اور’’ھا‘‘عترت طاہرہ کی ہلاکت کی طرف اشارہ ہے اور’’یا‘‘یزید ملعون کی طرف اشارہ ہے اور’’عین‘‘عطش اور پیاس کی طرف اشارہ ہے’’صاد‘‘صبر سید الشہداء کی طرف اشارہ ہے۔
جب حضرت زکریا نے کربلا کے اس جانسوز واقعہ کو سنا تو اس قدر متأثر ہوئے کہ تین دن تک اپنے گھر سے باہر تشریف نہیں لائے اور لوگوں کو ملنے سے منع کردیا اس مدت میں عزاداری سید الشہداء میں مشغول رہے اور ان جملوں کا تکرار کرتے تھے:

’’إلهی اتفجع خیر جمیع خلقک بولده ؟ إلهی اتنزل بلوی هذه الرزیة بفنائة ؟ إلهی اتلبس علی و فاطمه ثیاب هذه المصیبة ؟ إلهی اتحل کربة هذه المصیبة بساحتهما ؟‘‘اور ان جملوں کے بعد خداوندمتعال سے التجا کرتے تھے کہ بارالہٰا !مجھے ایک فرزند عنایت فرما جس کی محبت سے میرے دل کو نورانی کردے اور پھر مجھے اس کی مصیبت میں اسی طرح مبتلا فرما جس طرح اپنے حبیب محمد مصطفیٰ کو ان کے فرزند حسین کی مصیبت میں مبتلا فرمائے گا ۔ خداوندمتعال نے حضرت زکریا کی دعا قبول کرتے ہوئے انہیں حضرت یحیی ٰعنایت کیے اور پھر حضرت یحییٰ شہید ہو گئے اور زکریا ان کے غم میں سوگوار ہوگئے۔حضرت یحیی ٰاور حضرت امام حسین علیہما السلام میں ایک اور شباہت یہ تھی کہ یہ دونوں بزرگوار چھ ماہ کے حمل کے بعد متولد ہوئے تھے۔(9) اس کے علاوہ ان دونوں بزرگواروں میں ایک اور شباہہت یہ بھی پائی جاتی ہے جسے حضرت امام جواد علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:’’ما بکت السماء الاّ علی یحیی بن ذکریا والحسین بن علی علیہما السلام‘‘یعنی آسمان حضرت یحییٰ اور حضرت سید الشہداء کی مظلومیت کے سوا کسی اور کی مظلومیت پر نہیں رویا۔(10)۔

 حضرت امام حسین علیہ السلام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عزاداری

منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے حواریوں کے ہمراہ سفر کر رہے تھے کہ اُن کا گذر سرزمین کربلا سے ہوا تو انھوں نے دیکھا کہ ایک شیر آمادہ ان کا راستہ روکے بیٹھا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام شیر کے پاس گئے اور اس سے علت دریافت کی؟شیر نے فصیح زبان میں کلام کرتے ہوئے کہا:میں اس راستے سے گذرنے نہیں دوں گا مگر یہ کہ’’تلعنوا یزید قاتل الحسین علیہ السلام فقال عیسی: و من یکون الحسین؟ قال: هو سبط محمّدٍ النّبیّ الامّی و ابن علیٍ الولیٍ‘‘۔ امام حسین علیہ السلام کے قاتل پر لعنت بھیجیں ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ حسین علیہ السلام کون ہیں؟کہا:محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور علی مرتضیٰ علیہ السلام کے فرزندہیں۔پوچھا ان کا قاتل کون ہے؟جواب ملا وحشی حیوانات اور درندگان کا نفرین شدہ یزید۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ بلند کر کے یزید پر لعنت بھیجی اور حواریوں نے آمین کہی تو شیر نے اُن کے لیے راستہ کھول دیا۔(11)۔


۔
1۔سورۂ بقرہ آیت نمبر۳۷
۔
2۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۵،ح۴۴۔
۔
3۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،ح۳۸
۔
4۔سید موسیٰ جوادی،سوگنامہ آل محمد،ص۳۴،مکتبہ امام رضاؑ
۔
5۔بحار الانوار،ج۴۴،ص۲۴۳،۲۴۴،ح۳۹
۔
6۔ایضا،ص۲۴۴،ح۴۲
۔
7۔مستدرک الوسائل،ج۱۰،ص۳۱۸
۔
8۔ایضاً،ص۲۴۴،ح۴۱
۔
9۔ایضاً،ص۳۰۸و۲۴۴و۲۷۹
۔
10۔ایضاً،ص۲۲۳
۔
11۔ایضاً،ح۴۳
۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 10:53

امام حسین علیہ السلام کی  حدیثیں

 

 

قال السیدالشهداء الامام الحسین علیه السلام:
۔ 1:تین لوگوں سے حاجت طلب کرو


لاتـَرفع حــاجَتَک إلاّ إلـى أحـَدٍ ثَلاثة: إلـى ذِى دیـنٍ، اَو مُــرُوّة اَو حَسَب۔
تین افراد کے سوا کسی سے اپنی حاجت مت مانگو: دیندار سے، صاحب مروت سے اور خاندانی آدمی سے۔
(تحف العقول ، ص 251)

۔ 2:دو میں سے ایک سابق الجنہ ہے
أیما اثنَین جَرى بینهما کلام فطلب أحدهما رضَـى الاخر کانَ سابقة الىَ الجنّة
اگر دو افراد مین جھگڑا ہو تو جو دوسرے کو راضی کرنے کے لئے پہلے اقدام کرے گا جنت جانے میں سبقت جاصل کرنے والا ہے۔
(محجة البیصاء ج 4،ص 228)

۔ 3:اللہ کی خوشنودی کی بجائے مخلوق کی خوشنودی
لاأفلَحَ قـَومٌ اشتَـروا مَـرضـاتِ المَخلـُوق بسَخَطِ الخـالِق
وہ قوم ہرگز فلاح اور رستگاری نہ پائے گی جو مخلوق کی خوشنودی کی خاطر اللہ کو ناراض کرتی ہے۔
 (تاریخ طبرى،ص 1،ص 239)

۔ 4:جس نے اللہ کی ناراض کرکے:
من طلب رضی الناس بسخط الله وکله الله إلی الناس .
جس نے اللہ کی ناراض کرکے لوگوں کی خوشنودی طلب کی خدا اس (سے اپنی نظریں پھیر دیتا ہے اور اس) کو لوگوں کے سپرد کرتا ہے۔
(بحارالانوار،ج78،ص126)

۔ 5شیعیان امام حسین (ع) کے دل
إنَّ شِیعَتَنا مَن سَلمَت قُلُوبُهُم مٍن کلِّ غَشٍّ وَ غِلٍّ وَ دَغَلٍ
بتحقیق کہ ہمارے پیروکاروں کے دل ہر ناخالصی اور مکر و تزویر اور فریب سے پاک ہیں۔
(فرهنگ سخنان امام حسین ص/ 476
ـ بحارالانوار 68/156/11)

۔6 خوف خدا قیامت میں امان
لا یأمَن یومَ القیامَةِ إلاّ مَن خافَ الله فِی الدُّنیا
قیامت میں کسی کے لئے بھی امان نہ ہوگی سوائے ان لوگوں کے جو دنیا میں خدا سے ڈرتے ہیں۔
(مناقب ابن شهر آشوب ج/4 ص/ 69
ـ بحار الانوار، ج 44، ص 192)

۔ 7عاجز ترین شخص
أَعجَزالنّاسٍ مَن عَجَزَ عَنِ الدُّعاء
بے بس ترین اور عاجز ترین شخص وہ لے جو دعا نہ کرسکے۔
(بحارالانوارج/ 93 ص/ 294)

۔ 8:خوف خدا اور گریہ
اَلبُکاءُ مِن خَشیةِ اللهِ نَجآةٌ مِنَ النّارِ
خدا کے خوف سے گریہ جہنم کی آگ سے نجات ہے
(کشف ‌الغمّة، ج2، صفحه 239
ـ حیات امام حسین ج 1 /ص 183)

۔ 9:نافرمانی ناامیدی کا سبب
مَن حاوَلَ اَمراً بمَعصِیهِ اللهِ کانَ اَفوَتَ لِما یرجُو وَاَسرَعَ لِمَجئ ما یحذَرُ
جو شخص ایسے کام کی کوشش کرے جس میں اللہ کی نافرمانی ہو ان سب چیزوں سے سب سے زیادہ ناامید ہوگا جن کی وہ امید رکھتا ہے اور تیزرفتاری سے ان چیزوں سے دوچار ہوگا جن کے آنے سے وہ فکرمند ہوتا ہے۔
(بحار الانوار ، ج 3 ، ص 397 ج78،ص120)

۔ 10:عفو و درگذر طاقت کے باوجود
اِنّ اَعفَی النّاسِ مَن عَفا عِندَقُدرَتِهِِ
سب سے زیادہ بخشنے والا شخص وہ ہے جو طاقت رکھتے ہوئے بھی بخش دے۔ (یعنی وہ جو طاقت کے باوجود انتقام لینے کی بجائے، بخش دے وہ سب سے زیادہ بخشنے والا ہے)۔
(الدرة الباهرة ، ص24)

11۔ وعدہ دینا ذمہ داری ہے
المسؤول حر حتی یعد ، ومسترق المسؤول حتی ینجز.
ذمہ دار انسان آزاد ہے جب تک اس نے وعدہ نہیں پس جب اس نے وعدہ دیا وہ اس وقت مسئول اور جوابدہ ہے جب تک اس نے وعدہ نبھایا نہیں۔
(بحار الانوار،ج78،ص113)

12۔ دوست اور دشمن کی پہچان
من اَحبک نهاک و من اَبغضک اَغراک.
جو تم سے محبت کرتا ہے وہ تم پر تنقید کرتا اور تمہیں روک لیتا ہے اور جو تمہارا دشمن ہے وہ تمہاری تعریف و تمجید کرتا ہے۔
(بحار الانوار،ج75،ص128)

13۔ عالم کی نشانی کیا ہے
من دلائل العالم إنتقادة لحدیثه و علمه بحقائق فنون النظر.
عالم کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے بیان پر خود ہی تنقید کرتا ہے اور مختاز نشانه های عالم ، نقد سخن و اندیشه خود و آگاهی از نظرات مختلف نظریات اور آراء سے آگاہ ہے۔ (یعنی مطالعہ کرتا ہے اور اپنی بات کو آخری بات نہیں سمجھتا اور لوگوں کی تنقید کو اہمیت دیتا اور ان کی رائے معلوم کرتا اور سنتا ہے۔
(بحارالانوار،ج78،ص119)

14۔ زبان اور بے وقعتی
لا تقولوا باَلسنَتکم ما ینقُص عَن قَدَرَکم
ایسی بات زبان پر ایسی بات جاری نہ کرو جو تمہاری قدر و قیمت گھٹا دیتی ہو۔
(جلاءالعیون،ج
۲ص۲۰۵)

15۔ اتباع حق کمال عقل
لا یکمل العقل إلا باتباع الحق .  
عقل حق کی پیروی کے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔
(بحار الانوار، ج 78، ص 127)

16۔ غلطی اور معذرت مؤمن کا کام نہیں
إیاک و ما تعتذر منه، فإن المؤمن لا یسیئ و لا یعتذر، و المنافق کل یوم یسیئ و یعتذر
اجتناب کرو ایسے افعال سے جس کی وجہ سے تمہیں معذرت کرنی پڑتی ہے، کیونکہ مؤمن کبھی بھونڈا عمل نہیں کرتا اور نہ ہی اس کو معذرت خواہی نہین کرنی پڑتی۔ لیکن مناقق ہر روز غلطیاں کرتا اور معذرت خواہیاں کرتا پھرتا ہے۔
( بحار الانوار، ج 78، ص120 )

17۔ گنہگاروں اور فاسقوں کی ہم نشینی
مُجالَسَةِ أهلِ الدِنَاءَة شَر، وَ مُجَالَسَةِ أَهلِ الفُسُوقِ ریبَة
بے آبرو اور  پست و رذیل افراد کے ساتھ ہم نشینی شر اور بدی ہے اور گنہگاروں کے ساتھ ہمدم و رفیق ہونا لوگوں کی بدگمانی اور اعتماد اور اعتبار کھونے کے مترادف ہے۔
(بحارالانوار، ج78، ص 122)

18۔ ظالموں کے ساتھ جینے سے موت بہتر
الا ترون الى الحق لا یعمل به، والى الباطل لا یتناهى عنه، لیرغب المؤمن فی لقاء ربه حقا حقا، فانی لا ارى الموت الا سعادة، والحیاة مع الظالمین الا برما.
(تحف العقول ، ص 245
ـ بحارالانوار ج 44 ص 192)
کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہین ہورہا اور باطل سے پرہیز نہیں کیا جاتا حتی کہ مؤمن اور حق طلب انسان اس راہ میں موت اور لقائے پروردگار کی طرف راغب ہوجائے۔ پس میں اس راہ میں موت کو سعادت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا اور ظالمین و جابرین کے ساتھ جینے کو رنج و مصیبت کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔

19۔ عبادت کا حق اور آرزوئیں
مَن عَبَدَ اللهَ حَقَّ عِبادَتِهِ آتاهُ اللهُ فَوقَ أمانِیهِ وَ کفایتِهِ
جس نے خدا کی عبادت اور بندگی کرتے ہوئے عبادت کا حق ادا کیا خداوند متعال اس کی آرزؤوں سے کہیں بڑھ کر اور اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ اس کے عطا کرے گا۔
(بحار الأنوار، ج 71، ص 183)

20۔ زیارت امام حسین (ع)
من زارنى بعد موتى زرته یوم القیامة ولولم یکن الا فى النار لاخرجته ؛
جو میری موت کے بعد میری زیارت کے گا میں قیامت کے دن اس کے دیدار کو آؤں گا اور حتی اگر وہ دوزخ میں بھی ہو تو میں اس کا باہر نکالوں گا۔
(المنتخب للطریحى ص 70.)

21۔ شکر نعمتوں کا ضامن
شکرک لنعمة سالفة یقتضى نعمة آنفة؛( نزهة الناظر ص 80.)
گذشتہ نعمت پر تمہارا شکر آنے والی نعمت کے لئے راہ ہموار کرتا ہے۔

22۔ عقلمند عقل سے چارہ جوئی کرتا ہے
اذا وردت على العاقل لمة قمع الحزن بالحزم و قرع العقل للاحتیال؛(نزهة الناظر ص /84/13)
جب کسی عقلمند شخص کے لئے کوئی مشکل پیش آتی ہے تو وہ اس کو ہوشیاری اور دوراندیشی کے ذریعے حل کرتا ہے اور عقل کو چارہ جوئی کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔

23۔ رواداری کنجی ہے
من أحجم عن الرأی وعییت به الحیل کان الرفق مفتاحه؛(بحار الانوار، ج 78، ص 128)
جو کسی امر میں کوئی رائے اور نظر نہیں رکھتا اور چارہ کار نہیں جانتا تو اس کے امور کی کنجی صرف رواداری اور نرم رویہ اپنانا ہے۔

24۔ پاکدامنی اور حرص
لیست العفة بمانعة رزقا و لا الحرص بجالب فضلا وان الرزق مقسوم والاجل محتوم واستعمال الحرص طالب المأثم؛( اعلام الدین ص 428)
نہ تو حرام سے پرہیز اور پاکدامنی رزق میں رکاوٹ ہے اور نہ ہی حرص و لالچ سے رزق میں اضافہ ہوتا ہے، اور بے شک رزق تقسیم ہوچکا ہے اور اجل حتمی ہے اور حرص گناہوں کی طرف کھینچ لیتا ہے۔

25ـ حصول عزت کے لئے موت کس قدر آسان ہے
ما أهون الموت على سبیل نیل العز واحیاء الحق لیس الموت فى سبیل العز الا حیاة خالدة و لیست الحیاة مع الذل الا الموت الذى لاحیاة معه؛( احقاق الحق 11/601)
کتنی آسان ہے موت جب وہ عزت کے حصول اور حق کے احیاء کے راستے میں ہو؛ بے شک عزت کے راستے میں موت دائمی حیات ہے اور ذلت کے ساتھ زندگی ایسی دائمی موت ہے جس کے بعد کوئی زندگی نہیں۔

26۔ اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے تو ...
ان لم یکن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا أَحراراً فى دنیاکم؛(بحارالانوار 45/51)
[اے افواج شام و کوفہ!] اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے تو کم از کم دنیا میں آزاد اور جوانمرد رہو۔
 
27۔ راہ حق میں ناہمواریوں پر صبر
إصبر علی ما تکره فیما یلزمک الحق ، واصبر عما تحب فیما یدعوک الیه الهوی . (نزهة الناظر و تنبیه الخاطر، ص 85)
حق و ہدایت کے راستے میں ان واقعات و حادثات پر صبر کرو جو تمہیں ناپسند ہیں اور صبر کرو ان لذتوں کی طرف جانے سے جن کی طرف تمہارا نفس تمہیں بلاتا ہے۔

28۔ ہمارا حبدار ہم اہل بیت میں سے ہے
قال أبان بن تغلب: قال الإمام الشهید علیه السلام: من أحبنا کان منا أهل البیت؛ فقلت: منکم أهل البیت؟ فقال (علیه السلام): منا أهل البیت، حتی قالها ثلاثا. ثم قال (علیه السلام): أما سمعت قول العبد الصالح "فمن تبعنی فإنه منی؟"۔ (نزهة الناظر و تنبیه الخاطر، ص 40)
ابان بن تغلب کہتے ہیں: امام شہید علیہ السلام نے فرمایا: جو ہم سے محبت کرے وہ ہم اہل بیت میں سے ہے۔ میں نے عرض کیا: آپ کا محب آپ اہل بیت میں سے ہے؟ فرمایا: ہاں! وہ ہم اہل بیت (ع) میں سے ہے حتی کہ آپ (ع) نے یہ جملہ تین مرتبہ دہرایا اور فرمایا: کہ آپ نے بندہ صالح (ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام) کی یہ بات نہیں سنی کہ "جس نے میری پیروی کی وہ مجھ سے ہے؟"۔

29۔ امام حسین امیرالمؤمنین کا جواب دیتے ہیں
أقبل أمیرالمؤمنین علی ابنه الحسین علیهما السلام فقال: یا بنی ما السؤدد؟ قال : إصطناع العشیرة و احتمال الجریرة؛ فما الغنی ؟ قال (ع ): قلة أمانیک ، و الرضا بما یکفیک فما الفقر؟ قال (ع ): ألطمع و شدة القنوط. فما اللؤم ؟ قال (ع ): إحراز المرء نفسه و إسلامه عرسه۔ فما الخرق ؟ قال حسین (ع ): معاداتک أمیرک و من یقدر علی ضرک و نفعک۔ (بحار الانوار، ج 78، ص 102)
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے اپنے فرزند حسین علیہ السلام سے پوچھا: بیٹا! برتری اور بزرگواری کس عمل میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: "اہل خاندان اور قرابتداروں سے نیکی کرنے اور ان کے نقصانات کا بوجھ اٹھانے میں۔
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: فرمایا توانگری اور بے نیازی کس چیز میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: خواہشوں کو کم کرنے میں اور جتنا آپ کے لئے کافی ہے اسی پر راضی و خوشنود ہونے میں؛
امیرالمؤمنین (ع) نے پوچھا: فقر اور احتیاج کن چیزوں میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: لالچ اور نا امیدی میں۔
فرمایا پستی کس چیز میں ہے؟ امام حسین (ع) نے عرض کیا: انسان کی پستی کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچائے اور اہل و عیال کو ناہمواریوں اور مشکلات و خطرات میں ڈال دے۔
فرمایا: حماقت اور بے وقوفی کس چیز میں ہے؟ عرض کیا: حماقت اور بے وقوفی اس میں ہے کہ انسان اپنے سالار اور کمانڈر سے دشمنی کرے اور اپنے سے زیادہ طاقتور انسان سے لڑ پڑے جو اس کو نفع اور نقصان پہنچانے کی قوت رکھتا ہے۔

30۔  اپنا گھر ڈھاکر دوسروں کا گھر تعمیر کرنا
قال له علیه السلام رجل: بنیت دارا أحب أن تدخلها و تدعو الله، فدخلها فنظر إلیها. ثم قال علیه السلام : أخربت دارک ، و عمرت دار غیرک ، غرک من فی الأرض ، و مقتک من فی السماء. (مستدرک الوسایل ، ج 3، ص 467)
ایک شخص نے امام حسین علیہ السلام سے عرض کیا: میں نے ایک گھر بنایا ہوا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس میں داخل ہوجائیں اور بارگاہ الہی میں [ہمارے لئے] دعا کریں۔ امام حسین علیہ السلام گھر میں داخل ہوئے اور ایک نظر ڈالنے کے بعد فرمایا: تم نے اپنا گھر ویراں کردیا ہے اور دوسروں کے لئے گھر تعمیر کیا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ زمین والے تمہیں عزیز رکھتے اور تمہیں عزت دیں گے لیکن ملأ اعلی اور آسمان والے تم سے دشمنی برتیں گے۔

31۔  ہمارا دشمن رسول اللہ (ص) کا دشمن ہے
من عادانا فلرسول صلی الله علیه و آله و سلم یعادی . احقاق الحق ، ج 11، ص 592
جو شخص ہم ( اہل بیت رسول (ص)) سے دشمنی کرے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دشمن ہے۔

32۔ ہم عرش کے گرد نور کے سائے تھے
عن حبیب بن مظاهر الأسدی أنه قال للحسین (علیه السلام): أی شیئ کنتم قبل أن یخلق الله عز و جل آدم (علیه السلام)؟ فقال علیه السلام : کنا أشباح نور ندور حول عرش الرحمن ، فنعلم للملائکة التسبیح و التهلیل و التحمید. (بحار الانوار، ج 60، ص 311)
حبیب بن مظاہر اسدی (ع) سے روایت ہے کہ انھوں نے امام حسین (ع) سے پوچھا: قبل اس کے کہ اللہ تعالی حضرت آدم علیہ السلام کو خلق فرمائے، آپ کس حالت میں تھے؟ امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: ہم نور کے سائے تھے اور عرش کے گرد سیر کیا کرتے تھے اور فرشتوں کو تسبیح (سبحان اللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) اور تحمید (الحمد للہ) سکھاتے تھے۔

33۔ میرے نویں فرزند مہدی (عج)
منا إثنا عشر مهدیا أولهم أمیرالمؤمنین علی بن ابی طالب و آخرهم التاسع من ولدی، و هو: الإمام القائم بالحق یحیی الله به الأرض بعد موتها، و یظهر به دین و یحب الحق علی الدین کله و لو کره المشرکون ، له غیبة یرتد فیها أقوام و یثبت علی الدین فیها آخرون فیؤذون و یقال لهم : "متی هذا الوعد إن کنتم صادقین "؟ أما إن الصابر فی غیبته علی الأذی و التکذیب بمنزلة المجاهد بالسیف بین یدی رسول الله صلی الله علیه و آله۔ (بحار الانوار، ج 51، ص 133)
ہمارے خاندان میں سے بارہ مہدی (ہدایت یافتہ امام) ہیں جن میں اول امیرالمؤمنین علی علیہ السلام ہیں اور آخری میرے نویں فرزند ہیں جو حق کے ساتھ قیام فرمائے گا اور زمین کو عدل و انصاف کے قیام سے زندہ کرے گا جب یہ ظلم و ستم کی وجہ سے مرچکی ہوگی؛ اور دین کو
ـ جو مہجور اور تنہا ہوچکا ہوگا ـ دوسرے ادیان پر غلبہ دیں گے، حق و ح‍قیقت کو روشن کریں گے، مہدی طویل عرصے تک غائب رہیں گے جس کے نتیجے میں بعض اقوام اور بعض جماعتیں مرتد ہوجائیں گی اور کفر اختیار کریں گی اور بعض لوگ دین پر ثابت قدم رہیں گے اور جو ثابت قدم رہیں گے ان کو آزار و اذیت کا نشانہ جائے گا اور اذیت دینے والے ان سے پوچھیں گے: اگر تم سچ بولتے ہو تو یہ بتاؤ کہ تمہارے امام کے ظہور کا وعدہ کب ہے؟ لیکن جان لو کہ جو لوگ غیبت کے زمانے میں لوگوں کی اذیت اور تکذیب و تردید کے مقابلے میں صبر و استقامت کریں گے اجر و ثواب کے حوالے سے اللہ کی راہ میں ان مجاہدوں کی مانند ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رکاب میں تلوار لے کر جہاد کرچکے ہیں۔

34۔ میرے نویں فرزند مہدی (عج)
قیل له (علیه السلام) ما الفضل ؟ قال (علیه السلام): ملک اللسان و بذل الإحسان . قیل فما النقص ؟ قال (علیه السلام): ألتکلف لما لا یعنیک. (مستدرک الوسایل ، ج 9، ص 24)
امام حسین علیہ السلام سے پوچھا گیا؟ فضل اور فضیلت کیا ہے؟ فرمایا: اپنی زبان کو قابو میں رکھنا اور لوگوں پر احسان اور نیکی کرنا۔ عرض ہوا: پس نقص کیا ہے؟ فرمایا: کسی بیہودہ کام کے لئے اپنے آپ کو زحمت میں ڈالنا۔

35۔ سخی ترین شخص ...
إنَّ أجْوَدَ النّاسِ مَنْ أعْطى مَنْ لا یَرْجُوهُ، ... وَ إنَّ أَوْصَلَ النّاسِ مَنْ وَصَلَ مَنْ قَطَعَهُ. (نهج الشّهادة: ص 39، بحارالأنوار: ج 75، ص 121، ح 4)
بتحقیق سب سے زیادہ سخی شخص وہ ہے جو عصا کرے ایسے شخص کو جو اس سے عطا کی توقع ہی نہیں رکھتا۔ اور سب سے زیادہ سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والا شخص وہ ہے جو قرابتداروں میں سے ان لوگوں کے ساتھ رابطہ بحال کرے جنہوں نے اس سے رابطہ اور رشتہ توڑ رکھا تھا۔

36۔ لوگ دنیا کے بندے ہیں اور ان کا دین...
النّاسُ عَبیدُالدُّنْیا، وَ الدّینُ لَعِبٌ عَلى ألْسِنَتِهِمْ، یَحُوطُونَهُ ما دارَتْ بِهِ مَعائِشَهُمْ، فَإذا مُحِصُّوا بِالْبَلاء قَلَّ الدَّیّانُونَ.   (محجّة البیضاء: ج 4، ص 228، بحارالأنوار: ج 75، ص 116، ح 2)
معاشرے کے لوگ دنیا کے بندے اورغلام ہیں اور دین ان کی زبانوں کا بازیچہ ہے اور وہ دین کو اپنے معاش کا وسیلہ قرار دیتے ہیں اور صرف رفاہ و آسائش کی زندگی میں یہ دین کے ساتھی اور ہمراہ ہیں
 لیکن آزمائش کی گھڑی میں (جب ان کی جان و مال و منصب و عہدے کو خطرہ لاحق ہونے کا امکان ہو تو) دیندار بہت کم ہوجاتے ہیں۔

37. جزا و سزا کو مد نظر رکھو
إعْمَلْ عَمَلَ رَجُل یَعْلَمُ أنّه مأخُوذٌ بِالاْجْرامِ، مُجْزى بِالاْحْسانِ.(بحارالأنوار: ج 2، ص 130، ح 15 و ج 75، ص 127، ح 10۔)
اپنے کام اور اپنے امور و معاملات کو اس فرد کی مانند انجام دو جس کو معلوم ہوتا ہے کہ خلاف ورزی کی صورت میں اس کی گرفت ہوگی اور اگر صحیح کام انجام دے گا تو اس کے جزا اور پاداش دی جائے گی۔

38. قبر عمل صالح کا گھر ہے
عِباداللهِ! لا تَشْتَغِلُوا بِالدُّنْیا، فَإنَّ الْقَبْرَ بَیْتُ الْعَمَلِ، فَاعْمَلُوا وَ لا تَغْفُلُوا. (نهج الشّهادة: ص 47)
اے بندگان خدا! دنیا اور اس کی چمک دمک میں مشغول ہونے سے بچو کیونکہ اس میں شک نہیں ہے کہ قبر ایسا گھر ہے جہاں صرف عمل
ـ صالح ـ ہی فائدہ  دیتا اور نجات دلاتا ہے پس خیال رکھو کہ کہیں غفلت تمہیں آنہ لے۔

39. کہو جو سننا چاہتے ہو
لا تَقُولَنَّ فى أخیکَ الْمُؤمِنِ إذا تَوارى عَنْکَ إلاّ مِثْلَ ماتُحِبُّ أنْ یَقُولَ فیکَ إذا تَوارَیْتَ عَنْهُ. (نهج الشّهادة: ص 47)
اپنے مؤمن بھائی کے بارے میں 
ـ جب وہ تم سے دور اور اوجھل ہے ـ مت کہو سوائے ایسی بات کے جو ـ اگر تم اس سے اوجھل ہوجاؤ تو ـ پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے بارے میں کہہ دے۔

40. میں اشکوں کا شہید ہوں
أنَا قَتیلُ الْعَبَرَةِ، لایَذْکُرُنى مُؤْمِنٌ إلاّ اِسْتَعْبَرَ. (أمالى شیخ صدوق: ص 118، بحارالأنوار: ج 44، ص 284، ح 19)\
میں گریہ و بکاء اور اشک و آہ کا شہید ہوں کوئی بھی مؤمن مجھے یاد نہیں کرتا مگر یہ کہ عبرت حاصل کرتا ہے اور اس کی آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 10:37

امام حسین علیہ السلام کا غم منانے اور عزاداری کرنے کا کیا فلسفہ و حکمت ہے؟


 

 

سوال:

امام حسین علیہ السلام کا غم منانے اور عزاداری کرنے کا کیا فلسفہ و حکمت ہے؟

جواب:

علوم انسانی و اسلامی میں مہم ترین بحث، تربیت انسان ہے ۔ حتی انبیاء کی رسالت کا اصلی ترین ہدف بھی تربیت و ہدایت انسان تھا۔ انسان کیونکہ مخلوق خداوند ہے لہذا تربیت انسان بھی اصل میں خداوند کا ہی کام ہے ۔ اسی لیے خداوند نے اپنی سب سے قیمتی مخلوق کی تربیت و ہدایت کے لیے، نمونے بھی سب سے اعلی و قیمتی بیھجے ہیں ۔ ان عملی نمونوں میں سے ایک امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدس و نورانی ہے۔

جس طرح خود امام حسین علیہ السلام کی ذات مقدس و نورانی کے اسلامی معاشرے میں آثار و برکات ہیں۔ اسی طرح ان کی عزداری کرنے کے بھی بہت سے اخلاقی اور تربیتی آثار ہیں۔ جیسے:

 

1 - حفظ مکتب و شریعت اسلام:

امام حسین علیہ السلام کے پیغام کو اور واقعہ کربلا کو زندہ رکھنا یہ  ہر غیرت مند انسان کو ہر ظالم و ظلم کے خلاف کھڑا ہونے کا درس دیتا ہے اور انسان میں انقلاب دینی و جذبہ فدا کاری لاتا ہے۔

یعنی اہل بیت علیہم السلام کے لیے عزاداری کرنا یہ باعث بنتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کا نام اسلام کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور ہر زمانے کا یزید اسلام پر حملے کرنے کی جرات نہیں کرتا۔

عزداری باعث بنتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور اسلام کا نام کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتا اور اسلام حقیقی تحریف اور تاثیرات منفی سے کاملا محفوظ رہتا ہے یا ان تاثیرات منفی کا برا اثر بہت ہی کم اسلام پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمنان اسلام کی اسلام کو نابود یا کم اثر کرنے کے لیے کوشش رہی ہے کربلاء، مسلمانوں اور اسلام کے درمیان جدائی ڈالی جائے۔ یہ عزداری کا اثر و برکت ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود اسلام اپنی اصلی حالت میں باقی ہے۔

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ:

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری اسلام کی حفاظت کرتی ہے۔ امام (ع) کا پیغام تمام زندہ و جاوید ہے جو رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کے لیے ہے۔ امام حسین علیہ السلام،کربلاء اور انکے سرخ پیغام کو اس گریے اور عزاداری نے حفظ کیا ہے۔

 صحیفه نور ج 8 ص 69.

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:

شاید دوسری دنیا کے لوگ ہمیں رونے والی قوم و ملت کہیں اور اپنے روشن فکر لوگ شاید اس بات کو نہ سمجھ سکیں کہ اشک کے ایک  قطرے کا اتنا ثواب کیسے مل جاتا ہے؟ یہ گریہ ملتوں کو بیدار و متحد کرتا ہے۔ عزداری کا اثر و فائدہ ہے نہ فقط یہ کہ مجلس عزا برپا کر کے مجلس سن لی اور گریہ کر لیا۔ بلکہ عزداری کا وہ سیاسی پہلو مہم ہے کہ جس کے لیے ہمارے آئمہ(ع) نے اتنی تاکید کی ہے۔

صحیفه نور ج 13 ص 156.

 

2 – امت اور عملی نمونے کے درمیان عمیق جذباتی رابطہ:

عزداری اک قسم کا امام حسین علیہ السلام سے احساساتی و جذباتی رابطہ ہے اور ہر ظالم و ستم گر کے خلاف اعلان احتجاج ہے۔

بقول استاد شہید مطہری: شہید پر گریہ کرنا، اس کے انقلاب میں اسکے ساتھ شریک ہونا ہے۔

یعنی ان مجالس میں جو روحانی و باطنی تبدیلی آتی ہے وہ معاشرے میں بھی تبدیلی کا باعث بنتی ہے اور یہی تبدیلی اس امام مظلوم کے انقلاب و پیغام کو حفظ کرنے کا بھی باعث بنتی ہے۔

جیسے امام خمینی(رح) فرماتے ہیں کہ:

آج جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے وہ سب محرم و عاشورا کی وجہ سے ہے۔ انقلاب اسلامی ایران و 8 سال اس انقلاب کا دفاع سب کا مستقیم عزداری اور مجالس سے رابطہ ہے۔ چودہ سو سالہ تاریخ گواہ ہے کہ شیعوں نے اسی عزداری و مجالس سے ہی ظالموں کے مقابلے پر اپنی شناخت و وجود کو حفظ کیا ہے۔  

 

3 – وسیع سطح پر مجالس کا برپا کرنا اور عام لوگوں کا دین حقیقی سے آشنا ہونا۔

یہ بات سب پر واضح ہے کہ ہر سال اسی مجالس عزاداری کی وجہ سے نہ فقط شیعہ بلکہ دوسرے مذاہب کے افراد بھی اسلام، کربلا اور امام حسین علیہ السلام سے آشنا ہوتے ہیں۔ یہی آشنائی باعث بنتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام اور کربلا چودہ سو سال گزرنے کے با وجود آج بھی زندہ ہیں۔ بس اس بات کی ضرورت ہے کہ مجالس عزداری کی کثرت کے ساتھ ان کی علمی و معرفتی حالت کو بھی مزید بہتر بنایا جائے۔

 

4 – تجلی روح و تزکیہ نفس

امام حسین علیہ السلام اور انکے با وفا اصحاب کے مصائب پر گریہ کرنے سے انسان کی روح میں اک نور و اس کے نفس میں اک خاص قسم کا آرام و سکون پیدا ہوتا ہے کہ یہی نور و آرام اس انسان کی روحانی و باطنی اصلاح و ترقی کا باعث بنتا ہے۔ اس اصلاح روحانی سے انسان زیادہ سے زیادہ خداوند کے قریب ہوتا ہے۔ گویا یہ گریہ و عزاداری ہے کہ انسان کو خداوند کے قریب کرتے ہیں۔

شیعہ کی تاریخ ان عملی تبدیلوں سے بھری پڑی ہے اور اس بات پر ہر با ضمیر شہادت و گواہی دیتا ہے۔

 

5 - اعلان وفاداری نسبت به مظلوم و مخالفت با ظالم:

امام حسین علیہ السلام کے روز عاشورا کے فرمان کی روشنی میں کہ:

فإنّی لا أری الموت إلا سعادة ولا الحیاة مع الظالمین إلا برماً۔

تحف العقول ص 245،

شرح الأخبار للقاضی النعمان المغربی ج 3 ص 150،

مناقب ابن شهر آشوب ج 3 ص 224،

بحار الأنوار ج 44 ص 192.

ہر با ضمیر انسان اس شعار کی روشنی میں اک طرف امام مظلوم سے اعلان وفا داری کرتا ہے کہ کسی بھی ظالم  کے سامنے سر تسلیم نہیں کرے گا اور ہمیشہ امام(ع) و حق کے ساتھ رہے گا۔ یہی اعلان وفا داری قوم و ملت کو دشمنان اسلام و تشیع کے سامنے قوت اور طاقت دیتا ہے۔ تو دوسری طرف اپنی نفرت اور بیزاری کا خود بنی امیہ اور پیروان بنی امیہ، اظھار کرتا ہے۔ وہ بنی امیہ کہ جہنوں نے رسول خدا (ص) سے جعلی احادیث نقل کیں ہیں کہ ہر طرح کے حاکم کے  خلاف قیام حرام ہے ۔ بنی امیہ اس طرح کی احادیث خود بنا کر لوگوں کے درمیان منتشر کرتے تھے۔ 

جیسے عمر ابن خطّاب سے روایت کرتے ہیں کہ:

فأطع الإمام وإن کان عبداً حبشیّاً، إن ضربک فاصبر، وإن أمرک بأمر فاصبر، وإن حرَمَک فاصبر، وإن ظلمک فاصبر، وإن أمرک بأمر ینقص دینک فقل: سمع وطاعة، دمی دون دینی.

سنن البیهقی: 159/8، المصنف لابن أبی شیبة: 737/7، کنزالعمال: 778/5، الدر المنثور: 177/2.

خلیفہ و حاکم کی پیروی کرو اگرچہ وہ سیاہ پوست حبشی ہی کیوں نہ ہو، اگر وہ حاکم تم پر ستم ہی کیوں نہ  کرے، اگر غلط قسم کے حکم ہی کوں نہ دے، اگر تم کو تمہارے حق سے محروم ہی کیوں نہ کرے، اگر غیر شرعی حکم کہ جو دین کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، بے چون و چرا تمہیں وہ حکم ماننا ہو گا اور دین کو قربان کرنا ہو گا نہ جان کو۔

اس روایت سے بھی ایک جھوٹی روایت کہ جسکی نسبت رسول خدا(ص) سے دیتے ہیں کہ رسول خدا(ص) فرماتے ہیں کہ:

یکون بعدی أئمة لا یهتدون بهدای ولا یستنون بسنتی، وسیقوم فیهم رجال قلوبهم قلوب الشیاطین فی جُثمان أنس. قلت: کیف أصنع یا رسول الله ! إن أدرکت ذلک؟ قال: تسمع وتطیع للأمیر وإن ضرب ظهرک وأخذ مالک فاسمع وأطع.

صحیح مسلم: 20/6، کتاب الأمارة باب الأمر بلزوم الجماعة ح 51.

میرے بعد ایسے خلفاء آئیں گے کہ میرے والی ھدایت انکے پاس نہیں ہو گی، نہ میری سنت پر عمل کرنے والے ہوں گئے۔ انکے دل شیطان کے دل کی طرح ہوں گے لیکن جسم و بدن انسانوں کی طرح ہوں گے۔

راوی نے اس موقع پر سوال کیا کہ اگر ہم اس زمانے میں زندہ ہوئے تو ہمیں کیا کرنا ہو گا؟

آپ(ص) نے فرمایا کہ: تمہارا کام بس ان کی پیروی کرنا ہے اگر وہ تم پر ظلم و ستم ہی کیوں نہ کریں اور تمہارے اموال کو غارت ہی کیوں نہ کریں۔ تمہارا کام بس بے چون و چرا انکی اتباع و اطاعت کرنا ہے۔

اس طرح کی جعلی روایات کی روشنی میں اہل سنت کے علماء اور فقھاء نے ہر طرح کے حاکم کے خلاف قیام کرنے کو حرام قرار دیا ہے۔

نووی عالم بزرگ اہل سنت کہتا ہے کہ:

 وأمّا الخروج علیهم وقتالهم فحرام بإجماع المسلمین وإن کانوا فسقة ظالمین، وقد تظاهرت الأحادیث بمعنی ما ذکرته، وأجمع أهل السنة أنه لا ینعزل السلطان بالفسق.

شرح مسلم للنووی: 229/12.

حاکم کے خلاف قیام و جنگ کرنا اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ کام حرام ہے اگرچہ وہ حاکم ظالم و فاسق ہی کیوں نہ ہو۔ اسلامی معاشرے کا حاکم فسق و فجور کرنے کے با وجود بھی اپنے عھدے و مقام سے منعزل نہیں ہو گا۔

وهکذا عن التفتازانی فی شرح المقاصد والقاضی الإیجی فی المواقف.

شرح المقاصد ج 2، ص71؛ المواقف: 349/8.

بالکل اسی طرح کا قول کتاب شرح المقاصد میں تفتازانی اور کتاب المواقف میں ایجی کا ذکر ہوا ہے۔

کتنا فرق ہے اک ملت کے علماء اس طرح کہتے ہیں:

فأطع الإمام... إن ضربک فاصبر، وإن أمرک بأمر فاصبر، وإن حرَمَک فاصبر، وإن ظلمک فاصبر، وإن أمرک بأمر ینقص دینک فقل: سمع وطاعة، دمی دون دینی.

اور دوسری ملت کے امام و پیشوا اس طرح کہتے ہیں:

من رأی سلطانا جائرا... یعمل فی عباد الله بالاثم والعدوان ثمّ لم یغیّر بقول ولا فعل، کان حقیقاً علی الله أن یدخله مدخله.

تاریخ الطبری ج4، ص 304، باب: ذکر اسماء من قتل من بنی هاشم مع الحسین علیه السلام و عدد من قتل من کل قبیلة من القبائل التی قاتلته

الکامل فی التاریخ - ابن أثیر جزری - ج 4، ص 48، باب: مقتل الحسین رضی الله عنه،

بحار الأنوار ج 44، ص 382، باب: ما جری علیه بعد بیعة الناس لیزید إلی شهادته.

 جو بھی ظالم حکمران کو دیکھے کہ مسلمانوں کے درمیان گناہ، حق کے ساتھ دشمنی اور مخالفت کر رہا ہے تو یہ انسان اپنے قول و فعل کے ساتھ اس پر اعتراض و احتجاج نہ کرے تو خداوند کے لیے مناسب ہے کہ ایسے انسان کو اس ظالم حکمران کے ایک ہی جگہ پر محشور کرے 

 

6 - امت اسلامی کے درمیان وحدت اور اتفاق:

عزاداری و گریہ بر سید الشھداء کی برکت سے امت اسلامی کے مختلف فرقوں کے درمیان ایک وحدت و اتحاد کی فضا معاشرے میں ایجاد ہوتی ہے کہ یہ فضا مجالس میں کہ جو امام بار گاہوں اور مساجد میں برپا ہوتی ہیں، حاضر ہونے سے ایجاد ہوتی ہے کیونکہ ان مجالس میں معارف نورانی اسلام بیان ہوتے ہیں ۔ جنکی وجہ سے دلوں سے نفرتیں و کدورتیں ختم ہوتی ہیں اور دل آپس میں نزدیک ہوتے ہیں ۔ یہ عزداداری کا سب سے بڑا اور مہم فائدہ و اثر ہے۔

امام خمینی(رح) فرماتے ہیں کہ:

ہم سیاسی گریہ کرنے والی قوم ہیں کہ ہم اپنے انہی اشکوں سے ایک سیلاب لے کر آیئں گئے اور اسلام کے راستے میں آنے والی ہر قسم کی رکاوٹ کو اپنے اشکوں سے بہا لے جایئں گئے ۔ یہی اشک و عزاداری ہیں کہ انسان کو خواب غفلت سے بیدار کرتے ہیں۔

صحیفه نور ج 13 ص 156، 157

ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ:

سارے امام حسین علیہ السلام کے مصائب کا ذکر اور ان مصائب پر گریہ  کریں ۔ کیا امت اسلامی میں اس سے بڑھ کر بھی کوئی چیز مشترک ہو سکتی ہے؟ یہ اتحاد فقط و فقط امام حسین علیہ السلام کے وجود کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے ۔ بس اے مسلمانو اس اتحاد کی فضا اور اس عزاداری کو ہاتھوں سے جانے نہ دو۔

 صحیفه نور ج 10 ص 217.

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 23 September 17 ، 10:27

امام حسینؑ اور کربلا،افکارِ اقبال میں

 

پاکستان کا تصور پیش کرنے والے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال دنیا بھر میں حریت و آزادی کے لئے برسر پیکار تحریکوں کے لئے امام حسین ع و کربلا کو آئیڈیل قرار دے کر امام حسینؑ کی عزادری کو ظلم و طاغوت کے خلاف سب سے بڑا جہاد

پاکستان کا تصور پیش کرنے والے علامہ ڈاکٹر محمد اقبال دنیا بھر میں حریت و آزادی کے لئے برسر پیکار تحریکوں کے لئے امام حسین ع و کربلا کو آئیڈیل قرار دے کر امام حسینؑ کی عزادری کو ظلم و طاغوت کے خلاف سب سے بڑا جہاد قرار دیتے ہیں۔

جس طرح امام خمینی نے بھی فرمیا تھا۔ کہ دنیا ہمیں رونی والی قوم یعنی عزاداری کرنے والے کہہ کر تمسخر اڑاتے تھے لیکن انہیں آنسووں سے ہم نے صدیوں پر محیط امریکی پٹھو شہنشاہی نظام کا خاتمہ کردیا، ہمارے ساتھ جو کچھ بھی ہے وہ کربلا و امام حسینؑ کی مرہون منت ہے۔۔ علامہ اقبال رح بھی اپنے آپ اور مسلمانوں کے لئے کربالا اور امام حسین ع کا غم آئیڈئل؛ قرار دیتے ہیں۔ یہاں علامہ اقبال کے مختلف اشعار کا ان کے کتب سے حوالہ کے ساتھ تحریر کیا جارہا ہے۔

؂ رونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میں کیادُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

سال رواں محرم کو دنیا بھر میں موجود اسلامی سکالرز علما اور دینی و عزاداری تنظیموں نے مزار شریکتہ الحسینؑ بی بی زینب س دمشق سوریا کے حرمت و دفاع کے عنوان سےمنانے کا اعلان کیا ہے۔ یاد رہے کہبی بی زینب س ،رسول اللہ ص کی نواسی اور حضرت امام حسینؑ کی بہن جنہں کربلا کے بعد افواج یذیدی نے دیگر خواتین و بچوں کے ہمراہ قید کرکے شام و کوفہ کے زندانوں اور بازروں میں اسیر کیا لیکنبی بی زینب س نے اپنے والد علیؑ اور نانا محمد ص کی شجاعت اور دین کے دفاع کے لئے خطبے دے کر یذید لعین اور بنی امیہ کو بے نقاب کردیا۔ آجکل اس دور کے یذیدی امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خواراج و تکفیری القاعدہ طالبان مل کر بی بی زینب س کے مزار دمشو سوریا کو مسمار کرنا چاہتے ہیں لیکن دنیا بھر میں موجود حسینی و زینبی کردار والے باضمیر لوگ اس شیطانی مثلث امریکہ اسرائیل اور دور حاضر کے خواراج و تکفیری القاعدہ طالبان کو علامہ اقبال کا یہ شعر یاد دلا کر کہتے ہیں کہ امام حسینؑ و سیدہ زینب س کی یاد اور ان کے مزارات تا قیامت دنیا بھر کے حریت پیسندوں کے لئے مشعل راہ رہیں گے۔

حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق یک حسینؑ رقم کرد و دیگر زینب س

علامہ اقبال ہی نے محرم کی دس تاریخ عاشورا اور ذی الحجہ کی دس تاریخ قربانی کا کیا خوب نقشہ کھینچا ہے۔ غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم ہے نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل اسی طرح محرم کے دوران جلوسوں اور باطل و یذیدیوں کے خلاف برسرپیکار رہنے کا درس دیتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا۔ نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؑ کہ فکر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری اسلام کے دامن میں بس اس کے سوا اور کیا ہے ایک سجدہ شبیریؑ ایک ضرب ید الہی ؑ یاد رہے علامہ اقبال نے نے ضرب ید الہیؑ کی تشبیہ شیر خدا حضرت امام علیؑ جسے رسول اللہ نے ید اللہ کا خطاب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ جنگ خندق میں علیؑ کا ایک ضرب (جسں سے عمربن ابدود کو واصل جہنم کیا تھا)۔ثقلین(دونوں جہانوں) کے عبادتوں سے بہتر ہےشہادت امام حسینؑ کے مختلف پہلوؤں اور اس کو دنیا بھر کے مظلوموں کے لئے آئیڈیل کے طور پرسب سے پہلے علامہ اقبالؔ نے اظہار خیال کیا ہے اقبال کی اردو فارسی شاعری میں اس کاتذکرہ ملتا ہے علامہ اقبال امام حسینؑ سے روشنی لے کر ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے : ؂ غریب وسادہ ورنگین ہے داستان حرم نہایت اس کی حسینؑ ، ابتدا ہے اسماعیلؑ ؂ صدق خلیل بھی ہے عشق، صبرحسین بھی ہے عشق معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق علامہ اقبال کربلا اورامام حسینؑ کوقربانی اسماعیلؑ کاتسلسل جانتے ہیں بلکہ ’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیتے ہیں جس کااظہار انھوں نے اپنے فارسی کلام میں بھی کیا ہے: ؂ اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر یعنی کہ حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی کوجس عظیم قربانی سے بدل دیا گیا تھا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے اوریہ نکتہ کوئی آگاہ شخص ہی بیان کرسکتا ہے اوریہ قربانی مفہوم کی دلربا تفسیر بھی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ قربانی حسینؑ کااسلام میں کیامقام ہے اورمنشاء ایزدی میں قربانی حسینؑ کب سے جلوہ گرتھی۔ اقبال کی شاعری میں یہ اشعار بھی ملتے ہیں: ؂ حقیقت ابدی ہے مقام شبیری بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی وشامی ؂ قافلہ حجاز میں ایک حسین بھی نہیں گرچہ ہے دابدار ابھی گیسوئے دجلہ وفرات ’’بال جبرائیل ‘ ‘ میں علامہ ’’فقر‘‘کے عنوان سے ایک مختصر نظم میں جس میں فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ؂ اک فقر سکھاتا ہے صیاد کومخچیری اک فقر سے کھلتے ہیں اسرار جہانگیری اک فقر سے قوموں میں مسکینی ودلگیری اک فقر سے مٹی میں خاصیت اکسیری اک فقر ہے شبیری اس فقر میں ہے میری میراث مسلمانی ، سرمایہ شبیری علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں خصوصاً علماء کرام اورحجروں میں بند بزرگان دین کودعوت فکر دیتے ہیں: ؂ نکل کرخانقاہوں سے اداکررسم شبیری کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ دلگیری (ارمغان حجاز) جس وقت علامہ نے یہ بات کی توپوری امت محمدیؐ غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی تھی مگر علامہ انھیں رسم شبیری اداکرنے کاکہہ رہے ہیں اقبال کی فکر کتابوں میں رہ جاتی مگر ایران میں ایک مرد جلیل نے رسم شبیری اداکرکے اس فکر کودنیا میں جیتا جاگتا مجسم کردیا ہے آ ج جہاں بھی مسلمان مجبور ہیں وہ رسم شبیری اداکررہے ہیں یااسی فکرکو اپنانے کی فکرمیں ہیں لیکن اقبال یہ فکردینے میں فوقیت حاصل کرگئے۔ علامہ اقبال کاکچھ کلام باقیات اقبال کے نام سے شائع ہوا ہے جسے علامہ اقبال نے اپنے کلام کومرتب کرتے وقت نظر انداز کردیا تھااس میں سے دوشعر پیش ہیں: ؂ جس طرح مجھ کوشہید کربلا سے پیار ہے حق تعالیٰ کویتیموں کی دعا سے پیار ہے ؂ رونے والا ہوں شہیدکربلا کے غم میں کیادُر مقصود نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے علامہ اقبال نے اپنے کلام کووسعت اورزندہ وجاوید رکھنے کے لئے جہاں آفاقی نظریات پیش کئے وہاں فارسی زبان میں بھی اظہار خیال فرمایا علامہ کے فارسی کلام کوپڑھے بغیر ان کے نظریات بالخصوص ’’نظر خودی‘‘ سے مکمل آگاہی حاصل نہیں ہوسکتی۔ علامہ اقبال نے رموز بے خودی میں’’درمعنی حریت اسلامیہ وسیر حادثہ کربلا‘‘کے عنوان سے امام عالی مقام کوخراج عقیدت پیش کیا ہے اس علامہ اقبال اسلام کی خصوصٰات بیان کرتے ہوئے کربلاکاتذکرہ کرتے ہیں شروع کے کچھ اشعار عقل وعشق کے ضمن میں ہیں اس کے بعد اقبال جب اصل موضوع پرآئے ہیں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کردار حسینؑ کوکس نئی روشنی میں دیکھ رہے ہیں اورکن پہلوؤں پرزور دینا چاہتے ہیں حسینؑ کے کردار میں انھیں عشق کاوہ تصور نظرآتا ہے جوان کی شاعری مرکزی نقطہ ہے اوراس میں انھیں حریت کاوہ شعلہ بھی ملتا ہے جس کی تب وتاب سے وہ ملت کی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے آئیے ان فارسی اشعار کامطالعہ کرتے ہیں:

؂ ہرکہ پیماں باھُوَالمَوجود بست گردنش از بندہرمعبود رست ’’جوشخص قوانین خداوندی کی اتباع کومقصود زندگی قرار دے لے اوراسی طرح اپنا عہدوپیمان اللہ سے باندھ لے اس کی گردن میں کسی آقا کی غلامی اورمحکموی کی زنجیر نہیں رہتی۔‘‘ پہلے شعر کے بعد علامہ نے عشق وعقل کاخوبصورت موازنہ پیش کیا ہے یہ موازنہ پیش کرکے اقبال بتانا چاہتے ہیں کہ امام حسینؑ اورکربلا کوسمجھنے کے لئے عقل کافی نہیں بلکہ عشق کی نظر چاہئے امام عالی مقام کایہ کارنامہ عقل کی بنا پرظہور پذیر نہیں ہوا بلکہ عشق کی قوت کارفرماتھی اس لئے ایسے لوگ جوعقلی دلائل پرواقعہ کربلا کی توضیح کرتے ہیں وہ ہمیشہ شک وتردید کااظہار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جوعشق کی نظر سے دیکھتے ہیں توپھر وہ اس نتیجہ پرجاپہنچتے ہیں جہاں علامہ اقبال پہنچ گئے ہیں:

؂ عشق را آرام جاں حریت است ناقہ اش را ساربان حریت است ’’عشق کوکامل سکون اوراطمینان آزادی ملتا ہے اس کے ناقہ کی ساربان حریت ہے۔‘‘

؂ آن شنیدیستی کہ ہنگام نبرد عشق باعقل ہوس پرورچہ کرد اقبال تمہیدی اشعار کے بعد واقعہ کربلا کی طرف آتے ہیں اورکہتے ہیں’’تم نے سنا ہے کہ کربلا کے میدان میں عشق نے عقل کے ساتھ کیاکیا۔‘‘ ؂ آں امام عاشقان پسر بتولؑ سرد آزادے زبستان رسولؐ اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر معنی ذبح عظیم آمد پسر عاشقوں کے امام حضرت فاطمہ ؑ کی اولاد اورحضورؐ کے گلستان کے پھول ہیں حضرت علیؑ ان کے والد بزرگوار ہیں اس میں’’اللہ اللہ‘‘وہ کلمہ تحسین ہے جومرحبا اورشاباش کے معنوں میں آتا ہے اس کے بعد حضرت علی ؑ کو‘‘بائے بسمہ اللہ‘‘ سے یادکیاگیا ہے یہ خود علامہ اقبال کی اہل بیتؑ شناسی پرایک دلیل ہے امام حسینؑ کو’’ذبح عظیم‘‘ کامصداق قرار دیا ہے علامہ اقبال قربانی امام حسینؑ کوقربانی اسماعیل ؑ کاتسلسل قرار دیتے ہیں۔

؂ بہرآں شہزادہ خیرالعملل دوش ختم المرسلین نعم الجمل روایت میں ہے کہ ایک دن نبی اکرمؐ اپنے دونوں نواسوں کوکندھوں پرسوار کرکے کھیلا رہے تھے آپؐ نے اس وقت فرمایا کہ تمہارا اونٹ کیسا اچھا ہے اوراس کی سواریاں کیسی خوب ہیں ’’نعم الجمل‘‘ اسی واقعہ کی طرف اشارہ ہے۔ ؂ سرخ رو عشق غیور از خون او شوخی ایں مصرع از مضمون او امام حسینؑ کے خون کی رنگینی سے عشق غیور سرخ رو ہے کربلا کے واقعہ سے اس موضوع میں حسن اوررعنائی پیدا ہوگئی ہے۔

؂ درمیاں امت آں کیواں جناب ہمچو حرف قل ھواللہ درکتاب امت محمدیہؐ میں آپؑ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے قرآن مجید میں سورۂ اخلاص کی ہے سورۂ اخلاص میں توحید پیش کی گئی جوکہ قرآنی تعلیمات کامرکزی نکتہ ہے اسی طرح امام حسینؑ کوبھی امت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ ؂ موسیٰ وفرعون وشبیر ویزید ایں دوقوت از حیات آید پدید

؂ زندہ حق از قوت شبیری است باطل آخر داغ حسرت میری است دنیا میں حق وباطل کی کشمکش شروع سے چلی آرہی ہے اس کشمکش میں مجاہدین کی قوت بازو سے حق کاغلبہ ہوتا ہے اورباطل شکست ونامرادی سے دچار ؂ چوں خلافت رشتہ از قرآن گسیخت حریت رازہراندرکام ریخت خاست آں سرجلوہ خیرالامم چوں سحاب قبلہ باراں درقدم برزمین کربلا بارید ورفت لالہ درویرانہ کارید رقت جب خلافت کاتعلق قرآن سے منقطع ہوگیااور مسلمانوں کے نظام میں حریت فکرونظر باقی نہ رہی تواس وقت امام حسینؑ اس طرح اٹھے جیسے جانب قبلہ سے گھنگھور گھٹااٹھتی ہے یہ بادل وہاں سے اٹھا کربلا کی زمین پربرسا اوراسے لالہ زار بنادیا۔

؂ تاقیامت قطع استبداد کرد موج خون او چمن ایجاد کرد آپؑ نے اس طرح قیامت تک ظلم واستبداد کے راستے بندکردیئے اوراپنے خون کی سیرابی سے ریگزاروں کوچمنستان بنادیا۔

؂ بہرحق درخاک وخوں غلطیدہ است پس بنائے لاالٰہ گرویدہ است آپؑ نے حق کے غلبہ کے لئے جان دے دی اوراس طرح توحید کی عمارت کی بنیاد بن گئے بنائے ’’لاالٰہ‘‘میں تلمیح ہے خواجہ معین الدین چشتی ؒ کے اس مصرع کی طرف:’’حقا کہ بنائے لاالٰہ ھست حسینؑ ‘‘

؂ مدعایش سلطنت بودے اگر خودنکردے باچنیں سامان سفر دشمناں چو ریگ صحرا لاتعد دوستان او بہ یزداں ہم عدد اگر آپؑ کامقصد حصول سلطنت ہوتا تواس بے سروسامانی میں نہ نکلتے بلکہ دیگر سامان واسباب سے قطع، ساتھیوں کی تعداد کے اعتبار سے دیکھئے تویہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مخالفین کالشکر لاتعداد تھامگر آپؑ کے ساتھ صرف بہتر(72)نفوس تھے یہاں علامہ نے یزداں کے عدد’’72‘‘ کاحوالہ دیا ہے۔

؂ سرابراہیمؑ واسماعیلؑ بود یعنی آں جمال راتفصیل بود

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 19:13
کربلا اقبال کی نگاہ میں

 

نواسہ رسول امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور کربلاکا حق و  باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر

نواسہ رسول امام حسینؑ کی لازوال قربانی اور کربلاکا حق و  باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش واقعہ ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا بعض اہل علم کے مطابق شعر اور شاعر کا لفظ بھی شعور سے مشتق ہوا ہے لہذا جو جتنا باشعور ہوگا اس کے اشعار میں اتنی ہی گہرائی اور وسعت ہوگی شاعر مشرق علامہ اقبال بھی عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزین ہے لہذا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبال جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظرانداز کر ے

یوں بھی شاعر حسینیت قیصربار ہوئی کے بقول:

وہ مشرقی پکار ہو یا مغربی صدا

مظلومیت کے ساز پہ دونوں ہیں ہم نوا

محور بنا ہے ایک جنوب و شمال کا

تفریق رنگ و نسل پہ عالب ہے کربلا

تسکین روح، سایہ آہ و بکا میں ہے

ہر صاحب شعور کا دل کربلا میں ہے

شاعر کسی خیال کا ہو یا کوئی ادیب

واعظ کسی دیار کا ہو یا کوئی خطیب

تاریخ تولتا ہے جہاں کوئی خوش نصیب

اس طرح بات کرتا ہے احساس کا نقیب

دیکھو تو سلسلہ ادب مشرقین کا

دنیا کی ہر زبان پہ ہے قبضہ حسین کا

علامہ اقبال کی اردو اور فارسی شاعری میں امام حسینؑ اور کربلا ایک ایسا استعارہ ہے جو ظلم و ستم کے خلاف استقامت اور اسلام کے حقیقی رہبر کی نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کربلا اور امام عالی مقام کو حق و وحدت کا دبستان اور حق و باطل کا میزان قرار دیتے ہیں ان کی حق شناس آنکھ کربلا کے واقعہ کو ایک تاریخی واقعہ کے طور پر نہیں دیکھتی بلکہ وہ امام حسینؑ کی صدا کے احتجاج اور ان کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا اور حیات قرار دیتے ہیں۔

آپ بال جبرئیل میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں؛

غریب و سادہ و رنگین ہے داستان حرم

نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیل

بعض اقبال شناسوں کے مطابق علامہ اقبال نے خدا کی رضا و اجازت کے بغیر ایک ہی لفظ زبان پر نہ لانے والے پیغمبر گرامی حضرت محمدؐکی اس معروف حدیث کی تشریح کی ہے جس میں آپ نے ارشاد فرمایا تھا "حسین منی و انا من الحسین" "یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں"

اس حدیث کے سامنے آنے کے بعد بیت سے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا تھا کہ رسول خدا کی ذات سے امام حسینؑ کا وجود تو ممکن ہے کیونکہ وہ آپ کے نواسے ہیں لیکن رسول خدا کا امام حسین سے ہونا کیا۔۔۔ رکھتا ہے

اس حدیث کی تفسیر میں آیا ہے کہ چونکہ رسول آخر زمان حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ہیں اور اگر حضرت اسماعیلؑ، حضرت ابراہیمؑ کے ہاتھوں قربان ہوجاتے تو رسول اکرم کا وجود مبارک بھی نہ ہوتا۔جب اللہ تعالی نے  حضرت اسماعیل کی قربانی کو زبح عظیم کے بدلے ایک دنبے کی قربانی میں تبدیل کردیا تو جس زبح عظیم کا ذکر آیا وہ امام حسینؑ کی قربانی ہے لہذا امام حسینؑ نے حضرت اسماعیل کی جگہ پر اپنی قربانی پیش کی اور یوں حضرت اسماعیل قربانی ہونے سے محفوظ رہے اور آپ کی نسل رسول خدا تک پہنچی۔ علامہ اقبال ایک اور مقام پر اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آں امام عاشقاں پوربتولؑ                          سرو آزادی زبستان رسولؐ

اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر                             مفی زبح عظیم آمد پسر

اقبال ایک اور مقام پر امام حسینؑ کو مخاطب کرکے کہتے ہیں :

"سر ابراہیم و اسماعیل بود                      یعنی آن اجمال را تفضیل بود"

علامہ اقبال معرکہ کربلا کو حق و باطل کا ایک بے مثل واقعہ قراردیتے ہوئے کہتے ہیں:

"حقیقت ابدی ہے مقام شبیری           بدلتےرہتے ہیں انداز کوفی و شامی"

گویا اقبال کی نظر میں امام حسینؑ حق و صداقت کا وہ میزان ہیں جو ہر دور میں حق و باطل کی کسوٹی ہیں تاریخ میں ملتا ہے کہ جب یزید نے مدینہ منورہ کے والی ولید اور مروان کے ذریعے امام حسینؑ سے بیعت کا مطالبہ کیا تو آپ نے ایک ایسا جملہ ارشاد فرمایا جو حریت پسندی کے لیے ہمیشہ نصب العین بنارہے گا آپ نے فرمایا تھا :"مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا"

علامہ اقبال نے اسی مفہوم کو ایک اور شعر میں یوں اداکیا ہے

موسی و فرعون و شبیر و یزید         این دو قوت از حیات آمد پدید

علامہ اقبال واقعہ کربلا کو اسلام کی بقا کا ضامن قرار دیتے ہیں اور بے ساختہ بول اٹھتے ہیں

زندہ حق از قوت شبیری است          باطل آخر داغ حسرت میری است

علامہ اقبال امام حسینؑ کو ظلم و استبداد کے خلاف ایک مثالی کردار بناکر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

بر زمین کربلا بارید و رفت                     لاله در ویرانه ها بارید و رفت

تا قیامت قطع استبداد کرد                        موج خون او چنین ایجاد کرد

رمز قران از حسین آموختم                      ز آتش او شعله ها اندوختم

علامہ اقبال واقعہ کربلا اور امام حسینؑ کی شخصیت کو اسلامی اور انسانی بیداری کا لازوال کردار گردانتے ہیں"رموز بیخودی" میں کہتے ہیں:

عزم او چون کوہساران استوار         پایدار و تند سیرو کامکار

آگے چل کر مزید کہتے ہیں:

خون او تفسیر این اسرار کرد           ملت خوابیده را بیدار کرد

نقش الا الله بر صحرا نوشت                     عنوان نجات ما نوشت

علامہ اقبال سیدالشہداء کی ذات میں گم ہوکر کہہ اٹھتے ہیں:

بهر حق در خاک و خون گردیده است                بس بناء لا اله گردیده است

حکیم الامت  علامہ اقبال جہاں واقعہ کربلا کے حماسی اور انقلابی پہلو کو انتہائی خوبصورت انداز میں بیان کرتے ہیں وہاں کربلا کے لق و دق صحرا میں نواسہ رسول کی مظلومیت آپ کو بے تاب کردیتی ہے۔ آپ غم و اندوہ سے کہتے ہیں:

دشمنان چو ریگ صحرا لاتعد          دوستان او به یزدان هم عدد

غم حسینؑ میں اپنے گریے اور آہ و زاری کی طرف اشارے کرتے ہوئے کہتے ہیں

رونے والا ہوں شہید کربلا کے غم میں              کیا در مقصد نہ دیں گے ساقی کوثر مجھے

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 19:11


امام حسینؑ کی شہادت کی تاثیر

 

دنیا کے گوشے گوشے میں امام حسینؑ کی یاد منائی جاتی ہے اور اس کا سلسلہ ہر روز بڑھتا اور پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ خود کربلا میں جہاں سیدالشہداؑ، ان کے اہل بیت

ثاقب اکبر

نبی کریمؐ سے مروی ایک حدیث شریف میں امام حسینؑ کی شہادت کی تاثیر یوں بیان کی گئی ہے:
انَّ لِقَتْلِ الحسین حرارۃٌ فی قلوب المومنین لاتبرد ابداً
یقیناً امام حسینؑ کے قتل سے مومنین کے دلوں میں ایک حرارت اور تپش پیدا ہو جائے گی جو کبھی ٹھنڈی نہ ہوگی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس حدیث شریف کی معجز آسا صداقت ہر روز نئی قوت سے جلوہ گر ہو رہی ہے۔ امام حسینؑ کی یاد منانے والے اور آپ کی شہادت سے تاثیر ایماں اور ولولہ ہائے ایقاں پانے والے دن بدن جوق در جوق کاروان حسینی میں شامل ہو رہے ہیں۔ شہادتِ حسینؑ دلوں کو گرما رہی ہے اور تازہ ولولوں سے اہل ایماں کے سینوں کو آشنا کر رہی ہے۔

دنیا کے گوشے گوشے میں امام حسینؑ کی یاد منائی جاتی ہے اور اس کا سلسلہ ہر روز بڑھتا اور پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ خود کربلا میں جہاں سیدالشہداؑ، ان کے اہل بیت اور وفادار و ایثار پیشہ انصار دفن ہیں، عاشقانِ وفا و رضا کا ایسا مرکز ہے جہاں روز عاشور اور اربعین حسینی پر لوگ پروانہ وار اکٹھے ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار اکٹھے کرنے والی عالمی ویب سائٹس کے مطابق امام حسینؑ کے چہلم کے موقع پر دنیا کا سب سے بڑا اجتماع منعقد ہوتا ہے۔ یہ اجتماع چھ سات برس پہلے تک ایک کروڑ کے لگ بھگ تھا جو 2012ء میں دو کروڑ سے تجاوز کر گیا اور سال رواں یعنی ان دنوں میں کربلا میں اربعین حسینی کے موقع پر اڑھائی کروڑ سے زیادہ خانوادۂ رسول کے مظلوم شہیدوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے والے کربلا میں اکٹھے تھے۔

کہاں وہ دن جب لشکر یزید کے سپہ سالار عمر ابن سعد کے حکم پر امام حسینؑ کے جسد مبارک کو گھوڑوں کی ٹاپوں تلے پامال کیا جا رہا تھا اور کہاں آج کا دن جب ایک طرف دنیا بھر کے ہزاروں لاکھوں شہروں، قصبوں اور دیہات میں امام حسینؑ کی یاد منائی جا رہی ہے اور دوسری طرف شمع حقیقت کے جس پروانے کے بس میں ہے وہ اُڑ کر کربلا پہنچنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سلسلے میں یہ اہم پہلو پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ کربلا کا رخت سفر باندھنے والے سینہ چاک، ماتم گزار اور اشک فشاں رواں دواں ہیں۔ یہ کسی میلے ٹھیلے میں شرکت کے لیے بے چین نہیں۔ یہ آخری رسول کی لخت جگر خاتون جنت کے جگر پاروں کے غمگسار ہیں۔ جنھیں معلوم ہے کہ حسینی کاروانوں کے دشمن کسی جگہ بھی ان پر وحشیانہ حملہ کر سکتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہر سال اس سفر پر جانے والے بہت سے مسافر خاک و خون میں غلطاں ہوتے ہیں۔ اس سال بھی فقط 19صفر (23 دسمبر2013) سوموار کے دن کربلائے معلٰی کے 65 مسافروں کو خون میں نہلایا گیا اور سینکڑوں کو زخمی کر دیا گیا۔ کربلا کو جانے والے مختلف راستوں پر نہتے قافلوں پر حملے کیے گئے اور مودتِ اہل بیت کے جرم میں مسافرانِ کربلا پر ستم ڈھائے گئے، لیکن یہ قافلے ہیں کہ بڑھتے چلے جاتے ہیں، کوئی خوفزدہ ہوکر نہیں پلٹتا، اس لیے کہ یہ رسول اکرمؐ کی پیش گوئی کے مطابق وہ حرارت ہے جو ٹھنڈی ہونے والی نہیں۔ اس راستے میں مرنے والے اس اطمینان سے جان دیتے ہیں کہ
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے عَلم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

جن بستیوں میں شہیدوں کے جنازے پلٹ کر جاتے ہیں، انہی بستیوں سے اگلے برس نئے قافلے، نئے ولولوں اور نئے جوش و خروش سے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ حسینؑ کے راستے میں مرنے کی سعادت حاصل کرنے کی آرزو لے کر نکلتے ہیں، انھیں کون خوفزدہ کرسکتا ہے۔
شہادت حسینی کی بڑھتی، امنڈتی، ابھرتی اور پھیلتی تاثیر کی مثال شاید آب زمزم سے دی جاسکے۔ ننھے سے اسماعیلؑ کے پاؤں کے نیچے سے جاری ہونے والا چھوٹا سا چشمہ آج کس زور و شور سے ابھرتا اور ابلتا ہے اور ہر روز کتنے لاکھ انسانوں کو سیراب کرتا ہے حالانکہ اسی چشمے پر ایسا دور بھی گزرا جب یہ بند ہوگیا تھا اور پھر حضرت عبدالمطلب کی کوشش اور برکت سے نکل پڑا اور پھر یہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زیادہ زور و شور سے ابلتا رہا اور آج ہر دور سے زیادہ قوت سے ابل رہا ہے۔ امام حسینؑ اسماعیلؑ اور عبدالمطلب کے سلسلہ پاک سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسماعیل ذبیح اللہ کہلائے اور امام حسینؑ کے بارے میں حکیم الامت علامہ اقبال کا کہنا ہے:
اللّٰہ اللّٰہ بائے بسم اللّٰہ پدر
معنی ذبحٌ عظیم آمد پسر
یہی بات وہ بانداز دگر بھی کہتے ہیں
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؑ ابتدا ہے اسماعیلؑ

کربلا الٰہی حکمت کے تحت معرضِ وجود میں آئی ہے۔ کربلا پورے سلسلۂ انبیاء کی میراث کا مخزن ہے۔ انبیاء کی پاکیزہ تعلیمات کی محافظ اور ترجمان ہے۔ حفاظت دین کے لیے کربلا کا وجود ناگزیر تھا۔ کربلا کا پیغام اپنی سادگی کے باوجود گہرا ہے۔ کربلا کو سمجھے بغیر نبی کریمؐ کے اس فرمان کی حقیقت سمجھ نہیں آسکتی کہ ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘
آیئے حسین ؑ کے قیام کی حکمت کو سمجھنے کے لیے اُس دور پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔ آخری نبیؐ کی رحلت کے بعد حکومتوں کا جو سلسلہ شروع ہوا، اس میں مملکت اسلامی کی حدود پھیلتی چلی گئیں، لیکن کیا اسلام قبول کرنے والوں کے دل و دماغ کو بھی اسلام نے تسخیر کرلیا تھا۔ یہ مسئلہ تو خود آنحضرتؐ کی زندگی میں بھی درپیش تھا۔ اسلامی مملکت کی حدود آپؐ کی زندگی ہی میں پورے جزیرہ نمائے عرب پر محیط ہوگئی تھیں اور اہل کتاب کی مختصر تعداد کے سوا سب نے اسلام کی سیاسی و عسکری قوت کے سامنے سر جھکا دیئے تھے، لیکن بہت سے دلوں میں ابھی اسلام نہ اترا تھا۔

اس حقیقت کو قرآن حکیم نے مختلف مقامات پر مختلف پیرائے میں بیان کیا ہے، جن میں سے ایک مقام یہ ہے:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ۔۔۔
۴۹۔حجرات ۱۴
عرب کے بادیہ نشین کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں، ان سے کہیے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو بلکہ تم کہو کہ ہم نے سر جھکا لیا ہے اور ایمان تمھارے دلوں میں ہرگز داخل نہیں ہوا۔۔۔
یہ تو آنحضورؐ کی زندگی میں اور مکہ و مدینہ کے قرب و جوار کا حال تھا۔ جب سلطنت وسیع ہوگئی، حکومت عراق، شام اور مصر کے اس پار جا پہنچی اور ہر سرزمین کے لوگ بڑی تعداد میں اسلام کی سیاسی و فوجی عظمت کے سامنے سر جھکانے لگے، تو کیا یہ سب اسلام قبول کرنے والے یاسرؓ، عمارؓ، بلالؓ اور ابوذرؓ کی طرح اسلام کی معنویت اور اقدار پر ایمان لائے تھے؟

آنحضرتؐ کی زندگی کے بادیہ نشین جو بعدازاں ہر طرف لشکروں میں گھوڑے دوڑائے پھرتے تھے، ان سے دین کی ترجمانی کی کیا توقع کی جاسکتی تھی؟ دوسری طرف ایسے لوگوں کی اکثریت تھی جو اسلام کے سیاسی اقتدار ہی کو دین کی تمام تر حقیقت کا سرچشمہ بھی سمجھتی تھی، یہاں تک کہ یہ اقتدار یزید جیسے اوباش کے ہاتھ میں آ پہنچا۔ اب زیادہ ضروری ہوگیا کہ دنیا پر آشکار کیا جائے کہ ضروری نہیں کہ سیاسی اقتدار ہی دین کی روحانی اقدار کا مرکز ہو۔ اگر عسکری و سیاسی اقتدار کو دین کی تمام تر ماہیت کا ترجمان مان لیا جاتا تو انبیاء کی تعلیمات کا کیا ہوتا؟ انسانی نفوس کے تزکیے کی مہم کہاں جاتی؟ کتاب و حکمت کی تعلیم کا کیا بنتا؟ ایسے میں انبیاء کی ترجمانی کرنے کے لیے حسینؑ میدان میں آئے۔ حسینؑ انبیاء کے وارث بن کر اٹھے۔ ’’میں حسین سے ہوں‘‘ کا یہی مطلب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئمہ اہل بیتؑ سے مروی زیارات میں امام حسینؑ کو حضرت آدمؑ ، حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث قرار دیا گیا ہے۔

بت پرستی اگر جہالت اور شرک کی ظاہری شکل تھی تو سیاسی اقتدار کو حقیقت دین سمجھ لینا بھی جہالت اور انحراف ہی کی افسوسناک شکل تھی۔ دینی اور انسانی اقدار کے پیمانوں کو صرف نظر کر دینا اور ظاہری اقتدار و مادی جاہ و حشمت ہی کو سب کچھ سمجھ لینا بہت بڑا انحراف تھا۔ اسلام سیاسی و فوجی غلبے کے لیے نہیں آیا تھا، سیاسی و فوجی غلبے کی حامل بڑی بڑی سلطنتیں تو آنحضورؐ سے پہلے بھی موجود رہیں، اس وقت بھی تھیں اور بعد میں بھی رہیں۔ انبیاء عدل الٰہی اور انسانی اقدار کی بالادستی اور غلبے کے لیے آئے تھے۔ وہ بندوں کو حقیقی معنی میں خدا کا بندہ بنانے کے لیے آئے تھے۔ وہ قربت الٰہی کی تمنا کا چراغ دلوں میں روشن کرنے کے لیے آئے تھے۔

یزید جیسا حکمران تخت نشین ہوا اور امام حسینؑ سے بیعت کا طالب ہوا تو ضروری تھا کہ امام حسین کہہ دیتے کہ ’’مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔‘‘ سیاسی و فوجی غلبے کے سامنے حسینؑ کے انکار نے دین کی حقیقت کو آشکار اور سربلند کر دیا۔ حسینؑ کی شہادت دین کی روحانی اقدار کی سربلندی کے لیے تھی۔ کربلا اسی سربلندی کی علامت ہے۔ کربلا دینی معنویت کا استعارہ ہے۔ حسینؑ کا سرخ خون دلوں کو گرماتا اور حقیقت دین کی طرف دیوانہ وار لپکنے کی دعوت دیتا ہے اور یہ خون یہی کردار ادا کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اللہ کا دین پوری زمین پر غالب آجائے۔ دین اللہ کے لیے خالص ہو جائے اور بندگان خدا انبیاء کی عظیم تحریک کے ساتھ شعوری اور قلبی طور پر وابستہ ہوجائیں۔

سطور بالا میں امام حسینؑ کے قیام اور آپ کی تحریک کے حوالے سے ہم نے جو کچھ کہا ہے وہ آنحضرتؐ کے فرمودات اور آئمہ اہل بیتؑ کے ارشادات ہی سے اخذ کیا گیا فہم ہے۔ امام حسینؑ کے اربعین کے حوالے سے امام جعفر صادقؑ سے منقول زیارت سے چند کلمات ہم بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ اس میں وہ پروردگار کے حضور امام حسینؑ کے حوالے سے عرض کرتے ہیں:
اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے دوست اور تیرے دوست کے فرزند، تیرے پسندیدہ اور تیرے پسندیدہ کے فرزند، جنھوں نے تجھ سے عزت پائی، تو نے انھیں شہادت کی عزت سے سرفراز کیا، ان کو خوش بختی نصیب کی اور انھیں پاک گھرانے میں پیدائش کی خوبی دی، تو نے انھیں سرداروں میں سے قرار دیا اور پیشواؤں میں سے ایک پیشوا بنایا اور مجاہدوں میں سے ایک مجاہد۔ انھیں نبیوں کے ورثے عنایت کئے۔ تو نے انھیں اوصیاء میں سے اپنی مخلوقات پر حجت قرار دیا۔ انھوں نے بھی تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔ بہترین خیر خواہی کی اور تیری خاطر اپنی جان قربان کر دی، تاکہ تیرے بندوں کو نادانی و گمراہی کی پریشانیوں سے نجات دلائیں، جبکہ ان پر چڑھ آئے وہ جو دنیا پر ریجھ گئے تھے۔ انھوں نے اپنی جانیں معمولی چیز کے بدلے بیچ دیں اور اپنی آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کیا۔ انھوں نے سرکشی کی اور لالچ کے پیچھے چل پڑے۔ انھوں نے تجھے غضب ناک کیا اور تیرے نبیؐ کو ناراض کیا۔ انھوں نے تیرے بندوں میں سے ان کی فرمانبرداری کی جو ضدی، اہل نفاق اور بے ایمان تھے کہ اپنے گناہوں کا بوجھ لے کر جہنم کی طرف چلے گئے۔ پس حسین ؑ ان سے تیرے لیے لڑے، بڑے صبر کے ساتھ اور ہوشمندی کے ساتھ، یہاں تک کہ تیری فرمانبرداری کرنے پر ان کا خون بہایا گیا اور ان کے اہل حرم کو لوٹا گیا۔

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 19:07


 احادیث کی روشنی میں امام حسینؑ پر رونے کا اجر


جو شخص ہمیں یاد کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابر آنسو نکل آئے توخد اوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے

پہلی حدیث
امام صادق علیہ السّلام فرماتے ہیں:
((من ذکرنا أو ذکرنا فخرج من عینہ دمع مثل جناح بعوضة ،غفر اللہ لہ ذنوبہ ولوکانت مثل زبد البحر )) [61]
جو شخص ہمیں یاد کرے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابر آنسو نکل آئے توخد اوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ۔
ایک مرتبہ جب علاّمہ بحرالعلوم قدّس سرّہ سامراء جارہے تھے تو راستے میں امام حسین علیہ السّلام پر گریہ کرنے کی وجہ سے گناہوں کے بخشے جانے کے بارے میں فکر کرنے لگے کہ کیسے ممکن ہے خدا وند متعال ایک آنسو کے بدلے میں کسی انسان کے سارے گناہ بخش دے ؟
اتنے میں ایک گھوڑے سوار سامنے آیا ،سلام کیا اور کہا :آپ پریشان نظر آرہے ہیں ؟اگر کوئی علمی مسئلہ ہے تو بتائیں شاید میں آپ کی مشکل کو حل کر سکوں ۔
سید بحر العلوم نے کہا:میں اس فکر میں مشغول تھا کہ کیسے خدا وند متعال امام حسین علیہ السّلام کے زائرین اور ان پر گریہ کرنے والوںکو اس قدر ثواب عطا کرے گا کہ زائر کے ہر قدم کے بدلے میں ایک حج و عمرے کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور ان پرگریہ کرنے والے کوایک قطرہ اشک کے بدلے میں بخش دے گا ؟
وہ گھوڑا سوار کہنے لگا : تعجب مت کرو ۔میں تمہیں ایک داستان سناتا ہوں جس سے تمہاری مشکل حل ہوجائے گی ۔ایک مرتبہ ایک بادشاہ شکار کے لئے نکلا تو شکار کے پیچھے گھوڑا دوڑاتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے دور نکل گیا ،(پیاس نے اس پرغلبہ کیا )تو بیابان میں ایک خیمہ دکھائی دیا اس کے پاس پہنچا تو دیکھا ایک بوڑھی خاتون اپنے بیٹے کے ہمراہ موجود ہے ان کے پاس ایک بکری تھی جس کے دودھ سے وہ اپنا شکم سیر کیا کرتے اور کچھ نہ تھا ۔(انہوں نے جب بادشاہ کو دیکھا کہ بھوکا و پیاسا ہے) تو وہ بکری ذبح کر کے اسے کھلا دی جبکہ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ بادشاہ ہے ،انہوں نے یہ کام فقط مہمان کے احترام میں کیا ۔بادشاہ نے رات وہیں پہ گذاری اور صبح واپس اپنے ساتھیوں کے پاس پلٹا اور ان سے ساری داستان بیان کی ،کہ میں یہاں سے بہت دور نکل گیا تھا بھوک وپیاس نے مجھ پر غلبہ کیا تو ایک خیمہ میںداخل ہو اوہاں پہ ایک بڑھیا موجود تھی جو مجھے نہیں جانتی تھی لیکن اس کے باوجود اپنا سارا سرمایہ مجھ پر قربان کردیا۔اب میں تم سے یہ مشورہ لینا چاہتا ہوں کہ اس بوڑھی عورت کے اس احسان کا بدلہ کیسے چکا سکتا ہوں؟
ایک نے کہا : اسے ایک سو گوسفند بخش کردو ۔دوسرے نے کہا : اسے ایک سو گوسفند اور ایک سو اشرفی بخش دو ۔ تیسرے نے کہا : فلاں کھیتی والی زمین اسکے حوالے کردو۔
بادشاہ نے کہا : میں اسے جتنا بھی دے دوں پھر بھی کم ہے اگر اپنی سلطنت اور تاج دے دوں تب اس کا بدلہ چکا سکتا ہوں، اس لئے کہ اس کے پاس جو کچھ تھا سارے کاسارا مجھ پر قربان کر دیا ،لہذا مجھے بھی چاہئے کہ جو کچھ میرے پاس ہے اسے عنایت کر دوں۔
امام حسین علیہ السّلام کے پاس بھی جو کچھ تھا اپنامال،اپنی اولاد ، اپنے بھائی، اپنے اہل وعیال، اپنی جان سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیاتو اب اگر خداوند متعال ان کے زائرین اور ان پر گریہ کرنے والوں کو اس قدر اجر وثواب عطا کردے تو اس پر تعجب کیسا ۔یہ کہہ کر وہ گھوڑے سوار وہاں سے غائب ہو گیا[62]۔

دوسری حدیث
ابان بن تغلب اما م صادق علیہ السّلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
((نفس المہموم لظلمنا تسبیح وھمّہ لنا عبادة وکتمان سرّنا جھاد فی سبیل اللہ ثمّ قال أبو عبد اللہ علیہ السّلام : یجب أن یُکتب ھذا الحدیث بالذّھب)) [63]
ہمارے ظلم پر غمزدہ سانس لینا تسبیح ہے اور ہماری خاطر غمگین ہو نا عبادت ہے اور ہمارے راز کو مخفی رکھنا جہاد فی سبیل اللہ ہے ۔اور پھر فرمایا: ضروری ہے کہ اس حدیث کو سونے سے لکھا جائے ۔

تیسری حدیث
امام رضا علیہ السّلام فرماتے ہیں:
((من تذکّر مصابنا فبکٰی وأبکٰی لمّا ارتکب منّا،کان معنافی درجتنا یوم القیامة ،ومن ذکرنا بمصابنا فبکٰی وأبکٰی لم تبک عینہ یوم تبکٰی العیون ،ومن جلس مجلسا یحیی فیہ أمرنا لم یمت قلبہ یوم یموت القلوب.)) [64]
جو شخص ہم پرآنے والے مصائب کو یاد کر کے ان پر روئے یا دوسروں کو رلائے تو روز قیامت اس کا درجہ ہمارے برابر ہوگا ۔اور جو شخص ہماری مصیبت کو بیان کر کے روئے یا رلائے تو وہ اس دن اس کی آنکھ گریہ نہ کرے گی جس دن سب آنکھیں گریہ کناں ہوں گی ۔اور جو شخص ایسی مجلس میں بیٹھے جس میں ہمارے امر کو زندہ کیا جا رہا ہو تو اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہو گا جس دن سب دل مردہ ہوں گے ۔

چوتھی حدیث
سعد ازدی نے روایت نقل کی ہے کہ امام صادق علیہ السّلام نے فضیل سے فرمایا:
((تجلسون وتحدّثون ؟ قال: نعم،جعلت فداک .قال: انّ تلک المجالس أحبّھا ،فأحیو اأمرنا یافضیل ، فرحم اللہ من أحیا أمرنا. یا فضیل من ذکرناأو ذُکرنا عندہ فخرج من عینہ مثل جناح الذباب غفر اللہ لہ ذنوبہ ولوکانت أکثر من زبد البحر ))[65]
کیا تم مل بیٹھ کر گفتگو کرتے ہو ؟عرض کیا: ہاں،میں آپ پر قربان ہوں ۔ فرمایا: بے شک میں ان مجالس کو دوست رکھتا ہوں ،پس اے فضیل ! ہمارے امر کو زندہ رکھو،خدا کی رحمت ہو اس پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے ۔
اے فضیل !جو شخص ہمارا ذکر کرے یا اس کے پاس ہمارا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھ سے مچھر کے پرکے برابرآنسو نکل آئے تو خداوند متعال اس کے گناہوں کو بخش دے گا اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔

پانچویں حدیث
محمد بن ابی عمّارہ کوفی نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن جعفر علیہما السّلام سے سنا وہ فرما رہے تھے :
(( من دمعت عینہ فینا دمعة لدم سفک لنا،أو حقّ لنا انقضائ،أوعرض انتھک لنا، أو لأحد من شیعتنا بوّاہ اللہ تعالٰی بھا من الجنّة حُقبا .)) [66]
جو شخص ہمارے خون کے بہنے یا ہمارے حق کے غصب ہونے یا ہماری اورہمارے شیعوں میں سے کسی کی حرمت کے پامال ہونے پرایک قطرہ آنسو بہائے تو خدا وند متعال اسے اس آنسو کے بدلے میں ہمیشہ کے لئے جنّت میں جگہ عطافرمائے گا۔

ہر درد لادوا کی دوا ہے کربلا کے بعد
بن جائے گی یہ خاک ،شفا کربلا کے بعد
تلوار ہارتی رہی سر جیتتے رہے
ایسا تو معرکہ نہ ہوا کربلا کے بعد
اصغرسے ہار مان لی ظالم نے اس طرح
پھر کوئی حرملہ نہ ہوا کربلا کے بعد
بیعت کا سوال نہ اب اٹھے گا کبھی
نوک سناں سے شہ نے کہا کربلا کے بعد
چہرے اب نہ بال کسی کے ہٹائے گی
محتاط ہو گئی ہے ہو ا کربلا کے بعد
ظلم وستم کی دھوپ سے اسلام بچ گیا
زینب کی اوڑھ لی جو ردا کربلا کے بعد
عباس کی تھے جان وفا کربلا تلک
عباس اب ہے جان وفاکربلا کے بعد
عباس کے لبوں کو پانی نہ چھو سکا
قدموں میں تھک کے بیٹھ گیا کربلاکے بعد
کہنا خطائے حر کو خطابھی ہے اک خطا
رومال سیّدہ نے کہا کربلا کے بعد
اصغر تمہارے خشک لبوں کا یہ فیض ہے
پیاسہ نہ کوئی طفل رہا کربلا کے بعد
سینے پہ اپنے زخم بہتر لئے ہوئے
بیمار بانٹتا ہے دواکربلا کے بعد
کعبہ گواہ حرمت کعبہ گواہ ہے
زندہ ہوا ہے دین خداکربلا کے بعد
پہلے ان آنسوؤں کی تو قیمت نہ تھی کوئی
یہ قیمتی ہوئے ہیں رضا کربلا کے بعد

چھٹی حدیث
امام صادق علیہ نے فرمایا:
((نظر امیرالمؤمنین ۔صلوات اللہ علیہ ۔ الی الحسین (علیہ السّلام ) فقال: یا عبرة کلّ مؤمن ! فقال : أنا یاابتاہ ؟ قال : نعم یا بنیّ)) [67]
امیرالمؤمنین علیہ السّلام نے حسین علیہ السّلام پر نگاہ ڈالی اور فرمایا:اے ہر مومن کی آنکھ کے آنسو ۔عرض کیا : بابا جان! میں ہر مومن کی آنکھ کا آنسو ہوں؟فرمایا: ہاں ،میرے فرزند۔

ساتویں حدیث
حسن بن علی بن عبداللہ نے ابی عمّارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:
((
ما ذکر الحسین بن علیّ علیہ السّلام عند أبی عبد اللہ علیہ السّلام فی یوم قطّ فرئی أبو عبداللہ مُبتسما فی ذلک الیوم الی اللیل وکان أبو عبداللہ یقول : الحسین عبرة کلّ مؤمن.)) [68]
جب کبھی امام صادق علیہ السّلام کے پاس امام حسین علیہ السّلام کاتذکر ہ کیا جاتا تو وہ پورا دن ان کے لبوں پر مسکراہٹ دکھائی نہ دیتی اور فرمایا کرتے: حسین ہر مومن کی آنکھ کا آنسو ہیں۔

آٹھویں حدیث
امام باقر علیہ السّلام نے اپنے والد بزرگوار امام زین العابدین علیہ السّلام سے نقل کیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے:
((
أیّما مؤمن دمعت عیناہ لقتل الحسین بن علی علیہما السّلام دمعة حتّی تسیل علی خدّہ بوّأہ اللہ بھا فی الجنّة غرفایسکنھا أحقابا ،وأیّما مؤمن دمعت عیناہ دمعا حتّی تسیل علی خدّہ لأذی مسّنا من عدّونا فی الدّنیا بوّأہ اللہ مبوّأ صدق فی الجنّة ،وأیّما مؤمن مسّہ أذی فینا فدمعت عیناہ ،حتّی یسیل دمعہ علی خدّیہ من مضاضة ما أوذی فینا صرف اللہ عن وجھہ الأذٰی وآمنہ یو م القیامة من سخط النّار .)) [69]
جس شخص کی آنکھ سے حسین بن علی علیہما السّلام کی شہادت پر آنسو نکل کر اس کے رخسار پر بہے تو خداوند متعال اسے اس کے بدلے میں ہمیشہ کے لئے جنّت میں مکان عطا فرمائے گا، اور جس شخص کے رخسار پر ہمارے اوپردشمن کی طرف سے ڈھائے گئے مصائب پر آنسو جاری ہو تو خدا وند متعال اسے جنّت میں صدیقین کا مرتبہ عطاکرے گا ،اور جسے ہماری راہ میں کوئی اذیت پہنچے اور اس کے رخسار پر آنسو جاری ہو جائے تو خداوند متعال اسے رنج وغم سے محفوظ رکھے گا اور اسے روز قیامت جہنّم کے غضب سے امان میں رکھے گا ۔

نویں حدیث
تفسیر امام حسن عسکری علیہ السّلام میں نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا:
جب یہ آیت مجیدہ
((واذ أخذنا میثاقکم لا تسفکون دمائکم... ))یہودیوں اور ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے پیغمبر ۖ سے باندھے ہوئے عہد وپیمان کو توڑ ڈالا ،انبیاء کو جھٹلایا اور خدا کے دوستداروں کو قتل کیا ۔تو اسوقت آپۖ نے فرمایا: میں تمہیں اس امّت کے یہودیوں کی خبر دیتا ہوں جو اُن سے شباہت رکھتے ہیں۔لوگوں نے عرض کیا :یارسو ل اللہۖ ! وہ کیسے ؟
فرمایا:میری امّت کاایک گروہ جو اپنے کو اس امّت اوراس ملّت میں شامل سمجھتا ہے میری آل کے افضل ترین افراد کو قتل کرے گا ، میری سنّت اور شریعت کو بدل ڈالے گا اور میرے دو فرزند حسن وحسین کواسی طرح شہید کرے گا جس طرح پہلے والے یہودیوں نے زکریا اور یحییٰ کو شہید کیا ۔خداوند متعال ان پر اسی طرح لعنت کرے گا جس طرح اُن پر لعنت کی تھی اور ان کی اولاد پر حسین مظلوم کی نسل میں سے ایک ہادی و مہدی مبعوث کرے گا جو اپنے دوستوں کی تلواروں سے انہیں جہنم کی آگ میں جلا ڈالے گا ۔
خبردار! خداوند متعال نے حسین کے قاتلوں ، ان کو دوست رکھنے والوں ، ان کی مدد کرنے والوں اور بغیر تقیہ کے ان پر لعنت نہ کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے ۔
خداوندمتعال اپنی رحمت و شفقت سے حسین پر گریہ کرنے والوں پر درود بھیجتا ہے اور ان پر بھی درود بھیجتا ہے جو ان کے دشمنوں پر لعنت بھیجے ۔آگاہ ہوجاؤ! جو لوگ حسین کے قتل پر راضی ہیں وہ ان کے قتل میں شریک ہیں ۔آگاہ ہوجاؤ! انہیں شہید کرنے والے ، ان کے دشمنوںکی مدداوران کی پیروی کرنے والوں کا دین خداسے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خداوند متعال ملائکہ مقرّبین کوحکم فرمائے گا کہ حسین کی مصیبت اور ان کی عزاداری میں بہائے جانے والے آنسوؤں کو جمع کرکے خازن جنّت کے پاس لے جائیں تاکہ وہ انہیں آب حیات میں مخلوط کردے جس سے اس کی خوشبو میں ہزار برابر اضافہ ہو جائے گا۔
اور ملائکہ ان کے قتل پر خوش ہونے والوں کے آنسوؤں کواکٹھا کرکے انہیں جہنّم کے مشروبات میں ڈال دیںگے جو خون ،پیپ اور بدبودار پانی کی صورت اختیار کرلیں گے اور اس سے جہنّم کی گرمی میں شدّت آجائے گی تاکہ آل محمّد علیہم السّلام کے دشمنوں پر عذاب کو ہزار برابر کردیاجائے[70]۔

دسویں حدیث
امیرالمؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السّلام فرماتے ہیں:
((
انّ اللہ تبارک وتعالٰی اطّلع الی الأرض فاختارنا ،واختار لنا شیعة ینصروننا ، ویفرحون لفرحنا ویحزنون لحزننا ،یبذلون أموالھم وأنفسھم فینا ،أولئک منّا و الینا وقال: کلّ عین یوم القیامة باکیة وکلّ عین یوم القیامة ساھرة الاّ عین من اختصّہ اللہ بکرامتہ وبکٰی علی من ینتھک من الحسین وآل محمّد .)) [71]
خدا وند متعال زمین کی طرف متوجہ ہوا تو ہماراانتخاب کیا اور ہمارے لئے شیعوں کاانتخاب کیا جو ہماری مدد ونصرت کرتے ہیں،ہماری خوشی میں خوش اور ہماری مصیبت پر غمگین ہوتے ہیں،ہماری راہ میں اپنا مال وجان قربان کرتے ہیں وہ ہم میں سے ہیں اور ہماری ہی جانب آئیں گے ۔(اور پھر فرمایا:) روز قیامت ہر آنکھ گریہ کناںا ور بیدار ہوگی سوا اس آنکھ کے جسے خدا نے اپنی کرامت اور حسین و آل محمد کی بے حرمتی پررونے کی وجہ سے انتخاب کر لیا ہو ۔

گیارہویں حدیث
ریّان بن شبیب نقل کرتے ہیں کہ میں پہلی محرم کے دن امام رضاعلیہ السّلام کی خدمت میں شرفیاب ہواتوآپ نے مجھ سے فرمایا:
((
یابن شبیب !أصائم أنت ؟فقلت :لا ،فقال: انّ ھذاالیوم ھوالیوم الّذی دعا فیہ زکریّا علیہ السّلام ربّہ عزّوجلّ فقال: (ربّ ھب لی من لدنک ذرّیة طیّبة انّک سمیع الدّعا )[72] فاستجاب اللہ لہ وأمر الملائکة ،فنادت زکریّا وھو قائم یصلیّ فی المحراب أنّ اللہ یبشّرک بیحیٰی ، فمن صام ھذا الیوم ثمّ دعا اللہ عزّوجلّ استجاب اللہ لہ کما استجاب لزکریّا علیہ السّلام ۔
ثمّ قال : یابن شبیب ! انّ المحرّم ھوالشّھر الّذی کان أھل الجاھلیة فیما مضٰی یحرّمون فیہ الظلم والقتال لحرمتہ ،فما عرفت ھذہ الأمّة حرمة شھرھا ولا حرمة نبیّھاۖ ،لقد قتلوا فی ھذا الشھر ذریّتہ ، وسبوا نسائہ ، وانتھبوا ثقلہ ، فلا غفر اللہ لھم بذلک أبدا۔
یابن شبیب ! ان کنت باکیا لشیء فابک للحسین بنعلی بن أبی طالب علیہم السّلام فانّہ ذبح کما یذبح الکبش ، وقتل معہ ثمانیة عشر رجلا ، مالھم فی الاأرض شبیہ ،ولقدبکت السّماوات السّبع والأرضون لقتلہ ، ولقد نزل الی الأرض من الملائکة أربعة آلاف لنصرہ ،فوجدوہ قد قتل ،فھم عندقبرہ شعث غُبر الی أن یقوم القائم ، فیکونون من أنصارہ ، وشعارھم ((یالثارات الحسین))
.
یابن شبیب ! لقد حدّثنی أبی عن أبیہ عن جدّہ علیہ السّلام أنّہ: لمّا قتل الحسین جدّی ۔صلوات اللہ علیہ ۔ أمطرت السّماء دما وترابا أحمرا۔
یابن شبیب ! ان بکیت علی الحسین حتّی تسیر دموعک علی خدّیک ،غفر اللہ لک کلّ ذنب أذنبتہ صغیرا کان أو کبیرا ،قلیلا أو کثیرا ۔
یابن شبیب ! ان سرّک أن تلقٰی اللہ عزّ وجلّ ولا ذنب علیک فزر الحسین علیہ السّلام .
یابن شبیب ! ان سرّک أن تسکن الغرف المبنیّة فی الجنّة مع النّبیّ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فالعن قتلة الحسین علیہ السّلام ۔
یابن شبیب ! ان سرّک أن یکون لک من الثواب مثل ما لمن استشھد مع الحسین ، فقل متٰی ما ذکرتہ :(یالیتنی کنت معھم فأفوز فوزا عظیما ) [73]
یابن شبیب ! ان سرّک أن تکون معنا فی الدرجات العُلٰی من الجنان ، فاحزن لحزننا ،وعلیک بولایتنا ،فلو أنّ رجلا تولّیٰ حجرا حشرہ اللہ معہ یو م القیامة )) [
74].
اے ابن شبیب !کیا روزے سے ہو ؟ میں نے عرض کیا : نہیں ،فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن حضرت زکریا علیہ السّلام نے دعا مانگی کہ اے پالنے والے مجھے نیک اولاد عطا فرما ۔توخداوند متعال نے ان کی دعا قبول کی اور ملائکہ کو حکم دیا (کہ انہیں بشارت دیں) ملائکہ نے ندادی اور یحیٰی کی بشارت دی جبکہ وہ محراب میں نماز ادا کررہے تھے۔
پھر فرمایا: اے ابن شبیب! محر م وہ مہینہ ہے جس میں اہل جاہلیت اس کے احترام کی خاطر ظلم وقتال کو حرام سمجھتے تھے لیکن اس امّت نے اس مہینے اور اپنے پیغمبر
ۖ کی حرمت کا خیال نہ رکھا ۔اس مہینے میں اپنے نبی ۖ کی آل کو قتل کیا ،ان کی عورتوں کو قیدی بنایااور ان کا مال لوٹ لیا،خداوندمتعال ان کے اس گناہ کو ہر گز نہیں بخشے گا ۔
اے ابن شبیب! اگر کسی پر گریہ کرنا چاہتے ہو تو حسین بن علی بن ابیطالب علیہم السّلام پر گریہ کرو اس لئے کہ انہیں اس طرح ذبح کیا گیا جس طرح گوسفند کو ذبح کیا جاتاہے اور ان کے ساتھ ان کے اہل بیت کے اٹھارہ ایسے مردوں کو شہید کیا گیا جن کی زمین پر کوئی مثال نہ تھی ۔
بے شک ساتوں آسمان و زمین ان پر روئے اور ان کی مدد ونصرت کے لئے آسمان سے چار ہزار ملائکہ نازل ہوئے لیکن جب پہنچے تو شہید کردئیے جا چکے تھے لہذاوہ ملائکہ خاک آلود ہ بالوں کے ساتھ وہیں ان کی قبر پہ رک گئے یہاں تک کہ قائم کاظہور ہو اور وہ ان کے ا نصار بنیں اور ان کا شعار یہ ہے ((یا لثارات الحسین))۔
اے ابن شبیب !میرے باپ نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جدّ سے یہ نقل کیا :جب میرے داداحسین کو شہید کیا گیا تو آسمان نے سرخ خون اور خاک برسائی ۔
اے ابن شبیب! اگر تو حسین پر اس قدر آنسو بہائے کہ تیرے رخسار پر جاری ہ وجائے تو خداوند متعال تمہارے سب چھوٹے بڑے گناہوں کو معاف کر دے گا چاہے وہ کم ہوں یا زیادہ ۔
اے ابن شبیب ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ جب خداکی بارگاہ میں پیش ہو تو گناہوں سے پاک ہو توحسین علیہ السّلام کی زیارت کر ۔
اے ابن شبیب! اگر پیغمبر
ۖ کے ہمراہ جنّتی مکانوں میں رہنا پسند کرتا ہے تو حسین علیہ السّلام کے قاتلوں پر لعنت بھیج ۔
اے ابن شبیب ! اگر تو یہ چاہتا ہے کہ تیرا شمار ان لوگوں کے ساتھ ہو جو حسین علیہ السّلام کے ساتھ شہید ہوئے تو جب بھی انہیں یاد کرے یہ کہہ: یا لیتنی کنت معھم فأفوز فوزا عظیما.(سورہ نساء :٧٣.)
اے ابن شبیب ! اگر تو یہ پسند کرتا ہے کہ ہمارے ساتھ جنّت کے بلند درجات پر فائز ہو تو ہمارے غم میں غم مناؤ اور ہماری خوشی میں خوش ہو ،اور تجھ پر ہماری ولایت واجب ہے ،اس لئے کہ اگر کوئی شخص پتھر سے محبّت کرتا ہے تو خداوند متعال اسے اسی کے ساتھ محشور کرے گا۔
عمرو لیث ایک شیعہ بادشاہ تھے ایک دن اپنے لشکرکی دیکھ بھال کے لئے نکلے تو معلوم ہوا کہ اس کے لشکر کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہو چکی جیسے ہی سنا اپنے کو گھوڑے سے گرایا اور سر سجدے میں رکھ کر گریہ کرنے لگے ۔
جب تھوڑی دیر بعد سر سجدے سے اٹھایا تو ایک غلام نے آگے بڑھ کر کہا : اے بادشاہ سلامت ! جس کے پاس اتنے غلام ،اتنا بڑالشکراور پھر کوئی مشکل بھی نہ ہوتو اسے تو چاہئے کہ دوسروں کو رلائے اور خود نہ روئے ،دوسروں پرہنسے اور کسی کو اپنے اوپرہنسنے نہ دے ۔اس گریے کا سبب کیا ہے؟
عمرولیث نے کہا:جب میں نے اپنے لشکر کی تعداد دیکھی تو مجھے واقعہ کربلا یاد آگیا اور میں یہ آرزو کرنے لگاکہ اے کاش! میں اس لشکرکے ساتھ کربلا کے صحرا میں ہوتا اور فاسقوں کی گردنیں اڑاتا یا پھرخود اپنی جان قربان کر کے بلند درجات پر فائز ہوتا ۔
جب اسے موت آئی تو ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ وہ سر پر قیمتی تاج سجائے ،خوبصورت کمر بند باندھے ہوئے ہے ا ور اس کے دائیں بائیں غلام اور سامنے حوریں ہیں ۔جب اس پوچھا گیا کہ یہ مقام تجھے کیسے ملا تو کہا: خداوند متعال نے میرے دشمنوں کو مجھ سے راضی کردیااور میرے گناہوں کو بخش دیا اور یہ اس آرزو کی وجہ سے جو میں نے امام حسین علیہ السّلام کی مدد ونصرت کے لئے کی تھے[75] ۔

بارہویں حدیث
امام صادق علیہ السّلام نے زرارہ سے فرمایا:
((]یازرارة[انّ السّماء بکت علی الحسین علیہ السّلام أربعین صباحا بالدّم ، وانّ الأرض بکت أربعین صباحا بالسّواد ، وانّ الشّمس بکت أربعین صباحابالکسوف والحمرة ، وانّ الجبال انقطعت وتنثرت،وانّ البحار تفجّرت،وانّ الملائکة بکت أربعین صباحاعلی الحسین ، ومااختضبت منّا امرأة و لاادھنت ولااکتحلت حتّی أتینا رأس عبید اللہ بن زیاد( لعنہ اللہ) وما زلنا فی عبرة بعدہ،وکان جدّی اذاذکر ہ بکٰی حتّی تملأ عیناہ لحیتہ ،وحتّی یبکی لبکائہ رحمة لہ من رء اہ...)) [76]۔
اے زرارہ ! بے شک آسمان چالیس دن تک حسین علیہ السّلام پرخون رویا،زمین نے چالیس دن تک سیاہی کی صورت میں ان پرگریہ کیا،سورج نے چالیس دن تک گرہن اورسرخی کی صورت میں ان پر گریہ کیا، پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر پراکندہ ہوگئے ، دریا کی موجوں میں شدّت آگئی ، اس مظلوم کی شہادت کے بعد ہماری عورتوں نے نہ تو مہندی لگائی،نہ بالوں میں تیل ،نہ آنکھوں میں سرمہ اور نہ ہی پاؤں میں پازیب ڈالی ،یہاں تک کہ عبید اللہ بن زیاد ملعون کا سر ہمارے پاس لایاگیا ۔ اس واقعہ کے بعد ہم ہمیشہ گریہ کناں ہیں۔(اورپھر فرمایا:)میرے داداامام زین العابدین علیہ السّلام کی یہ عادت تھی کہ جب بھی
اس مصیبت کا تذکرہ کرتے تو گریہ کرنے لگتے،یہاں تک کہ ریش مبارک آنسوؤں سے ترہو جاتی۔اور اس قدر شدید گریہ کرتے کہ ہر دیکھنے والا ان پر ترس کھاتے ہوئے گریہ کرنے لگتا۔

تیرہویں حدیث
ابن عباس نے پیغمبر
ۖ سے ایک طولانی روایت نقل کی ہے جس کا ایک حصّہ ہم یہاں پر نقل کریں گے کہ جب جناب جبرائیل علیہ السّلام نے رسول خدا ۖ کو امام حسین علیہ السّلام کی شہادت کی خبر دی اور پیغمبر ۖ نے امام حسین علیہ السّلام کو بتایاتوانہوں نے کہا:
((...وأنایاجدّاہ ! وحقّ ربیّ وحقّک أن لم یدخلواالجنّة لم أدخل قبلھم ،وأطلب من ربّی أن یجعل قصورھم مجاورة لقصری یوم القیامة)).
اے ناناجان! مجھے اپنے ربّ اور آپ کے حق کی قسم ،میں اس وقت تک جنّت میں داخل نہیں ہوں گا جب تک کہ وہ داخل نہ ہو جائیں۔اور میں اپنے ربّ سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ روز قیامت ان کے قصر کو میرے قصر کے ساتھ قراردے۔

چودہویں حدیث
علاّمہ مجلسی رحمة اللہ علیہ نے نقل کیا ہے :
لمّا أخبرالنّبیّ ابنتہ فاطمة بقتل ولدھا الحسین ومایجری علیہ من المحن بکت فاطمة بکاء شدیدا ،وقالت: یاأبہ متٰی یکون ذلک ؟قال:فی زمان خال منّی ومنک ومن علیّ ،فاشتدّ بکائھا وقالت: یاأبہ ،فمن یبکی علیہ ؟ومن یلتزم باقامة العزاء لہ؟فقال النّبیّ:یافاطمة انّ نساء اُمّتی یبکون علی نساء أھل بیتی ،ورجالھم یبکون علی رجال اھل بیتی،ویجدّدون العزاء جیلا بعد جیل،فی کلّ سنة فاذا کان یوم القیامة تشفعین أنت للنساء وأنا للرّجال وکلّ من بکی منھم علی مصائب الحسین أخذنا بیدہ وأدخلناہ فی الجنّة .یا فاطمة کلّ عین باکیة یوم القیامة الاّ عین بکت علی مصائب الحسین فانّھا ضاحکة مستبشرة بنعیم الجنّة[77] ۔
جب رسول خدا
ۖ نے حضرت فاطمہ کو ان کے بیٹے حسین کی شہادت اور ان پر آنے والے مصائب کی خبر دی تو انہوں نے شدید گریہ کیا اور عرض کیا:اے باباجان! یہ واقعہ کب پیش آئے گا ؟فرمایا: جب نہ میں ہوں گا ،نہ تم ہو گی اور نہ علی ہوں گے ۔فاطمہ زہرائ نے مزید گریہ کیااور عرض کیا:باباجان ! کون ان پر گریہ کرے گا؟اورکون ان کی عزاداری برپاکرے گا؟فرمایا: اے فاطمہ ! میری امت کی عورتیں ہمارے اہل بیت کی عورتوں پر روئیں گی اور ان کے مرد ہمارے مردوں پر روئیں گے ، اور ان کی عزاداری ہر سال ایک نسل سے دوسری نسل زندہ رکھے گی ،اور جب روزقیامت آئے گا تو تم عورتوں کی شفاعت کرو گی اور میں مردوں کی ۔اور جس جس نے حسین پر گریہ کیا ہو گا ہم اس کا ہاتھ تھام کر اسے جنّت میں داخل کردیں گے۔اے فاطمہ ! روز قیامت ہر آنکھ گریہ کنا ں ہوگی سوا اس آنکھ کے جس نے حسین پر گریہ کیا ہوکہ وہ اس دن جنّت کی نعمتوں کی وجہ خوشحال ہوگی

 

۰ نظر موافقین ۰ مخالفین ۰ 22 September 17 ، 19:01